نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خواتین شدت پسندوں کا ٹارگٹ کیوں بنیں؟||عفت حسن رضوی

پاکستانی فوج نے 22 فروری کو دہشت گردی کے خلاف ملٹری آپریشن رد الفساد کی کامیابی سے دنیا کو آگاہ کیا اور اسی دن شمالی وزیرستان میں چار ایسی خواتین کو قتل کر دیا گیا جن کا قصور محض بہتر مستقبل کی تلاش تھا۔

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے بائیس فروری کو دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کے آپریشن رد الفساد کی کامیابی سے دنیا کو آگاہ کیا۔ عین اسی روز پاکستان کے سرحدی علاقے شمالی وزیرستان میں میر علی تھانے کی حدود میں ایک واقعہ پیش آیا۔
پیر 22 فروری کی صبح میر علی کے گاؤں اپی سے ایک این جی او کی گاڑی گزر رہی تھی جس میں بیٹھی بنوں کی پانچ خواتین اپنے کام کی جگہ پہنچنے کو تھیں۔ ان کی گاڑی کو روک کر ان پر دو دہشت گردوں نے حملہ کردیا جس سے چار خواتین موقع پر ہی دم توڑ گئیں ڈرائیور زخمی ہوا اور ایک خاتون نے جیسے تیسے قریبی گھر کا دروازہ کھلا دیکھ کر اس میں پناہ لی اور جان بچائی۔
سوال یہی ہے کہ عام سے پشتون خاندانوں کی، ماسٹرز کی ڈگری لینے جیسی معمولی خواہشیں رکھنے والی یہ نوجوان خواتین ٹارگٹ کیوں بنیں؟
یہ خواتین ہفتے میں تین روز بنوں سے نکلتی تھیں، میر علی کے ایک دستکاری سینٹر میں سلائی کڑھائی سکھانے کے عوض یومیہ ایک ہزار روپے انہیں ملتے تھے اور دن ہی دن میں یہ واپس بنوں آجایا کرتی تھیں۔
ان باپردہ خواتین کے روز و شب پر غور کریں تو گھر کے وہی عمومی کام کرنے، فرض نمازیں پڑھنے اور رشتے نبھانے کے علاوہ کوئی متنازعہ وابستگی، کوئی غیر سماجی یا سیاسی سرگرمی نہیں ملے گی۔ پھر کیوں یہ کسی شدت پسند کا نشانہ بن گئیں؟

اس بظاہر سادہ سے سوال کا جواب بڑا مشکل ہے۔ میں تو سینیٹ کے الیکشن اور ووٹنگ سسٹم کی خرابیوں پر لکھنے کا موڈ بنائے بیٹھی تھی کہ کراچی کی صحافی سمیرا ججہ سے باتوں باتوں میں یہ خبر نکل آئی۔ میں نے پوچھا کہ بڑے شہروں میں رہنے والی خواتین ان چار عورتوں کے قتل پر کیا محسوس کرتی ہیں؟

سمیرا ججہ کہنے لگیں کہ یہ چار عورتوں کا نہیں ان گنت ایسی خواتین کی خواہشوں اور حوصلوں کا قتل ہے جو اپنا کیرئیر بنانے یا پڑھنے کے لیے گھر سے باہر نکلنے کا ارادہ کیے بیٹھی تھیں اور یہ واقعہ قبائلی اضلاع کی ان تمام لڑکیوں پر اثر انداز ہوا ہوگا جو گھر کے مردوں کو بتانا چاہتی ہوں گی کہ ابھی وہ مزید پڑھنا چاہتی ہیں یا انہیں نوکری کی اجازت درکار ہے۔

میں نے اعتراف کیا کہ پیر کے روز جب یہ خبر آئی تو سرسری سی خبر پڑھ کر گمان گزرا کہ ‘غیرت‘ کا کوئی معاملہ ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر بھی اس خبر کے حوالے سے نہ کوئی ٹرینڈ ہے نہ زیادہ شور۔ بس اکا دکا خبریں تھیں، مگر تفصیلات سے علم ہوا کہ ایسی بزدلانہ کارروائی کے پیچھے شدت پسند کار فرما ہیں۔ اب تو آئی ایس پی آر کے مطابق ان کا قاتل دہشت گرد بھی آپریشن میں مارا گیا ہے۔

سمیرا نے کہا کہ ایسے واقعات چاہے کتنے ہی میلوں دور کیوں نہ ہوں اس کا خوف ہر وہ عورت محسوس کرتی ہے جو رزق حلال کمانے، پڑھنے یا کسی دیگر کام سے گھر سے باہر نکلتی ہے۔ ہم دونوں نے تو افسوس کر کے بات ختم کر دی مگر میرے پاس لکھنے کے لیے پھر سیاست نہیں ان چار بےگناہ خواتین کا ذکر ہی رہ گیا۔

لیکن اب تو اسامہ بن لادن کی موت اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کی مبینہ جعلی این جی او والے واقعے کو بھی گزرے عرصہ ہوگیا۔ کیا آج بھی خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں این جی اوز کے عملے کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے؟

پشاور کے سینیئر صحافی لحاظ علی نے جواب میں اچھا خاصہ نقشہ کھینچا۔ کہنے لگے اب غیرسرکاری اداروں کی قبولیت بڑھی ہے کیونکہ این جی اوز مکمل طور پر مقامی افراد پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اورکزئی، مہمند، باجوڑ، کرم میں کافی خواتین سماجی شعبوں میں مصروف ہیں۔ مکمل آزادی تو خیر اب بھی نہیں لیکن ماضی کی نسبت بہتر ہیں۔

میر علی واقعے کے بعد ان علاقوں میں کام کرنے والی کچھ این جی اووز نے اعلانیہ یا غیراعلانیہ آپریشنز عارضی طور پر معطل کر دیے ہیں جن میں خواتین عملے کو بالخصوص ہدایات دی ہیں۔

اگر این جی اوز سے اتنا مسئلہ نہیں تو پھر یہ چار خواتین کس جرم میں شدت پسندوں کا نشانہ بن گئیں؟ میرا سوال وہیں کا وہیں تھا۔ لحاظ علی بتانے لگے کہ کچھ عرصہ قبل شدت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والے ذرائع سے بھی انہوں نے یہی سوال کیا تھا کہ عورتیں ٹارگٹ کب اور کیوں بنتی ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ عورتوں کو نشانہ بنانے کا مقصد بین الاقوامی سطح پر بڑی خبر بنانا، ڈویلپمنٹ سیکٹر کو براہ راست وارننگ دینا، حکومت اور ملٹری کو دباؤ میں لانا ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں خواتین اور بچے آسان ہدف ہوتے ہیں اور خوف گھر گھر پھیلتا ہے۔

لحاظ علی مزید کہنے لگے کہ بعض واقعات میں مشہور شدت پسند تنظیمیں ملوث نہیں ہوتیں بلکہ غیرمقبول شدت پسند عناصر بھی انفرادی طور پر اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لیے ایسے گھناؤنے جرائم کرتے ہیں۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جنہیں پاکستانی فوج نے کلئیر قرار دیا ہے۔

پشاور کے نوجوان صحافی اظہار اللہ نے اس اندوہناک واقعے کی کوریج کی ہے، ان کا خیال کچھ مختلف ہے۔ ان کے مطابق قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے شہروں کے اردگرد مضافاتی اور دیہی علاقوں میں آج بھی این جی اووز کو مغربی ایجنٹ سمجھا جاتا ہے۔ یہ لگ بھگ وہی مائنڈ سیٹ ہے جو پولیو ویکسین مہم کی ناکامی کے پیچھے کارفرما ہے۔

میں نے پوچھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے واقعات میں یہ بھی گمان کیا جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے یہ عورتیں یا این جی او مشکوک ہو؟

اظہار اللہ کہنے لگے کہ این جی اووز کی خواتین صرف شدت پسند تنظیموں کو ہی نہیں بہت سے عام افراد کو بھی کھٹکتی ہیں، پھر چاہے وہ کمیونٹی ویلفیئر کا کام ہی کیوں نہ کرتی ہوں، قبولیت صرف استانی بننے کی حد تک ہے، بہت سے سخت گیر علاقوں میں تو اس کی بھی گنجائش نہیں۔

ان چار خواتین کا قصہ تو وہیں ختم ہوا میر علی کی جس گلی میں ان کا خون ناحق بہہ گیا۔ مگر اپنے معمولی سے خوابوں، چھوٹی سی خوشیوں اور بے ضرر خواہشوں کو پانے کے لیے مزید کتنی خواتین کو آگ کا یہ دریا پار کرنا ہے، مزید کتنی خواتین مذہب، غیرت، سیاست، ثقافت یا پھر دہشت کے نام پر بے قصور مار دی جائیں گی؟ ان کے قصے ابھی ناتمام ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

About The Author