وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر و مرشد پرویز رشید کو ایوان بالا سے خارج البلد قرار دے دیا گیا۔ سالار جمہوریت کو شکستہ دل رفیقوں کے لشکر میں مقام دوام کی عزت مبارک ہو۔ جس نشست سے محروم کیا گیا، وہ ایک میعادی امانت تھی، جو اعزاز نصیب ہوا، وہ ایک ابدی منصب ہے۔ مزاحمت کی سپہ کے رجز گزار کو قبیلہ حریت کی صف اول تک رسائی پر دلی تبریک۔ ”فروغ گلشن و صوت ہزار“ کے اس سفر میں شکستہ پائی ہی سالکان صادق کی معراج ہے۔ سعدی شیراز نے فرمایا، در سینہ ہائے مردم عارف مزار ما۔ ہمارے اردو شاعر نے لکھا، معاملہ ہی کیا ہو اگر زیاں کے لئے…
55 برس پر پھیلے ہوئے استقامت کے اس مسلسل امتحان میں گرفتاری، اسیری، عقوبت، صعوبت، تشدد، جلا وطنی، الزام، دشنام، بہتان، عناد اور کھلی سازش سے کمرہ عدالت میں نا انصافی تک کون سی آزمائش نہیں دیکھی۔ کار فرہاد مگر سانس کی ڈوری سے بندھا ہے، گماں مبر کہ بہ پایاں رسید کار مغاں۔ پرویز رشید جیسے سپاہی ہتھیار نہیں ڈالتے، مقام محفوظ کی طرف مراجعت نہیں کرتے، ان کے فرمان امروز اور ارادہ فردا میں ایک ہی لفظ لکھا ہے، پیش قدمی۔
ہمارے ملک میں اجتماعی سفر کے بارے میں دو مکاتب فکر پائے جاتے ہیں۔ ایک کو زمین سے غرض ہے، دوسرے کو زمین پر بسنے والوں کی فکر ہے۔ ایک نے ملک کے محل وقوع سے امید باندھی ہے، دوسرا اہل وطن کے پیداواری، تخلیقی اور جمہوری امکان پر یقین رکھتا ہے۔ ایک گروہ خیال کرتا ہے کہ 74 برس قبل ہم نے آزادی اس لئے حاصل کی تھی کہ اس ملک کے افتادگان خاک کی قسمت سے کھلے عام کھلواڑ کر سکیں۔ ایک سمجھتا ہے کہ قومی آزادی بذات خود منزل نہیں، قومی تعمیر کی ذمہ داری اٹھانے کا پیمان ہے۔
ایک گروہ کی پرواز تین ماہ کے وعدے سے تین برس کی توسیع تک محیط ہے۔ دوسرا گروہ سمجھتا ہے کہ جمہوری نصب العین تسلسل ہے تاریخی روایت، لمحہ موجود کے تضاد اور آئندہ کے امکان کا۔ ایک ذرا سی دھوپ تیز ہونے پر ملک سے بھاگ نکلتا ہے، دوسرا وطن کی مٹی کو آنکھ کا سرمہ سمجھتا ہے۔ ایک خود کو حساس کہتا ہے، دوسرا احساس رکھتا ہے۔ ایک قومی مفاد کی آڑ لیتا ہے، دوسرا جمہوری مفاد کی حفاظت میں سینہ سپر ہوتا ہے۔ ایک نے ’منزل ملی، مراد ملی، مدعا ملا‘ کا مصرع ڈھونڈ رکھا ہے، دوسرے کے درس مکتب میں گفتہ غالب تحریر ہے، ’ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا‘ ۔ ایک شرار بولہبی ہے، دوسرا چراغ مصطفوی ہے۔
10 مارچ 1951 کو پنجاب کے پہلے صوبائی انتخاب میں مرزا ابراہیم ہار گئے، ڈپٹی کمشنر سید سعید جعفری کے ”جھرلو“ کی بدولت احمد سعید کرمانی 13 ووٹوں سے جیت گئے۔ کرمانی مرحوم وقت کے غبار میں اوجھل ہو چکے، مرزا ابراہیم کا نام روشن ہے۔ مولوی تمیز الدین مقدمہ ہار گئے، غلام محمد تاریخ ہار گئے۔ 20 مئی 1956 کو اسپیکر مغربی پاکستان اسمبلی کے انتخاب میں سردار عبدالرب نشتر کے امیدوار غلام علی تالپور ہار گئے۔ چیئرمین ممتاز قزلباش کے کاسٹنگ ووٹ سے اسکندر مرزا کے امیدوار فضل الہٰی چوہدری جیت گئے۔ پاکستان میں ڈاک ٹکٹ نشتر صاحب کے نام سے جاری کیا گیا ہے۔
حسین شہید سہروردی ایبڈو کا مقدمہ ہار کے پانچ برس قید رہے، آج واحد سیاست دان ہیں جنہیں پاکستان اور بنگلہ دیش میں یکساں احترام حاصل ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان سے صدارتی انتخاب ہار گئیں، مادر ملت کا اعزاز جیت لیا۔ عبدالغفار خان، غوث بخش بزنجو، عبدالصمد اچکزئی اور حیدر بخش جتوئی اپنے رفقا سمیت امر ہو چکے، ان کا حوصلہ آزمانے والے بے نشان ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سزا سنانے والے حرف بے معنی ہو چکے، بھٹو کے نام کا سکہ کھنک دیتا ہے۔
بے نظیر کی کردار کشی کرنے والے کھو گئے، قاتل منہ چھپائے پھرتے ہیں، بے نظیر کی وراثت زندہ ہے۔ یوسف رضا گیلانی سینٹ کا انتخاب لڑ رہے ہیں، انہیں نا اہل قرار دینے والے سوئس اکاؤنٹس ڈھونڈنے گئے ہیں۔ میمو گیٹ، ڈان لیکس اور پانامہ لیکس کل کے قصے ہیں، سازش کا کوئی ماضی ہوتا ہے اور نہ مستقبل۔ سیاسی عمل، دستور کی بالادستی اور انصاف کی لڑائی میں دریا کی روانی ہے اور سمندروں کا پھیلاؤ۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا قوم کچھ مٹھی بھر بہادروں سے تشکیل پاتی ہے؟ اور یہ کون لوگ ہیں جو ہر موڑ پر اقتدار کی آرتی اتارنے نمودار ہو جاتے ہیں۔ کیا بہادری کوئی بخشندہ خصوصیت ہے؟ کیا سقراط، گیلیلیو اور نیلسن مینڈیلا کے ڈی این اے میں کچھ خاص ایسا تھا جو دوسروں کو نصیب نہیں ہوا۔
دیکھیے، بہادری اور بزدلی اضافی اصطلاحات ہیں۔ تاریخ کی کوئی کتاب نکال کر کسی بڑے سے بڑے رہنما کی پورے کروفر اور تمغوں کی تام جھام میں تصویر ملاحظہ کریں اور پھر اسی شخص کی گرفتاری یا آزمائش کے لمحوں پر ایک نظر ڈالیں۔ ہم سب انسان جسمانی قد و قامت، ذہنی استعداد اور بہادری میں کم و بیش ایک جیسے ہیں۔ فرق اس ایک بنیادی فیصلے سے طے پاتا ہے جو ہم ضمیر کی تنہائی میں اپنے آپ سے کرتے ہیں۔ دیانت یا دھوکہ، اصول یا مصلحت پسندی، راستہ نکالنا ہے یا ہاتھ پاؤں توڑ کے بیٹھ رہنا ہے۔ دیوار سے سر ٹکرانا ہے یا تدبیر سوچنا ہے۔ اپنی ذات کو کائنات کا مرکزہ سمجھنا ہے یا اپنے جیسی سادھارن مخلوق سے رشتہ جوڑنا ہے۔
استاد محترم فرمایا کرتے تھے کہ انسان کا ایک بنیادی المیہ جسمانی اور ذہنی مزاحمت میں فرق ہے۔ انسانی جسم کمزور ہے، اذیت کے سامنے ہار مان جاتا ہے، انسانی ذہن کی مزاحمت کی کوئی حد نہیں۔ ذہن انسانی کو تشدد نہیں، صرف دلیل سے قائل کیا جا سکتا ہے۔ مہذب انسان پرامن مکالمے سے مرتب ہونے والی جمہوریت کو اسی لئے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ طاقت کا اصول مان لینے سے نا انصافی کو فروغ ملتا ہے۔ تشدد اور انصاف میں ناقابل سمجھوتہ تضاد ہے۔ پرویز رشید دلیل اور مکالمے کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں ایک لایعنی بہانے کی مدد سے سینیٹ تک پہنچنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اہل پاکستان سے ان کا مکالمہ ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر