گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
یہ 11مارچ 2011ء کا واقعہ ھے جب جاپان میں ایک خطرناک زلزلہ آیا۔ اس زلزلے سے ایک طرف سمندر میں سونامی پیدا ہوئی جس نے تباھی مچادی دی دوسری طرف Fukushima نیوکلر ریکٹر توڑ پھوڑ کا شکار ھو گیا جس سے ریڈی ایشن لیک ھونے لگی اور انسانی جانوں کو مزید خطرات لاحق ھو گئیے۔ جاپان کے لئیے یہ قیامت کا منظر تھا۔ایک طرف لوگ سونامی سیلاب میں پھنسے ہوۓ دوسری طرف امدادی ٹیمیں ادھر بھیجیں تو ایٹمی تابکاری کی مصیبت۔ یورپین اور امریکی حکومت نے فوراً اپنے شھریوں اور فوجیوں کو نکالنے کے لئیے ہوائی جہاذ بھیج دئیے تاکہ ملک میں پھیلتی ھوئی تابکاری اثرات سے بچنے کے لئیے ان کو جاپان سے باھر منتقل کیا جا سکے۔ غیر ملکی لوگوں کو نکالنے کے لئیے جاپان کے چار پانچ ائرپورٹس پر جہازوں کی قطاریں لگ گئیں اور لاکھوں باشندے ائرپورٹ پر جمع ھو گئے ۔آپ اندازہ لگائیں کہ زلزلے کے بعد تین دن کے اندر چھ لاکھ غیر ملکی ان ائرپورٹوں سے باھر کے ملکوں بھاگ گئیے۔ جن میں امریکی۔یورپین۔چینی۔کورین۔انڈین شامل تھے۔بس جس کو جو فلائٹ ملی وہ نکلتا گیا۔ کچھ پاکستانی جو بچوں کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں رھتے تھے وہ بھی محفوظ مقام پر آ گئیے۔ ادھر متاثرہ علاقوں میں پھنسے جاپانیوں کا برا حال تھا کیونکہ ایٹمی تابکاری کی وجہ سے اس طرف کوئی امدادی ٹیم جانے سے گھبراتی تھی۔ لوگ مختلف پناہ گاھوں میں بھوکے پیاسے امداد کی انتظار میں پڑے تھے۔یہ وہ موقع تھا جب جاپان میں رھنے والے پاکستانی اکٹھے ھوۓ ۔ اپنے عطیات سے رقم جمع کی اور بے خطر طوفان میں کود پڑے۔ پاکستانیوں نے اس بات کی پروا نہیں کی کہ ایٹمی ریڈیشن آ رہی ھے انھوں نے کھانے کا سامان ۔دیگچے ۔کڑچھے ساتھ لئیے اور موقع پر پہنچ گئے۔کھانا پکانے کے تو پاکستانی ویسے ماہر ہیں ہر کیمپ میں خود کھانا پکاتے اور متاثرہ جاپانیوں کو کھلاتے ۔اس کے علاوہ دوائیاں بھی ساتھ لے گئیے ۔ادھر پاکستان سے بھی ایک جھاذ امدادی سامان جس میں کمبل۔بسکٹ۔دودھ۔ پینے کا پانی اور دوائیاں تھی پہنچ گیا ۔ دوسرے روز پاک فوج کے دو C-130 طیارے 24000 کلوگرام امداد لے کر ٹوکیو ائیرپورٹ پر اتر گئے۔ پاکستان نے ایٹمی تابکاری اثرات کو کنٹرول کرنے والی سائسندانوں کی ٹیم بھی جاپان بھیج دی۔ جاپان میں بسنے والے پاکستانی بغیر کسی خوف کے تین ہفتے جاپان کے متاثرہ علاقوں میں جاپانیوں کی امداد کرتے رھے جب خود جاپانی وہاں جانے سے کتراتے تھے۔ یہ ھے پاکستانیوں کا جنون اور سچا جذبہ جس کی طرف کبھی توجہ نہیں دی گئی ۔جب تین ہفتے پاکستانیوں کو وہاں کام کرتے دیکھا تو جاپانی میڈیا بھی وہاں پہنچ گیا اور جاپان ٹی وی پر پاکستانی رضاکاروں کو امدادی کام کرتے دکھایا گیا اور پاکستان کا امیج جو طالبان اور بم دھماکوں کی وجہ سے ایک تاریک دیو بن گیا تھا اس خدمت خلق کے نتیجے میں چاند کی طرح آسمان پر چمکنے لگا۔آپ یقین کریں اس حادثے کے بعد جاپان میں پاکستانیوں کی عزت و وقار اور کاروبار بھی کئی گنا اضافہ ھوا۔ پہلے ٹوکیو میں پاکستانیوں کے ریسٹورنٹ خالی ھوتے تھے اب جس ریسٹورنٹ پر پاکستانی جھنڈا لہرا رہا ھو اس پر جاپانی گاھکوں کا اتنا رش ھوتا ھے کہ لائین میں کھڑے ھو کے کھانا لینا پڑتا ھے۔اب پاکستانی جاپان میں فخر سے باوقار زندگی گزار رھے ہیں اور اس سونامی کے بعد تو نیٹ پر ایک جاپانی فقرہ لکھا ملتا تھا۔۔۔ پاکستان آریگا توو ۔۔جس کا مطلب ھے پاکستان شکریہ۔۔۔۔۔
آپ یو این پیس کیپنگ فورس میں پاکستان فوج کا کردار ملاحظہ فرمائیں ۔سومالیہ جیسے خونریزی والے ملک میں داخل ھو کر امن قائم کر دیا۔
ادھر ہمارا یہ حال ہے کہ
ڈیرہ شھر میں اکثر لوگ گیس کنکشن لگواتے ہوۓ گڑھا کھلا چھوڑ دیتے ہیں یا نالی کا پائپ بنا کر اس کے پاس بڑا ڈھیر مٹی کا لگا دیتے ہیں ۔جس سے آنے جانے والے مریضوں کو جھٹکے لگتے اور تکلیف ہوتی ھے۔ اب ان لوگوں میں جو نیک بخت ہیں وہ ان گڑھوں کو خود صحیح طریقے سے بند کر دیتے ہیں جو بد بخت ایسا نہیں کرتے سارا دن لوگوں کی بد دعائیں اور گالیاں جمع کرتے رھتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے سپیڈ بریکر ایسے بناۓ ہیں جیسے اپنی قبر بنا رکھی ھو اور سارا دن گزرنے والوں کی بد دعائیں جھیلتے رھتے ہیں۔ یار بریکر بنانا ھے تو سمجھ سے بناٶ کہ سپیڈ کم ھو مریض کو تکلیف بھی نہ ھو۔۔ ایسے لوگ بدقسمت ہیں ان کی زندگی بے برکتی کا شکار رہتی ھے اور وہ خود حادثوں کا شکار ھو جاتے ہیں اللہ کے رسولؐ نے کہا ھے راستوں کو مسافروں کے لئے صاف رکھا کرو اور رکاوٹیں ہٹا دیا کرو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر