گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میں جب ڈیرہ اسماعیل خان کو دیکھتا ہوں اور پرانی تاریخ پڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ھے کہ محبتیں مری نہیں بلکہ محبتیں ہماری بے وفائی کا شکار ھو گئیں !!! یہ تو آپ نے سن رکھا ھے کہ عبادت سے جنت اور خدمت خلق سے خدا ملتا ھے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غار حرا سے قران کے نزول کی پہلی آیت لے کر گھر پہنچے تو آپ پر ایک ھیبت طاری تھی۔ حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کو کمبل اوڑھایا اور جو تسلی کے الفاظ کہے وہ ہیومین رائیٹ کا دستور بن گئیے۔اماں خدیجہؓ نے کہا۔۔۔۔ اے محمدؐ آپؐ نہ گبھرائیں۔آپؐ بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔۔۔
پیاسوں کو پانی پلاتے ہیں۔۔۔بھٹکوں کو راہ دکھاتے ہیں۔ اللہ پاک آپؐ کو ضائیع نہیں کرے گا۔۔ تو میرے بھائیو یہ تھا خدمت خلق کا کام جو ہم نے بھلا دیا۔ حیرت ناک بات ھے کہ ڈیرہ شھر میں بٹوارہ سے پہلے مسلمان۔ھندو ۔انگریز خدمت خلق کے کاموں میں مشغول نظر آتے ہیں اور آج ہم ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے۔فرقہ واریت اور قومیت کی نفرت پھیلانے اور دھشت گردی اور خونریزی کا شکار ھو گئیے۔
گویا ہماری غلط کا روائیوں کی وجہ سے برکت ختم ھو گئی۔آپ سوچیں ہم کب تک ان عذابوں کی پرورش کرتے چلے جائیں گے اور کیا یہ عذاب پھر نئی نسل کو بھی دے کر جائیں گے؟ ۔۔آیئے دیکھتے ہیں آج سے سو سال پہلے اس شھر میں کیا ہو رہا تھا۔ڈیرہ شھر میں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا صرف مسلمان اور ہندو حکیم تھے جو پنسار کی دکان بھی چلاتے۔یہ لوگ خود خمیرہ جات۔عرق۔سفوف اور مرہم بناتے اور ان کے علاج سے لوگ شفا پاتے۔ جب کوئی بیمار ہوتا تو حکیم بغیر فیس کے اس کے گھر معائنہ کرنے جاتا اور بہت سستی اور برائے نام قیمت پر دوائی دیتا جس سے مریض ٹھیک ہو جاتا۔
ان حکیموں میں ایک مشھور جراح گائمن خان سکلی گراں والی گلی میں بیٹھتا تھا۔اس کے پاس گلابی رنگ کی مرہم۔ سیاہ رنگ کا پاوڈر۔ڈبوں میں سفوف اور موٹی موٹی گولیاں رکھی ہوتیں۔ ایک پرانے کپڑوں کی گٹھڑی بھی ساتھ پڑی ھوتی جو زخموں کو صاف کرنے اور پٹی باندھنے کے لئیے کام آتی۔اس کی دوائی بدترین زخم اور پھوڑے ٹھیک کر دیتی جس پر ڈاکٹر بھی حیران تھے۔ اس کے بعد اس کے بیٹے نازو خان بھی کامیابی سے کام کرتے رھے اور اب بھی انکے خاندان کا کوئی موجود ھو گا۔
ڈاکٹر بگو بھی ایک سال پہلے وفات پا گئے۔ ایلوپیتھک میں سب سے پہلے ڈاکٹر سید جلال حسین شاہ نے فوج سے ریٹائر ھو کر کلینک کھولا ۔بعد میں ہندو ڈاکٹر چمن لال نے چھوٹے بازار میں دکان کھولی۔ہمارے شھر کے سول ہسپتال کی بنیاد انگریزوں نے 1851ء میں رکھی ۔ڈیرہ میں انگریزی تعلیم کا آغاز 1863ء میں سٹی مڈل سکول کے نام سے ہوا جو اب نمبر ایک ہائی سکول ھے۔1864ء میں چرچ مشن سکول شروع ہوا۔1887ء میں ہندوٶں نے وکٹوریہ بھرتری ہائی سکول کی بنیاد رکھی۔
راۓ بہادر ٹھاکروت نے ویدک بھرتری کالج بنایا جو 1935ء میں ڈگری کالج بن گیا۔1890ء میں انجمن حمایت اسلام نے اسلامیہ ہائی سکول کا آغاز کیا۔1934ء میں سکھوں نے خالصہ ہائی سکول کھولا۔ ہندو سبھا نے 1881ء میں لڑکیوں کا سکول بنایا۔پارٹیشن کے فسادات میں ایک ہندو ڈاکٹر۔۔ بَنا ۔۔اور ڈاکٹر شمبر ناتھ کا ذکر ملتا ھے جو دن رات علاج کرتے اسی طرح رام دیال۔شیو دیال۔جیسالوٹھا رام کا ذکر بھی کیا جاتا ھے۔اجکل ٹی بی ایسوایشن کا دفتر بھی ہندوٶں کے ہسپتال بھاٹیہ بازار میں ھے۔
تو میرے عزیزو سوال یہ نہیں ھے کہ ہمارے مسائل کیا ہیں ؟
سوال تو یہ ھے کہ کام شروع کہاں سے کیا جاۓ۔۔ہمیں کام کرنا ہی نہیں آتا یا پھر ہم کیمروں اور اخباری رپورٹروں کے سامنے کام کرتے ہیں۔۔یار۔۔ اللہ تعالے فیس بک نہیں دیکھتا تمھارے دلوں کو دیکھتاھے کہ تم کتنے مخلص ہو۔۔ ان حالت کو دیکھر یہ اشعار یاد آتے ہیں۔۔۔؎؎؎
کبھی تو بیعت فروخت کردی کبھی فصیلیں فروخت کر دیں۔
میرے وکیلوں نے میرے ہونے کی سب دلیلیں فروخت کر دیں۔
وہ اپنے سورج تو کیا جلاتے میرے چراغوں کو بیچ ڈالا۔
فرات اپنے بچا کے رکھے میری سبیلیں فروخت کر دیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر