نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جسٹس فائز عیسی اور غیر جمہوری قوتیں || انعم طاہر راول

چند ماہ پہلے کی بات ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت صدیقی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنریلوں کا کیا کام ہے وہ عدالتوں میں مانیٹرنگ کریں ہمارے فیصلوں پہ اثر انداز ہوں یا اپنی مرضی کے فیصلے لکھوائیں،

انعم طاہر راول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سارا سسٹم غیر جمہوری قوتوں کے حکم پر زبردست طریقے سے چل رہا تھا وزراء اعظم پھانسی لگ رہے تھے نااہل ہورہے تھے وزراء جیلوں میں بھیجے جارہے تھے۔
جھوٹے مقدمات بنا کر جمہوریت پسندوں کو جیلوں میں قید رکھا جارہا تھا سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالی جارہیں تھیں غیر جمہوری قوتوں کو آنچ تک نہیں آرہی تھی وہ مقدس گائے اور آئین سے بالاتر سمجھے جارہے تھے۔
ایک بوتل شراب پر حکومتوں کی تذلیل کی جارہی تھی خودساختہ اور جعلی وکلاء سے من پسند درخواستیں دائر کروا کر حکومتوں کو پریشان کیا جارہا تھا جبکہ اربوں ڈالر کی جائیدادیں بنانے کے باوجود ڈکٹیٹر اور انکے حوارین ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے غیر جمہوری قوتوں کے اردگرد جشن ہی جشن تھے۔
پھر اچانک فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ آ گیا یہ فیصلہ کوئی عام فیصلہ نہیں تھا اس فیصلے نے تاریخ بدل کر رکھ دی جو غیر جمہوری قوتوں کیلئے نیوکلیئر بم سے کم نہیں تھا۔
سارے نشے اتر گئے جشن ماتم میں بدل گئے فضائیں سوگوار ہو گئیں خواب چکنا چور ہو گئے ہر طرف سے آہو فگاں تھی ہم تباہ ہو گئے ہم برباد ہو گئے غیر جمہوری قوتوں کی یہ آوازیں بھی پہلی بار قوم کی کانوں تک پہنچیں۔
پھر کیا ہونا تھا وہی پرانی روایت جو پاکستان بننے سے آرہی ہے جسطرح نواب آف کالا باغ کے ساتھ ہوا جو بھٹو صاحب کے ساتھ ہوا جو شہید بی بی کے ساتھ ہوا جو زرداری صاحب سمیت تمام جمہوریت پسند اور قانون کی حکمرانی چاہنے والے آج تک بھگت رہے ہیں اوچھے ہتھکنڈے سازشیں کیسز پگڑیاں اچھالنا اور ریفرنسز کے ذریعے بلیک میل کرنا جھکانا ڈرانا وغیرہ وغیرہ۔
یہاں غیر جمہوری قوتوں کی سوچیں سازشیں اوچھے ہتھکنڈے بدمعاشیاں ریفرنس سارے کے سارے ناکام ہو گئے انکا دماغ کام کرنا چھوڑ گیا جو انہوں نے فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کردیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کوئی عام آدمی نہیں برانڈ ہے جسکا غیر جمہوری قوتوں کو اندازہ ہی نہیں تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کا تعلق بلوچستان کے نواب گھرانے سے ہے جو جدی پشتی جاگیروں کے مالک آرہے ہیں، ان کے والد قاضی عیسی بہت بڑے نواب تھے جنکا تعارف ہمیں یہ بات سُن کر ہوا کہ پاکستان بننے کے بعد جب قائد اعظم محمد علی جناح پہلی بار بلوچستان تشریف لے گئے تو قاضی عیسی نے انہیں سونے اور ہیروں سے تول کر صدقہ کردیا تھا۔
نواب لفظ جہاں آتا ہے وہاں لوگوں کے دل و دماغ میں کھرب پتی لوگ ذہنوں میں آتے ہیں۔
نواب کی ہزاروں ایکڑ اراضی رقبے اربوں روپے کے بیلنس اربوں روپے کے بزنس المختصر کہ نواب ایک پوری ریاست کے مالک ہوتے تھے انسے گوشوارے مانگنا جہاں سمجھ سے بالاتر ہے وہاں ریاستی بدنیتی بھی ہے۔

آج کل اربوں روپوں اثاثے رکھنا کچھ بھی نہیں کیونکہ اب وسائل وسیع ہو گئے اور جیسے تیسے اربوں روپے کمانا بھی کوئی مشکل نہیں رہا۔

آج سے کئی دہائیوں پہلے جب مزدوروں کی دہاڑی ٹکوں میں ہوتی تھی پلاٹ روپوں میں ہوتے تھے ایکڑ سینکڑوں کے مل جاتے تھے چند روپے پاس رکھنے والا محلے کا سردار ہوتا تھا بڑی گاڑیاں تو دور کی بات بائی سائیکل بھی نہیں ہوتے تھے تب نوابوں کے پاس بڑی بڑی لگژری گاڑیاں سونے و جواہرات اور اربوں روپے ہوتے تھے جو آج کے مقابلے میں اربوں ڈالر بنتے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی کھرب پتی باپ کے ہونہار محنتی محب وطن اعلی ظرف بیٹے ہیں،
جسٹس قاضی فائز عیسی با کمال با اخلاق با اختیار با کردار با غیرت مخلص اور انصاف پسند جج ہیں۔
جج بننا کوئی آسان نہیں اور سپریم کورٹ کا جج بننا تو بلکل آسان نہیں جج بننے سے پہلے آپ کامیاب وکیل ہوتے ہیں پھر جج بننے کا کورس کرتے ہیں پھر نیچے جج بھرتی ہوتے ہیں اپنے فیصلے انصاف کے 100% کے ساتھ کرتے ہیں پھر اپگریٹ ہوتے ہیں آہستہ آہستہ ترقی کا سفر ہوتا جو دہائیوں بعد آپ کو مکمل کامیاب کرتا ہے اور آپ کو اپنی منزل تک پہنچاتا ہے۔
سپریم کورٹ کا جج کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا نہیں ہوتا جو انہیں کچھ نہیں سمجھتا وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا فیصلہ دیکھ لے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ انکی نیندیں حرام کر دیں تھیں۔
کچھ ججز تو کیا چیف جسٹس بھی بیغیرت واہیات گھٹیا کردار کے مالک شو پرست شہرت کے متلاشی اور اشاروں پر ناچنے والے آئے جن میں مولوی مشتاق افتخار محمد چوہدری اور ثاقب نثار شامل ہیں۔
انصاف فراہم کرنا اور حقائق سے آشنا کرنا جج کا کام ہوتا ہے جو قاضی فائز عیسی نے فیض آباد دھرنے کا فیصلہ دیکر بخوبی نبھایا،
سپریم کورٹ کے جج کی بیوی نے بغیر نوٹس کے بغیر طلبی کے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرایا جو تاریخ کا اہم ترین حصہ بن چکا ہے۔
(پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں آرمی چیف تو دور کیا بہت دور کی بات ہے کرنل کی بیوی چیک پوسٹ پر ٹہرنا برداشت نہیں کرتی جسکی مثال قوم نے چند ہفتوں پہلے دیکھ لی)
لیکن جج کی بیوی نے واضع کیا کہ کوئی بھی آئین و قانون سے بالاتر نہیں اور دو پاکستان نہیں ایک پاکستان ہے۔
دو قانون نہیں جہاں غریب کیلئے الگ قانون ہو امیر کیلئے الگ قانون ہو بد معاش کیلئے الگ قانون ہو شریف کیلئے الگ قانون ہو سیاستدانوں کیلئے الگ قانون ہو اور فوجیوں کیلئے الگ قانون ہو،
قانون سب کیلئے برابر ہے چاہے کوئی بھی ہو جس کی واضع مثال فیض آباد دھرنے کا فیصلہ ہے۔
ججوں کے متعلق مشہور کہاوت ہے کہ جج نہیں بولتا اسکے فیصلے بولتے ہیں تو یہ کہاوت جسٹس قاضی فائز عیسی پر سو فیصد فٹ آتی ہے فیض آباد دھرنے کا فیصلہ تاریخی فیصلہ ہے ماضی میں ایسے فیصلوں کی نظیر نہیں ملتی۔
فیض آباد دھرنے کا فیصلہ وہ فیصلہ ہے جسکا کا بدلہ لینے کیلئے غیر جمہوری قوتوں نے سلیکٹڈ نااہل اور منافق حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔
جس طرح اسٹیبلشمنٹ نے سلیکٹڈ نااہل اور منافق وزیراعظم عمران نیازی کو پاور میں لا کر غلطی کی بلکل اسی طرح نیازی نے بھی قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس دائر کرکے تاریخی غلطی کی،
