نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جو گرجتے ہیں برستے نہیں ۔۔۔۔!|| آصف علی بھٹی

کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں عوام کے مفاد کے تحفظ کی ضامن حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن ہوتی ہےمگر ایسا پاکستانی جمہوریت میں نہیں ہوتا۔

آصف علی بھٹی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان سمیت دنیا بھر کی تاریخ سیاسی جدوجہد انسانی حقوق ،عوامی اور جمہوری اصولوں کی بالادستی کیلئے احتجاجوں ،مظاہروں دھرنوں اور لانگ مارچ کے واقعات سے بھری پڑی ہے کہیں عوامی تحریکیں کامیاب ہوئیں تو کہیں آواز خلق کو دبا دیا گیا۔ حالیہ عالمی و ملکی ادوار کا جائزہ لیں تو دنیا کی بڑی جمہوریت امریکہ میں سیاہ فام شہریوں پر تشدد کے خلاف ملک گیر”بلیک لائیوزمیٹر” نامی پرامن مظاہروں نے2020 کے امریکی انتخابی نتائج بدل کر رکھ دیے، وطن عزیز میں سابق وزیراعظم نواز شریف ججوں کی بحالی کے لیے ابھی لانگ مارچ لے کر نکلے ہی تھے کہ راستے میں ہی جج بحال کر دیئے گئے۔

عمران خان نے نہ صرف لانگ مارچ کیا بلکہ پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین 126 دن کا احتجاجی دھرنےکارکارڈ قائم کیا حکومت نہ گرانے سکے مگر چارسال بعداقتدار حاصل کر لیا۔مولانا فضل الرحمن بھی 2019 میں حکومت گرانے اسلام آباد آئے،خالی ہاتھ لوٹےتاہم مدارس کےلاٹھی بردارباوردی طلباء کے ذریعے حکمرانوں پر دباؤ ڈالنےمیں کامیاب رہے۔

اپوزیشن حکومت گرانے کےلئے احتجاجی جلسوں اوربلندبانگ دعوں میں ناکامی کے بعد اب مارچ میں لانگ مارچ کرنے کی دھمکی دے چکی ہے،مگرعوام کا سوال ہےکہ بند کمرہ اجلاسوں اور عوامی جلسوں سے حکومت اور اسٹبلمشنٹ کو بے تخت کرنےکی مفاداتی وجذباتی حکمت عملی کاجواب کون دیگا ؟فوج مخالف نفرت انگیز بیانیہ تراشنےوالےارب پتی اپوزیشن لیڈرز کے انقلابی دعوُوں کا حساب کون دیگا ؟

ویسے تو امیرکبیرحکمرانوں وطاقتوروں کی عوامی خدمت وکارکردگی کےحساب وجواب کا سوال اٹھانے کی بھی کسی میں ہمت نہیں مگر نقادوں کی رائے میں طاقتور گملوں میں پیدائش اور تربیت و توانائی حاصل کرنےکےبعد اسی شجر سایہ دار کو کاٹنے کی کوشش عوام کو بےوقوف بنانےاور خود کو دھوکہ دینےکے سوا کچھ نہیں ، ہاں بقول شاعر، دل کے بہلانے کے ساتھ عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے یہ خیال اچھا ہے۔۔!

کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں عوام کے مفاد کے تحفظ کی ضامن حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن ہوتی ہےمگر ایسا پاکستانی جمہوریت میں نہیں ہوتا۔

سیاسی مبصرین کی نظر میں پی ڈی ایم کےایک حکومت واسٹبلشمنٹ کو لڑانے اور ڈھیر کرنے کے خیالی پلاو نے اپوزیشن کی ساکھ اور عوامی اعتماد کو سخت ٹھیس پہنچائی ہے۔حکومت نےاگر عام آدمی کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اور مسائل کےحل میں فعالیت نہیں دکھائی تو اپوزیشن بھی ان کے حقوق کی پاسداری میں مکمل ناکام رہی ہے ، تاریخ پر تاریخ دینے اور ہر محاذ پر ناکامی کے بعد اب فرسٹریشن اور پریشانی میں مارچ میں لانگ مارچ کی تاریخ دینا ڈیمج کنٹرول اور 11پارٹی مفادات کےباعث اندرونی اختلافات پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔

واضح ہوچکاہے کہ استعفوں اور عدم اعتماد لانے کا بنیادی ٹارگٹ سینٹ انتخابات کو ہرصورت رکوانا اور عام انتخابات کی راہ ہموار کرنا تھا مگر باہمی لڑائی اور اقتدارکی جنگ نےجگ ہنسائی کیساتھ ساتھ اصولوں کی سیاست کی ناموس کو بھی پامال کردیا ہے۔اپوزیشن کےایک سنیئر رہ نما اعتراف کرتے ہیں اپوزیشن کی بظاہربڑی کامیابی صرف ایک ہےکہ پی ڈی ایم اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی کےباوجود ابھی تک برقرار ہے،

البتہ اپوزیشن کی سیاسی حکمت عملی کامیاب نہ ہونے سے حکومت مضبوط ہوئی ہے،ناکامی کی بڑی وجہ اپوزیشن کی قیادت کی کئی ایک کمزوریاں اور اسٹبلشمنٹ سے خفیہ رابطے بھی ہیں ۔ان کےمطابق اپوزیشن اتحاد کی حالیہ بیٹھک میں پہلی بار اقتدار کے ایوانوں سے باہر ہونے والےمولانا فضل الرحمن چھائےرہے،مریم نواز کی ایما پر بلاول کو بھی خوب سیدھے ہوئے ،اجلاس میں حکومت گرانے کیلئے کسی بڑے نکتے پر متفق نہ ہونے کےباوجود بالآخر مزید حزیمت سے بچنے کا واحد راستہ لانگ مارچ کے اعلان کی صورت نکالا گیا۔

تاریخ گواہ ہےکہ لانگ مارچ سے حکومتیں کمزور ہوئیں نہ کبھی ختم ہوئیں ۔مولانا کی حالت پر ان کےقریبی ساتھی حافظ حسین احمد اور مولانا شیرانی جو کچھ کہہ چکے وہ اب تاریخ کاحصہ ہے جس کی خود مولانا نے بھی تردید نہیں کی۔تجزیہ کاروں کی رائے میں مولانا کے اپنے اور خاندان کے اثاثوں پر سوالات اٹھ جانے پر راول پنڈی دھرنا دینے کی دھمکی واپس لی بلکہ اسٹبلشمنٹ مخالف نوازبیانیہ کی واضح مخالفت کرتے ہوئے ان سے لڑائی ختم کرنیکا بھی اعلان کردیا،اپوزیشن اتحاد کے سربراہ کی نئی دفاعی حکمت عملی “مستقبل دوبارہ روشن “کرنےکےلئے اسٹیبلشمنٹ کو راضی کرنے کی کوششیں ہیں جس میں ن لیگ بھی ہمراہ ہے۔

پیپلز پارٹی تو پہلے ہی سب کچھ مان کر رعاتیں لے رہی ہے، حکومت ہو یا اپوزیشن یوں سب اپنی اپنی اوقات میں ڈھل چکے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پھر سب ایک صفحے پر آچُکے ہیں۔حکومت کوعوام پر ہر روز مہنگائی ، بے روزگاری اور معاشی سختیوں کے مظالم ڈھانے سے روکنے والا نہ پہلے کوئی تھا ہے نہ اب ہے۔سونے پر سہاگا یہ کہ عوام کی ترجمان پارلیمنٹ کو بھی بے وقعت کردیا گیا ،جمہوریت و آئین کے علمبردار ادارے پارلیمنٹ میں عوام مسائل کے سوا پارلیمان کی بے توقیری کاہر کام ہو رہاہے بلکہ اب تو ریسلنگ بھی ہوتی ہے۔

عمران خان کے2014 کے دھرنے کے دوران نوازحکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس مسلسل بلاکر عمران خان کو ڈی چوک چھوڑ کر ایوان میں آکر بات کرنے کاتاکید و اصرار کرتی تھی آج اپوزیشن میں خود اس حرام کام کو اپنے لیے حلال کرنے جارہی ہے۔دلچسپ بات یہ ہےکہ پارلیمنٹ سے ناکامی کے باوجودسینٹ انتخابی عمل اوپن ووٹنگ کےذریعےکرانےکاآرڈیننس جاری کرکے حکومت نےایک تیر سےدوشکار کئے،اپنےارکان کوقابو اور اپوزیشن کی ووٹ خریداری کو ناممکن نہیں تو مشکل ضروربنادیاہے۔

بڑی اپوزیشن جماعت کے ایک رہ نما کےمطابق حقیقت ہےکہ اپوزیشن کے پاس حکومت ہٹانے کا کوئی طریقہ نہیں کیونکہ طاقت ور کسی صورت موجودہ سیٹ اپ تبدیل کرنے پر راضی نہیں بلکہ واضح پیغام بھی دے دیا گیا ہے کہ مائینس ون یامڈٹرم انتخابات جمہوری سسٹم کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوں گےلہذا حکومت کوآئنی مدت پوری کرنی دی جائے۔

جس کے بعد اپوزیشن نےسینٹ ،بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینےاور 2023 کے عام انتخابات کی تیاری کاغیر اعلانیہ فیصلہ کیاہے۔قارئین کرام حکومت کتنی اور کیسے مضبوط ہے یہ کوئی راز نہیں دوسری طرف حقیقت آشکار ہوجانے کے بعد اپوزیشن گرج برس کر کسی نئے انقلاب کے خواب اور نظام کو تبدیل کرنے کا بھلے سےجتنے چاہئے نئے نیا دعوے کرے مگرسچ یہی ہےکہ لانگ مارچ ہو یا دھرنا اس کا محض مقصد اسٹبلشمنٹ کی نظر میں بہتر امیدوار کے طور پر کھوئی ساکھ کی بحالی اور عوام کے حقوق کے دفاع میں ناکامی کےباعث ان کےمتزلزل اعتمادکو مضبوط کرنا ہے۔۔۔!

یہ بھی پڑھیے:

امریکہ میں مارشل لا کے خدشات ؟۔۔ آصف علی بھٹی

جاگ امریکی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ !۔۔۔ آصف علی بھٹی

بے رحم سیاست اور کورونا کے وار(مکمل کالم)۔۔۔ آصف علی بھٹی

About The Author