نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا پاکستان اب تک 2014 میں تبدیلی دھرنے والا ڈی چوک نہیں بھولا جب شام فضا خوشبووں میں رچی بسی ہوا کرتی تھی ایک شخص رات گئے ریاست کو دھمکاتا پھر دوسرے دن تک محفل برخواست ہوجاتی تھی کیونکہ وہ دھرنا کسی پاشا کی آشا تھی مگر آج اسلام آباد کا ڈی چوک مقبوضہ کشمیر کی طرح دکھائی دے رہا ہے ریاست کے مزدور سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں میں اضافے کیلیئے ریاست سے فریاد کرنے پہنچے تھے ۔
کیونکہ دو سال سے ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا ، سرکاری ملازمین کا ماننا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی زیر قیادت پیپلزپارٹی کی حکومت نے ان کی تنخواہوں میں 130 فیصد اضافہ کرکے ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کی تھیں جس کی وجہہ سے وہ خوشحال بن چکے تھے، مگر پیپلزپارٹی کی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد ان سے انصاف نہیں ہوا اب حالت یہ ہوگئی ہے ان کا گذارا مشکل ہو چکا ہے ، دو وقت کی روٹی کھائیں تو بچوں کی فیس رہ جاتی ہے شام کے وقت دوسری نوکری کرتے ہیں تو بجلی گیس کا بل ادا کرتے ہیں ۔ آج جب ریاست کے مزدور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف ڈی چوک پر آئے تو ڈی چوک کی فضا زہریلی آنسوو گیس سے آلودہ تھی آنسوو گیس کے دھوئیں نے پارلیمنٹ کو بھی دھندلا کردیا تھا۔
ایک زمانہ تھا جب خوشبووں سے رچے ہوئے ڈی چوک پر میڈیا مھربان تھا کیمرے کی آنکھ کنٹینر پر کھڑے ذہنی مریض کا درشن کرانے میں بازی لینے میں بے قرار رہتی تھی آج ڈی چوک کے منظر محفوظ کرنے کو ضروری نہیں سمجھا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان نجی ٹی وی چینلز کے ساتھ وزارت داخلہ اور وزارت اطلاعات کیا سلوک کرتی ہے کیونکہ میڈیا آزاد نہیں ہے۔
آج ڈی چوک کے منظر دیکھ کر صدر آصف علی زرداری نے کہا انہیں تکلیف ہوئی ہے صدر آصف علی زرداری نے یہ بھی کہا کہ چھوٹے اسکیل کے ملازمین غربت کی لکیر سے نیچے آگئے ہیں یہ الفاظ اس شخصیت کہ ہیں جس کو خائن ثابت کرنے کیلیئے ریاست نے گزشتہ تین دہائیوں سے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری ملازمین آج سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان سے کوئی این آر او مانگ رہے تھے جو شیدے ٹلی کے ذریعے ریاست ان پر ٹوٹ پڑی ہے ، ارے ہاں یاد آیا بھارتی پائلٹ کو چائے پلا کر کسی حکمران کی طرح شاہی پروٹوکول میں واگھا سرحد پر بھارت روانہ کیا گیا جس پر بھارتی وزارت دفاع اور، وزارت داخلہ اور وزارت اطلاعات حیران تھے۔
اپنے جائز حق کیلیئے خالی ہاتھ پر امن طریقے سے احتجاج کرنے والے ریاست کے ملازمین کو جس انداز میں نشانہ بنایا گیا ہے اس عمل نے عمران نیازی کے ریاست مدینہ کے بیانیہ کی اصلیت بے نقاب کردی ہے ۔ آج ڈی چوک اسلام آباد میں سرکاری ملازمین جو حقیقت میں محنت کش ہیں، ریاست کے مزدور ہیں ان کے ساتھ ہونے والے طرز عمل نے بیشرم عمران نیازی کو نہیں ریاست کو شرمسار کیا ہے کیونکہ آج ڈی چوک مقبوضہ کشمیر دکھائی دیتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر