دانیال حسین گھلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُسکا اور میرا بچپن کا ساتھ تھا. مجھے ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ ہمارے تعلق کی ابتداء کب اور کہاں سے ہوئی مگر ایک گمان ہے کہ وہ شاید اُس روز مجھ سے باہم ہوا تھا کہ جب میں بچپن میں کھیلتے ہوئے چھت پر چلا گیا اور وہاں ایک بے جان بِلی کے ادھ کُھلی مُردہ آنکھوں میں, میں نے اُسے پہلی مرتبہ دیکھا تھا.. میں نے بھاگ کر نانی کے دامن میں پناہ لی تھی.. ہاں تب سے تو وہ میرے ساتھ چمٹ گیا تھا.. یوں سمجھیں کہ نانی اور میری محبت ایک تکون قرار پائی جس کا تیسرا کونا وہ بن گیا.. ہاں بس وہیں سے تو وہ ہمارا ہمنشین بنا تھا.. سوتے جاگتے وہ مجھے اپنی موجودگی کا احساس دِلاتا رہتا. کبھی وہ راہ چلتے ہوئے بھک سے میرے سامنے کود پڑتا تو کبھی رات کے کسی پہر صحن میں سوتے وقت ایک دم سے میرے پیروں کی جانب سے جھلک دِکھلا کر غائب ہو جاتا.. اور یوں میں تمام رات اُسکی موجودگی کو محسوس کرتا رہتا.
پھر جیسے جیسے میں عمر کے مراحل طے کرتا گیا ویسے ویسے اُسکی اور میرے قُربت گہری ہوتی چلی گئی. وہ مجِھے ایک آنکھ نہ بھاتا تھا مگر پھر بھی نہ جانے کیوں ہزار دھُتکاروں کے باوجود بھی وہ مجھے تنہا چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا. کبھی وہ اماں میں حلول کر جاتا تو کبھی ابا کے بھیس میں میرے سامنے آن کھڑا ہوتا. اُسکی مجھ سے محبت کی شدت کا اندازہ مجھے اپنے اسکول کے پہلے دِن ہوا تھا. مجھے یاد ہے کہ میرے اماں ابا نے ہزار جتن کئے کہ کم از کم آج کے دن اُسے مجھ سے دور رکھا جائے مگر وہ کمبخت ناجانے کیسے میرے اسکول کے بستے میں چھپ چھپا کر ساتھ ہو لیا. چونکہ اسکول کا پہلا دِن تھا اور میں کبھی نانی سے جُدا نہیں ہوا تھا.. تو اِس وجہ سے میری حوصلہ افزائی کے لئے نانی ساتھ تھیں.. میں کلاس میں نانی کے ساتھ بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ ٹیچر نے نانی کو باہر بُلوایا.. اور اُنکے باہر جاتے ہی کلاس کا دروازہ اندر سے بند کر لیا… بس پھر موقعہ دیکھتے ہی وہ فوراً بستے سے نِکل آیا اور میرے سامنے رقص کرنے لگا… اُس کا بھیانک رقص دیکھ کر میری حالت ابتر ہو گئی تھی.. میں رونے لگا اور زور زور سے دروازہ بجانا شروع کر دیا.. باہر سے نانی بھی چِلا رہی تھیں. .. مجھے یاد ہے کہ ٹیچر کے دروازہ کھولنے تک اُس کے مکروہ قہقہے میرے کانوں میں سیسہ انڈیلتے رہے. یہاں تک کہ میں نانی کی گود میں جا کر چھپ نہیں گیا..
ہاں وہ نانی کی گود ہی تو تھی جہاں چُھپ کر اُس سے کچھ وقت کے لئے جان چھوٹ جاتی تھی.. ایسے وقتوں میں وہ مجھ سے دور بیٹھ کر بس ٹُکر ٹُکر دیکھا کرتا.. جب جب میں نانی کی گود میں ہوتا یا اُنکے ساتھ لیٹتا تو وہ بس یونہی دور بیٹھ کر غُرایا کرتا.. پتہ نہیں وہ نانی سے اتنا ڈرتا کیوں تھا.. حالانکہ میری نانی تو کوئی ایسی ڈراؤنی شخصیت نہ تھیں. مگر مجھے یاد ہے کہ وہ اُنکے پاس ہوتے ہوئے وہ کبھی میرے نزدیک نہ پَھٹکا.. میں اکثر نانی کی گود میں لیٹ کر اُسکی بےبسی کی کھِلی اُڑاتا اور اُسے مُنہ چِڑایا کرتا.. مگر ایسے میں اگر کبھی بھولے سے بھی میری آنکھ لگ جاتی تو وہ فَٹ سے میرے خوابوں کے راستے مجھ سے اپنی موجودگی کا خراج لینے آن دھمکتا.. مجھے دِکھائی دیتا کہ میں ایک لق و دق صحرا میں کھڑا ہوں. صحرا کے بیچوں بیچ دور تلک آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہوئی ایک پٹری پر ریل گاڑی چلی جاتی ہے.. اُس ریل گاڑی پر میں اپنی نانی کو بیٹھے دیکھتا ہوں کہ جو مجھ سے دور سے دور ہوئی چلی جاتیں ہیں.. میں چیختا چِلاتا ہوا ریل گاڑی کے پیچھے بھاگتا ہوں.. پھر جیسے ہی میں ریل گاڑی کے نزدیک پہنچتا ہوں اور قریب ہوتا ہے کہ نانی لپک کر مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیں گی.. وہ کم بخت ناجانے کہاں سے قہقہے لگاتا آن وارد ہوتا ہے اور پُشت سے میرا دامن کھینچ لیتا ہے.. نانی ریل گاڑی سمیت صحرا کی وسعتوں میں کہیں کھو جاتیں ہیں.. اور یوں میری آنکھ کُھل جاتی… یہ شاید اُس ناہنجار کا اپنی تحقیر کا بدلہ لینے کا انداز تھا.. جو وہ تقریباً ہر رات مجھ سے لیا کرتا..
میں اکثر سوچا کرتا کہ میری عمر تو بڑھ رہی ہے مگر اُسکی عمر کیوں وہیں کی وہیں ساکت ہے.. میرے قد کے ساتھ اُسکی قامت کیوں نہیں بڑھ رہی.. میرے شعور کے ساتھ اُسکی شدت میں اضافہ کیوں نہیں ہو رہا؟.. مجھے حیرت تو ہوتی تھی مگر سچ کہوں تو میں اِس بات پر خوش بھی تھا. میں سوچتا تھا کہ اگر حالات یونہی چلتے رہے تو ایک نہ ایک دِن میں اُسے ضرور پچھاڑ دوں گا. مگر پھر ایک دِن ایسا کچھ ہوا کہ وہ ایک سے دم اپنے عہدِ شباب میں پہنچ گیا.. یعنی مجھ سے کہیں زیادہ قوی اور طاقت ور… مجھے یاد ہے کہ وہ ایک سرد شام تھی.. میری نانی معمول کے مطابق سیڑھیوں کے راستے اوپر میرے کمرے میں شام کا کھانا پہنچانے آ رہی تھیں کہ دھڑام کی آواز آئی.. میں جلدی سے پہنچا تو نانی کو خون میں لت پت پایا.. اُنکے دانت ٹوٹ کر بکھر چُکے تھے اور وہ بے ہوش تھیں.. وہیں نانی کے پاس ہی میں نے اُسے بیٹھے دیکھا. اُس کے چہرے کے خدوخال تبدیل ہو چُکے تھے, معصومیت کی جگہ کرختگی عود آئی تھی.. اُسکی بانہوں کی مچھلیاں اِس بات کا اعلان کر رہی تھیں کہ اب مجھے کوئی پچھاڑ نہیں سکتا…. مجھے اُسکے سامنے اپنا وجود بالکل ایک چیونٹی کی مانند لگا.. وہ مُسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہا تھا.. اُس نے زمین پر بِکھرے خون میں اپنی اُنگلیاں ڈبوئیں اور اپنا چہرہ سُرخ کرنے لگا.. پھر اُس کے قہقہوں اور میری چیخوں میں کان پڑی آواز سںُنائی نہ دیتی تھی..
میری نانی تو ٹھیک ہو کر لوٹ آئیں مگر اُس میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں تھیں وہ نہ صرف مستقل رہیں بلکہ اُن میں روزافزوں اضافہ ہوتا چلا گیا. ہر گزرتے دِن کے ساتھ اُسکی قامت و قوت بڑھتی گئی.. اب وہ ہر آن میرے ساتھ رہنے لگا. چونکہ اب میں بڑا ہو چُکا تھا تو ایسے میں نانی کی گود میں بھی چھپنا مُمکن نہ رہا تھا.. تو اب میں مکمل طور پر اُسکے رحم و کرم پر تھا. میری لجامیں اُسکے ہاتھ میں تھیں اور وہ جس طرف چاہتا مجھے موڑ دیتا.. میں نے بھی ہتھیار ڈالتے ہوئے خود کو اُسکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا. میں اُسکے ساتھ جینے کا ڈھنگ سیکھ چُکا تھا.. دِن گزرتے گئے اور ہمارا تعلق گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا…
نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا تھا کہ میری نانی اور اُس کے بیچ کوئی تعلق تھا.. مجھے یوں محسوس ہوتا کہ وہ کوئی ڈریکولا ہے کہ جو میری نانی کا خون چوس چوس کر تندرست و توانا ہوا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب میری نانی کمزور سے کمزور تر ہوئی جاتی ہیں.. جب جب میں اُسے نانی کے ارد گرد چلتے پھرتے دیکھتا میں خود کو موردالزام ٹھہراتا تھا کہ میں نے ہی اُسے اپنی اور نانی کی زندگی کا حصہ بنایا ہے. میں نے بارہا نانی کو اُسکے متعلق آگاہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ ہر بار ہنس کر میری بات نظرانداز کر دیتیں.. مجھے یوں لگتا تھا جیسے اب نانی بھی اُسکی موجودگی سے آگاہ ہیں اور جان بوجھ کر اُسے خود سے قریب کئیے ہیں.
اور پھر ایک دِن میں اپنے کمرے میں بیٹھا تھا بھائی دوڑتا ہوا آیا.. اور اطلاع دی کی نانی اب نہیں رہیں.. یہ سُنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاء گیا… میں نے چشمِ تصور میں اُسے قہقہے لگاتے سُنا.. میں دیوار کا سہارا لے کر کھڑا ہوا.. میں سوچ رہا تھا کہ ابھی گھر کے کسی کونے سے وہ میرے سامنے آجائے گا اور چیخ چیخ کر کہے گا کہ دیکھو میں نے آج تمہیں پچھاڑ دیا ہے.. دیکھو تم آج ہار گئے ہو.. آج کے بعد تُم مجھ سے کہیں بھی نہیں چُھپ سکو گے.. مگر ایسا کچھ نہ ہوا.. وہ کہیں غائب ہو چُکا تھا.. میں گرتا پڑتا اُس کمرے میں پہنچا جہاں سامنے چارپائی پر نانی کا بے جان وجود پڑا تھا.. اور اُس وجود کے ساتھ ہی زمین پر ایک اور نعش پڑی تھی.. جو اُسکی لاش تھی.. یعنی میرے ڈر کی لاش تھی.. نانی کو کھو دینے کے ڈر کی لاش.. جِسے میں نے منوں مٹی تلے دبانا تھا..
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی