نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لاپتہ افراد کا معاملہ کیا واقعی حکومت کے بس میں ہے؟||عفت حسن رضوی

سوال حکومت کی نیت کا نہیں استطاعت کا ہے۔ کیا ملک کے کونے کونے سے جبری گمشدہ کیے جانے والے یا لاپتہ ہوجانے والے افراد کی معلومات اکٹھا کرنا حکومت کے لیے ممکن ہے؟

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نصر اللہ بلوچ کو ان دنوں لگ بھگ روزانہ ہی سپریم کورٹ آتے دیکھا جب سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدالت میں لاپتہ افراد کے مقدمات پکارے جاتے تھے۔ لاپتہ افراد کیس میں ڈھیروں درخواستیں خیبر پختونخوا سے دائر کی گئیں تھیں، کئی سائلین پنجاب سے آتے تھے جبکہ بلوچستان سے آنے والوں میں ایک چہرہ نصر اللہ بلوچ کا تھا۔

جو کبھی سپریم کورٹ کی راہداریوں میں لاپتہ افراد کی فہرستیں لیے پھرتے تھے وہ اسلام آباد کے ڈی چوک سے دھرنا دینے والی بلوچ ماؤں بہنوں کو واپس بلوچستان لے جاتے نظر آئے کیونکہ وہ شہر اقتدار کے وقتی دلاسوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔

افتخار چوہدری ریٹائر ہوئے مگر لاپتہ افراد کیسز لگتے رہے۔ ایک بار میں نے نصر اللہ سے پوچھا  تھا کہ وہ ان مقدمات کی پیشی کے لیے کیا اسلام آباد میں ہی رہتے ہیں یا بلوچستان سے اکثر آنا پڑتا ہے، انہوں نے بتایا کہ صرف عدالت پیش ہونے کے لیے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو کیسے کیسے قرض لینے پڑتے ہیں، یہ ہوٹل کرائے پر لینے کی سکت نہیں رکھتے تو بوڑھے والدین بلوچستان سے اسلام آباد کا سفر پھر سپریم کورٹ پیشی اور پھر واپسی کا سفر کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں ان دنوں لاپتہ افراد کے پتے ڈھونڈنے میں عاصمہ جہانگیر بہت مستعد رہتی تھیں، جبکہ سپریم کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی بھی لاپتہ افراد کے وکیل کے طور کئی بار پیش ہوئے۔

ان وکلا نے کئی خاندانوں کو ان کے پیارے ڈھونڈنے میں مدد کی، لاپتہ افراد کمیشن بھی دھکا سٹارٹ ہی سہی کچھ نہ کچھ کر رہا تھا مگر پھر یہ سلسلہ ایک دم منقطع ہوگیا، سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمات ترجیحات کی فہرست میں نیچے جانا شروع ہوئے یہاں تک کہ اب یہ حال ہے کہ مہینوں گزر جاتے ہیں مقدمے نہیں لگتے۔

سپریم کورٹ میں کتنے ہی چیف آئے چلے گئے، پاکستان میں وزیراعظم کے عہدے پہ سجے چہرے بھی بدل گئے اور ہاں لاپتہ افراد کی فہرستیں بھی بدل گئیں۔ اب اس فہرست میں لاپتہ سندھی قوم پرست، لاپتہ ہزارہ، لاپتہ سیاسی کارکن اور لاپتہ سماجی کارکن کا اضافہ ہوچلا ہے۔

جب کھوئے ہوئے لوگوں کے گھر والوں نے قومی اسمبلی کے سامنے ڈی چوک پر دھرنا دیا، وزیراعظم سے ملنے کا مطالبہ کیا اور جب ڈی چوک کے فرش نشینوں سے سابق وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز مل رہی تھیں تب ایک ہی سوال زیر لب رہا کیا درد کا علاج ملے گا یا محض دلاسے؟

امید کرتی ہوں کہ دیگر معاملات کی طرح سابق وزیر اعظم نواز شریف اس ایشو پر بھی تفصیلی بات کریں گے۔  قوم کو بتائیں گے کہ انسانی حقوق کے سنگین مسئلے کے حل کے لیے انہوں نے کیا کوششیں کی تھیں۔

کیا ڈاکٹر شیریں مزاری کا یہ وعدہ کافی ہے کہ وزیراعظم اگلے ماہ لاپتہ افرد کے اہل خانہ سے ملیں گے، جبکہ اس وعدے کے چار دن بعد ہی بروز بدھ جب حسیبہ قمبرانی قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کمیٹی کو اپنے مسائل سے آگاہ کر رہی تھیں حکمران جماعت کے ممبران پہلے ہی اجلاس سے واک آوٹ کرگئے۔

یقیناً واک آوٹ کرنے والے ممبران سمیت پوری حکمراں جماعت کو اندازہ ہے کہ لاپتہ افراد کا حساس معاملہ ان کے بس کا نہیں، حکومت قومی اسمبلی میں کوئی قانون سازی کا بل لے آئے یا چاہے نئی کمیٹی یا کمیشن بنا دے جب تک اس معاملے کے حل کے لیے ملکی دفاعی اداروں کو شامل نہیں کیا جائے گا ہر حل بے سود ہوگا۔

سوال حکومت کی نیت کا نہیں استطاعت کا ہے۔ کیا ملک کے کونے کونے سے جبری گمشدہ کیے جانے والے یا لاپتہ ہوجانے والے افراد کی معلومات اکٹھا کرنا حکومت کے لیے ممکن ہے؟ آپ سوچیں گے کہ بھئی یہ معلومات تو پہلے ہی حکومت کے پاس ہوں گی کہ کس کو کس نے اٹھایا۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان اسلام آباد سے لاپتہ کیے جانے اور رات گئے واپس بھیج دیئے جانے والے صحافی  مطیع اللہ جان کیس میں پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ انہیں نہیں پتا کس نے اٹھایا۔

ملک دشمنی، بھارتی ایجنٹ اور غداری کے الزامات سے پرے اک لمحے کو سوچیں کے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے مطالبات کیا ہیں۔ یہ پوچھ رہے ہیں کہ ان کے کھوئے ہوؤں کا قصور کیا ہے۔

اگر وہ ملک دشمن ہیں، کسی عقوبت خانے میں قید ہیں تو ان کے خلاف مقدمہ چلائیں، گھر والوں کو بتائیں۔ اگر وہ لاپتہ کیے جانے والے دہشت گرد ہیں یا کسی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں تو عدالتیں موجود ہیں مقدمہ چلائیں، ان کے گھر والوں کو بتائیں۔

اگر وہ ملک و قوم یا انسانیت کے خلاف سرگرمی میں ملوث تھے، اس کے ثبوت دیں، کسی آپریشن میں مارے گئے تو بھی گھر والوں کو بتائیں۔ اگر کوئی لاپتہ شخص اپنی منشا سے غائب ہے، کسی سرگرمی کا حصہ ہے، یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو علم ہے نہ ان کی تحویل میں ہے تب بھی بتائیں۔

 لاپتہ افراد کے معاملے کو عالمی دباؤ کے ڈر سے دیکھیں یا پاکستانی آئین و قانون کی نظر سے۔ ایک محب وطن  پاکستانی کے دل سے سوچیں، متاثرہ خاندانوں کو مسلمان جان کر احساس کریں یا محض ایک انسان ہوکہ اس مسئلے کا جائزہ لیں۔ آپ ہر زاویے سے ایک ہی نتیجے پہ پہنچیں گے کہ اس معاملے کا مستقل حل پاکستان کے حق میں ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

About The Author