احمد اعجاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینٹ انتخابات میں اصلاحات سے اُمیدواروں کے انتخاب تک دلچسپ مطالعا ت سامنے آرہے ہیں۔اصلاحات کے پردے میں خواہشات اور مجبوریاں انگڑائیاں لیتی محسوس ہوتی ہیں تو اُمیدوارں کے انتخاب کے ضمن میں معیار اور اہلیت سے زیادہ پسند یا ناپسند کی کارفرمائی ہے۔یوسف رضا گیلانی میدان میں آئے یا لائے گئے تو فرحت شہزادی نے بھی کاغذات جمع کروائے۔فرحت شہزادی نے جیسے کاغذات نامزدگی جمع کروائے،لوگوں نے پوچھنا شروع کردیا کہ یہ فرحت شہزادی کون ہیں؟
جب لوگوں کے سوالات کی بھرمارہوئی تو شہباز گِل ،نے فرحت شہزادی کے تعارف کی ذمہ داری سنبھالی،شہباز گِل کے مطابق’’فرحت بی بی پی ٹی آئی کا حصہ ہیں،گذشتہ کئی برسوں سے جماعت میں فعال ہیں، انھوںنے سینٹ کے لیے کاغذات جمع کروائے ہیں جو ان کا حق ہے۔
وہ ایک انٹرپینیور ہیں اور اپنا کاروبار کرتی ہیں، ہمیں خواتین کو آگے آنے کا موقع دینا چاہیے، نہ کہ ان پر تنقید کرنی چاہیے۔ پارٹی کے ہر عہدیدار اور رکن کا حق ہے کہ وہ کاغذات نامزدگی جمع کروائے‘‘شہبازگِل نے تعارف کے ساتھ ساتھ یہ حکم بھی جاری کردیا کہ اِن پر تنقید اور سوالات بندکیے جائیں۔اسی طرح یوسف رضاگیلانی کا میدان میں اُترنا یا اُتارنا موضوع بحث بن گیا۔یوسف رضا گیلانی سابق وزیرِ اعظم ہیں ،مگر اب یہ سینیٹر بننا چاہتے ہیں۔
آنے والے وقت میں اِن کا تعارف یہ بھی بن سکتا ہے کہ ’’سینیٹریوسف رضاگیلانی‘‘لیکن اُس صورت میں اگر یہ کامیاب قرارپاتے ہیںاگر ہار جاتے ہیں تو سابق وزیرِاعظم کا امیج بھی دُھندلا سا جائے گا۔جہاں تک سینٹ انتخابات کی مجموعی فضا کی بات ہے تو ہمیں سینٹ انتخابات کے طریقہ کار کے حوالے سے حکومت کی جانب سے اصلاحات کے پردے میں غصہ نظر آتا ہے۔حکومت کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ کرپشن دوسری پارٹیاں کرتی ہیں۔ووٹ کی خریدوفروخت بھی دوسری پارٹیاں کرتی ہیں ۔
اسی طرح حالیہ صورتِ حال میں اپوزیشن جماعتیں ،حکومت پر تنقید کررہی ہیں کہ یہ ووٹوں کی خریدوفروخت کرتی پائی جارہی ہے۔دوسری طرف عام پاکستانی تصور کرتے ہیں کہ جب تک ووٹ کی خریدوفروخت کرنے والوں کو کسی سزا کے عمل سے نہیں گزارا جاتا اُس وقت تک جمہوری کلچر تقویت نہیں پاسکتا۔
لیکن معاملہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے ماضی میں اپنے بیس ارکان کو ووٹ کی فروخت پر نکال تو دیا تھا ،مگر اُن کو کوئی سزا نہ مل سکی،شاید یہ سب لوگ مالی اورسماجی طورپر بہت مالدار اور مضبوط ہوتے ہیں کہ اِن کے خلاف کارروائی ممکن نہیں ہوپاتی۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر ووٹ ڈالنے کا خفیہ طریقہ کار ملحوظ نہیں رکھنا تو الیکشن کے کیا معنی ٹھہریں گے۔پھر تو کوئی ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے کہ تمام پارٹیاں اپنے اپنے حصے کے سینیٹرز چُن لیں۔حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ خفیہ رائے شماری سے دھاندلی ہوتی ہے ،اس لیے شوآف ہینڈ کے ذریعے سینٹ کے انتخابات ہونے چاہئیں۔دوسری طرف کی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ شو آف ہینڈ کے طریقہ کار سے چھوٹی سیاسی جماعتوں کی حق تلفی ہوگی۔شو آف ہینڈ کے ذریعے سیاست میں پیسے کے استعمال کی کس حد ممانعت ہوسکے گی،کیا پیسے کے استعمال کو روکنے کے لیے یہی طریقہ کار سب سے مناسب ہے؟
سیکریٹ بیلٹنگ سے جمہوریت کو خطرہ قراردیا گیا ہے اور جمہوریت کے لیے خطرہ کون بنے ہوئے ہیں ،وہ لوگ جو اپنا اپنا سیاسی حلقہ رکھتے ہیں اور ہر پانچ برس بعد وہاں سے لوگوں کا ووٹ لیتے ہیں ،یعنی ووٹ لینے والے اپنے اپنے سیاسی حلقہ میں دھاندلی کا رونا روتے ہیں ،مگر سینٹ کے انتخابات میں اپنا ووٹ بیچ کر دھاندلی کا موجب بنتے ہیں۔ہارس ٹریڈنگ یعنی ووٹوں کی خرید و فروخت کے سدِباب کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کیا کردار بنتا ہے؟
کیا الیکشن کمیشن اپنا کردار ادا کرتا پایا جاتاہے ؟علاوہ ازیں ایسے کون سے ادارے ہیں ،جو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں؟اس طرح کے سوالات عام پاکستانیوں کے ذہنوں میں اُٹھ رہے ہیں ،جن کے جوابات الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کو دینا ہوں گے۔
ایک نکتہ یہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ یہ کیا طریقہ کار ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا رُکن اسمبلی اپنی پارٹی کے منتخب کردہ امیدوارکو ہی ووٹ ڈالے ،وہ دوسری سیاسی جماعت کے منتخب کردہ فرد کوووٹ کیوں نہیں ڈال سکتا؟یہاں زبردستی کا عنصر شامل نہیں ہے؟پچھلی حکومتوں نے سینٹ انتخابات کو شفاف بنانے کی کیا سنجیدہ کوششیں کیں؟
ایسی کوئی اصلاحات کی گئیں کہ جس سے سینٹ کے وقار میں اضافہ ہوا ہو۔کیا حکومت کا سینٹ انتخابات شفاف کروانے پر جو سارا زور ہے ،وہ کہیں اس تاثر کو (جس تاثرکو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قائم کروانے کی کوشش کی جاتی ہے) ا پنے اوپر سے مٹانے کی کوشش تو نہیں کہ یہ مبینہ طورپر دھاندلی کی پیداوار اور سلیکٹڈ حکومت ہے؟
سینٹ انتخابات میں پیسے کی کارفرمائی روکنے کے لیے مناسب طریقہ آئینی ترمیم کے ذریعہ تھا ،لیکن اس ضمن میں حکومت اپوزیشن جماعتوں کو کس حد تک انگیج کرسکی ؟اس طرح کے بہت سارے سوالات سوچنے والوں کے ذہنوں میں اُٹھتے رہتے ہیں ،یہ سوالات اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔جہاں تک خفیہ رائے شماری کا معاملہ ہے تو خفیہ طریقہ رائے شماری محض اس لیے بھی ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے ماہرین کو جوڑ توڑ کرنے کا موقع ملے اور اس صلاحیت پر نازاں ہوکر خود کو بڑا سیاست دان قرار دلوا سکیں۔
جیسا کہ زرداری صاحب اس پہلو کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔معاملہ رہا شو آف ہینڈ کا تو اس طریقہ کے اندر پی ٹی آئی کے لیے کیا مفادات پنہاں ہیں یا ان کو کوئی خوف تو لاحق نہیں ،نیز اپوزیشن جماعتوں کو اس میں کیا خطرات اور نقصانات کا اندیشہ ہے؟یوں دوطرفہ عدم تحفظ کیوں؟یہ سوالات اب اپنے اوپر پڑی گرد کو جھاڑ چکے ہیں۔
۔
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر