دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انڈیجینس لوگوں کی دکھ بھری کہانیاں||عزیز سنگھور

لیاری، ملیر، ہاکس بے، ماری پور، لال بکھر، گریکس ولیج، مبارک ولیج، گڈاپ، منگھوپیر، مواچھ سمیت دیگر قدیم آبادیوں میں ایک بے چینی اور مایوسی کی فضا قائم ہے۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی کی قدیم بلوچ آبادیوں کو سیاسی پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل نے گھیرے میں لیاہوا ہے ۔ مضبوط پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے ان کی سیاسی قوت کمزور ہوگئی ہے۔ ان کی مرکزیت پارہ پارہ ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ایک سیاسی جمود کی وجہ سے وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان کی آبادی کو ہٹایا جارہا ہے۔ ان کی زرعی اراضی کو بلڈر مافیاز کے حوالے کیا جارہا ہے۔ ان کی چراگاہوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ ان کی ماہی گیری کرنے کے اہم مقامات پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ لیاری، ملیر، ہاکس بے، ماری پور، لال بکھر، گریکس ولیج، مبارک ولیج، گڈاپ، منگھوپیر، مواچھ سمیت دیگر قدیم آبادیوں میں ایک بے چینی اور مایوسی کی فضا قائم ہے۔
ماری پور، گریکس ولیج سمیت دیگر علاقوں کو صدیوں پرانی آبادی ہونے کے باوجود مالکانہ حقوق حاصل نہیں ان علاقوں میں نئی آبادیاں بسائی گئیں۔ جنہیں مالکانہ حقوق حاصل ہیں۔ ان میں جاوید بحریہ، نیول کالونی اور دیگر شامل ہیں۔ حالانکہ جاوید بحریہ مقامی افراد کی اراضی پر قائم کی گئیں ۔ کسی زمانے میں یہاں باغات ہوا کرتے تھے۔ لوگ کھیتی باڑی سے اپنی گزر بسر کرتے تھے۔ ان کے باغات کو بزور طاقت قبضہ کیاگیا۔ ماری پور میں سمندری نمک کی تیاری کا کام کئی صدیوں سے جاری ہے۔ برطانوی دورمیں نمک سازی کوصنعت کا درجہ حاصل تھا کراچی میں برطانوی شہری کیپٹن ماری چیف سالٹ ریونیوآفیسر کے طور پر تعینات تھے۔گمان غالب ہے کہ ماری پور کا نام کیپٹن ماری کے نام سے موسوم ہے۔ ماری پور کے بلوچوں نے ماری پور کے ساحل پر نمک بنانے کا کاروبار شروع کیا تھا۔ نمک کے یہ کارخانے یورپی باشندوں اور پارسیوں کی ملکیت ہوا کرتے تھے بلوچ یہاں نمک بنانے کے کام سے جڑے ہوئے تھے۔ جب پارسی اور یورپی باشندے یہاں سے چلے گئے۔ توانہوں نے یہ کارخانے مقامی بلوچوں کوفروخت کردیئے ۔ جن کی دستاویزات آج بھی ان کے پاس ہیں۔ کراچی کی انتظامیہ اور لینڈ مافیا کی وجہ سے اب یہ صنعت اپنی آخری سسکیاں لے رہی ہے۔ کیونکہ بلوچوں کی ملکیت کو زور زبردستی قبضہ کرکے وہاں نئی آبادیاں قائم کردی گئیں۔ساتھ ساتھ بڑے بڑے گودام بنائے گئے۔احتجاج کرنے پراصل حقداروں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔انہیں دھمکایا گیا۔اسی طرح برطانوی راج کے دور میں ماری پور کے قریب گریکس ولیج میں بھی نمک کے کارخانے ہوتے تھے۔ جہاں ایک جرمن نژاد یہودی گرین فیلڈ گریس نامی کمپنی کو یہاں کارخانہ بنانے کی اجازت دی گئی تھی اس کے بعد مزدوروں کی ایک کالونی گریکس کے نام سے قائم ہوگئی ۔ جرمن نژاد یہودی گرین فیلڈگریس نے جب یہاں اپنا کام بندکردیاتوانہوں نے یہ ساری ملکیت یہاں کے مقامی افراد کے نام الاٹ کردی تھی۔تاہم گریکس کے قریب ٹرک اڈے کا قیام عمل میں آیا۔جس کی وجہ سے یہاں ٹرانسپورٹرز نے اراضی پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ یہاں بڑے بڑے گودام بنائے گئے۔ مقامی افراد کو بے دخل کردیا گیا۔ اسی طرح ہاکس بے میں 30 سے زائد قدیم گوٹھ آباد ہیں۔ ان کے مال مویشی اور زرعی اراضی پر کالعدم کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) نے ترقی کے نام پر قبضہ کرلیا۔اور یہاں 42 ہزار سے زائدگھر بنانے کا منصوبہ بنایا۔ جس کو کے ڈی اے اسکیم 42 کا نام دیاگیا۔قدیم گوٹھوں کے چاروں اطراف میں دیواریں (باؤنڈری وال) لگادی گئیں۔ ان کی آبادی کو محدود کرنے کی سازش کی گئیں۔ پوری کی پوری آبادی کو جیل میں تبدیل کردیاگیا۔ اسکیم 42 میں کالعدم کے ڈی اے نے لوگوں سے اربوں روپے وصول کرنے کے باوجود بھی محکمہ ریونیو بورڈ آف سندھ کو اراضی کی ادائیگی نہیں کی۔ یہ مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے۔ جب شہید بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی۔تو انہوں نے لیاری کے عوام کو رہائشی سہولت فراہم کرنے کے لئے پہلے مرحلے میں 500 گھربنا کردیے۔ جو پانچ سو کوارٹرز ہاکس بے کے نام سے مشہور ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت نے کے ڈی اے کو کالعدم قراردے کر ان کی جگہ لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا۔جس کا مقصد تھا کہ لیاری کے عوام کو پانچ سو کوارٹرز کی طرح مزید ہاؤسنگ اسکیمز دی جائیں تاکہ لیاری کے عوام کو ایک چھت مل سکے۔ اس سلسلے میں ایل ڈی اے کو دیہھ مواچھ میں دو ہزار سات سو اراضی بھی دی گئیں۔ تاکہ وہاں مزید ہاؤسنگ اسکیم شروع ہوسکیں۔ تاہم ایل ڈی اے حکام نے اس کے برعکس کام شروع کردیا۔ سرکاری ادارہ ہوتے ہوئے ایل ڈی اے ایک قبضہ مافیا بن گیا۔ دیہھ مواچھ اور دیہھ لال بکھر کے مقامی زمینداروں کی اراضی بلڈرمافیاز کے حوالے کردی گئیں۔ پولٹری فارمز سمیت زراعی اراضی کو بلاجواز غیرقانونی قراردے دیاگیا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے نام سے روح گردانی میں مصروف ہے۔ ہاکس بے میں لیاری کے عوام کو بسانے کا کوئی منصوبہ بھی شروع نہیں کیا گیا۔
محکمہ ریونیو سندھ نے ہاکس بے کی خوبصورتی کو مہندم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ ہاکس بے میں بڑے بڑے گودام بنائے گئے۔ سرکاری سرپرستی میں اراضی کی بولی لگائی گئیں۔ دنیا میں ساحلی علاقوں میں گودام اور ویئر ہاؤسز بنانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ وہاں سیاحت کی صنعت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ تاکہ ٹورازم سے ریونیوں جنریٹ کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہاں دنیا کے برعکس پالیسیاں مرتب کی گئیں۔ جس سے پوری ساحلی پٹی آج گوداموں میں تبدیل ہوگئی ہے۔ جہاں بڑے بڑے ھیوی وہیکلز کا راج ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ سلسلہ مبارک ولیج تک چلا گیا۔ جہاں ہزاروں ایکڑ پر ڈیمارکیشن کی گئی۔ مقامی افراد کی آبادی کو محدود کیا گیا۔ یہاں تک انہیں نئے گھر بنانے کی اجازت آج بھی نہیں ہے۔ آئے روز ان علاقوں میں مقامی افراد کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ قدیم آبادی ہیں۔ جو برطانیہ راج سے قبل کی آباد ہیں۔ جس کی تاریخ تین سو سال پرانی ہیں۔ یہاں کی آبادی آج بھی پانی، تعلیم اور صحت جیسے اہم سہولیات سے محروم ہے۔ چرنا آئی لینڈ ماہی گیری کرنے کا ایک اہم مقام میں شمار ہوتا ہے۔ جہاں ایل این جی ٹرمینل بنانے کا منصوبہ زیرغور ہے۔ جس سے ہزاروں ماہی گیر معاشی طورپر تباہ ہوجائینگے۔ اور ٹرمینل بننے سے آبی حیات کو بھی شدید خطرات لاحق ہونگے۔
اسی طرح ضلع ملیر میں زیر تعمیر بحریہ ٹاؤن نے مقامی افراد کی زندگی اجیرن کردی۔ ان کے گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹادیے گئے۔ سرکاری سرپرستی سے مقامی افراد کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کے خلاف جھوٹے اور مجرمانہ دفعات کے مقدمے دائر کیے گئے۔ گھروں کے چادر و چاردیواری پامال کیا گیا۔ خواتین اور بچوں پر تشدد کیا گیا۔ علاقے میں تقافتی ورثوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے بھی علاقے میں تباہی مچادی ہے۔ جس کی وجہ سے علاقے میں ایک بے چینی کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ ملیرایکسپریس وے ڈی ایچ اے کریک ایونیو سےشروع ہوکر جام صادق پل، شاہ فیصل کالونی روڈ، فیوچرکالونی سے ہوتا ہوا ایم نائن پر کاٹھور تک جائےگا۔ اس منصوبے کے بننے سے تقریبا دو درجن سے زائد قدیم گوٹھ متاثر ہونگے۔ بے شمار زرعی اراضی صفحہ ہستی سے مٹادیئے جائینگے۔ یہ منصوبہ ترقی کے نام پر ملیر کے قدیم باسیوں کے لئے ایک موت ثابت ہوگا۔
کراچی کی بلوچ آبادیوں میں ایک سازش کے تحت منشیات کو فروغ دیا گیا۔ لیاری سمیت دیگر علاقوں میں بندوق بردار لوگوں کو ایک بار پھر منظم کیا جارہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب لیاری گینگ وار کے سرغنہ سردار عزیر جان ہیروئن زئی عدم شواہد کی بناپر یکے بعد دیگر مقدمات میں بری ہورہا ہے۔ دراصل مقدمے کے چشم دید گواہ پیش نہیں ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ہر مقدمات میں آہستہ آہستہ بری ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے لیاری کے سیاسی و سماجی حلقوں میں کھلبھلی مچ گئی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ لیاری کی سیاسی معاشرے کو غیر سیاسی بنانے کے لئے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیںَ۔۔ ماضی میں بھی یہ دیکھا گیا کہ لیاری میں نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتاب کی جگہ اسحلہ تھمایاگیا۔ اور لوگوں کو مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑاگیا۔ انہیں یرغمال بنایاگیا۔ ایک سازش کے ذریعے علاقے میں منشیات فروشی کوفروغ دیاگیا۔ منشیات فروشوں کو منظم کیاگیا۔
بدقسمتی سے بلوچ اتحاد تحریک کے بانی انور بھائی جان کی شہادت کے بعد کراچی کے بلوچ سیاسی قیادت سے محروم ہوگئے۔ ان کی سیاسی خلا پر کرنے میں مقامی سیاسی قیادت ناکام ہوگئیں۔ جس کی وجہ سے بلوچ آبادیاں عدم تحفظ کا شکار ہوگئیں۔ ان کی قومی و ثقافتی شناخت خطرے سے دوچار ہے۔ جبکہ دوسری جانب بلوچستان کے بلوچ قوم پرست قیادت نے کراچی کے بلوچوں کے مسائل سے چشم پوشی اختیار کی۔ لیاری اور ملیر جلتا رہا وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ اگر بلوچ قوم پرست قیادت کراچی کے بلوچوں کو سیاسی سہارا دیتے تو شاید ان کے مسائل کسی حد تک حل ہوسکتے تھے۔
حال ہی میں کراچی کے بلوچوں کو “بلوچ متحدہ محاذ” کے نام سے ایک امید کی کرن نظر آنے لگی ہے۔اس سیاسی پلیٹ فارم کا اعلان سینئر سیاستدان واجہ یوسف مستی خان کی سربراہی میں کیا گیا۔ دیکھا جائے تویہ محاذ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں سے وابستگی رکھنے والے کارکنوں پرمشتمل اس محاذ کے رہنماؤں کے لئے مندرجہ بالا مسائل کے حل ایک چیلنج ہے۔انہیں اپنی سیاسی بصیرت سے حکمت عملی مرتب کرنی پڑے گی۔ جو وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ بلوچ آبادیاں مسائلستان بن چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب۔۔۔عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

سندھ پولیس کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ ،روزنامہ آزادی، کوئٹہ

About The Author