اسٹیبلشمنٹ کی غلطیوں کا خمیازہ قوم مہنگائی بیروزگاری بد امنی طوفان بدتمیزی لاقانونیت سمیت ہر طرح کی تباہی کی صورت میں بھگت رہی ہے قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا خمیازہ نیازی سمیت یوتھیوں کی پوری نسلیں بھگتیں گی،
کیونکہ یہ ریفرنس 100% غلط تھا آئین و قانون کے خلاف جھوٹ کا پلندہ حقائق سے اس ریفرنس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا،
جو جج بیوروکریٹ حکمران یا چاہے کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ کے فرمودات پر من و عن عمل نہ کرے اسے عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے اور فائز عیسی کو عبرت کا نشان بنانے کی ناجائز کوشش کی گئی،
چند ماہ پہلے کی بات ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت صدیقی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنریلوں کا کیا کام ہے وہ عدالتوں میں مانیٹرنگ کریں ہمارے فیصلوں پہ اثر انداز ہوں یا اپنی مرضی کے فیصلے لکھوائیں،
ایک آئی ایس آئی کا جنرل عدالت میں بیٹھا رہتا ہے اور ججز سے اپنی مرضی کے فیصلے لکھواتا ہے۔
جب یہ بیان انہوں نے دیا تو انہیں بھی صدارتی ریفرنس کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل سے معطل کرایا گیا ایسی مثالیں ہزاروں موجود ہیں۔
صدارتی ریفرنس کا فیصلہ قاضی فائز عیسی کے حق میں آیا اور سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس بددیانتی جھوٹ پر مبنی بلیک میلنگ تحقیقات رپورٹ کی روشنی میں کلعدم قرار دے دیا اور قاضی فائز عیسی کو معطل کرنے کا اسٹیبلشمنٹ کا خواب صرف خواب ہی رہ گیا۔
جسٹس فائز عیسی نے پھر سے سماعتیں شروع کیں اور اینٹ سے اینٹ بجانا ث ساتھ شروع کردیا یہ حال ہی کی مثالیں ہیں میڈیا کے متعلق کیس کی سماعت ہو چاہے بلدیاتی انتخابات بارے دائر درخواست پر سماعت ہو اور عمران نیازی کے متعلق سماعت ہو جسٹس فائز عیسی قانون و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ریمارکس بھی دیئے اور حکم بھی جاری کیئے۔
عمران نیازی کیس کی سماعت کے دوران تو انہوں نے ایسے ریمارکس دیئے جو نا صرف تاریخ کا حصہ بن گئے بلکہ سلیکٹرز کو پاگل کر گئے اسی بات کو لیکر رات گئے سپریم کورٹ نے آڈر جاری کئے کہ وزیراعظم عمران کے متعلق کوئی بھی کیس ہوگا اسے جسٹس قاضی فائز عیسی سماعت نہیں کر سکیں گے جو کہ سپریم کورٹ میں موجود مافیا کی موجودگی کا انکشاف و اعتراف بھی ہے اور انتہائی شرمناک اور قابل مذمت بھی ہے۔
قاضی فائز عیسی انتہائی دیانت دار شخص ہیں اور فیصلہ اپنی مرضی سے نہیں قانون و انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور آزادی سے دیتے ہیں چاہے اسکے نتائج کوئی بھی ہوں نتائج کی پرواہ کیئے بغیر فیصلے دیتے ہیں جسکی واضع مثال آپ کو فیض آباد دھرنے کے فیصلے کی صورت میں دی جا چکی ہے،
قوم پرامید ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی یہ انصاف کا سفر جاری رکھیں گے اور قوم کو عوام کو انصاف فراہم کرنے میں اور جمہوریت کی بالادستی قانون و انصاف کی سر بلندی میں کوئی قصر نہیں چھوڑیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی چیف جسٹس بھی بنیں گے اور انشاءاللہ عزوجل ثاقب نثار اور افتخار محمد چوہدری کی طرح صرف گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار ایسا ہوگا کہ قوم انکے کردار سے دہائیوں تک مستفید ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

عجیب وغریب شمائلہ حسین !

About The Author