گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک کے شعبہ کیمونیکیشن اور میڈیا سٹڈیز نے منگل کے روز ۔۔کووڈ 19 وبا میں میڈیا کے کردار پر ۔۔ایک آن لائن سمینار کا بندوبست کیا جس میں شمولیت کا مجھے بھی اعزاز حاصل ہوا۔ کمال کی بات یہ ہے اس سمینار کے لیے کرک یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جوہر علی نے نہ صرف وقت نکالا بلکہ ایک بہت خوبصورت خطاب بھی کر ڈالا ۔
ڈاکٹر جوہر علی نے اس بات پہ زور دیا کہ میڈیا مصیبت کی ہر گھڑی میں قوم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور کرونا کی وبا میں بھی حتی المقدور خدمت کرتا رہا لیکن چونکہ ساری دنیا کو اس وبا سے نمٹنے کا تجربہ نہیں تھا اس لیے میڈیا سے بھی بعض معاملات میں غلطیاں ہوئیں۔ انہوں نے کہا ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ قوم کے دانشور اور میڈیا آپس میں ملکر مربوط انداز میں کام کرنے کا لائحہ عمل بنائیں اور آئندہ کے ایسے چیلنجوں سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں۔
کیمونیکیشن اور میڈیا سٹڈی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر محمد انور مروت نے کہا کہ اگرچہ ان کے ڈیپارٹمنٹ کو قایم ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا ہے مگر مسلسل محنت اور جدوجھد کیوجہ سے یہ اب ملک کے اعلی شعبوں میں شمار ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر انور مروت صاحب میرے پشاور ریڈیو کے ساتھی ہیں اور بہت عمدہ رپورٹر تھے بعد میں انہوں نے پی ایچ ڈی بھی کی اور آجکل کرک یونیورسٹی سے پروفیسر کے طور پر منسلک ہیں۔
سیمینار سے پروفیسر ڈاکٹر لطف الرحمان نے بھی خطاب کیا اور طلباء کو کا میابی کے نئیے گر بتائے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر لطف الرحمان ۔ڈاکٹر انور مروت میرے پشاور کے آوٹ سٹینڈنگ ریڈیو رپورٹر تھے جنہوں نے افغانستان میں طالبان کے حکمران بننے کی جنگ اور پھر افغانستان پر امریکی حملے کی بھرپور کوریج کی ۔
ان کی محنت اور کام کی لگن کی وجہ سے ریڈیو پاکستان پشاور کو پہلی دفعہ پاکستان کے بہترین ریجنل رپورٹر کا ایوارڈ ملا جو اب بھی میرے پاس یادگار کے طور پر محفوظ ہے۔
سیمینار سے ڈاکٹر فایزہ لطیف نے بھی خطاب کیا اور طلباء کو نہایت عمدہ انداز میں تربیت دی۔ میری تقریر کوورڈ 19 میں سوشل میڈیا کے کردار پر تھی۔ میں نے طلباء کو بتایا کہ کوورڈ 19 نے سوشل میڈیا کو بہت مضبوط کر دیا ہے مگر پاکستان میں شرح خواندگی کم ہونے کی وجہ ابھی سوشل میڈیا ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کر سکا اور کرونا وبا کے دوران بھی غیر سنجیدگی کے مناظر دیکھنے کو کوملے البتہ تعلیم کی شرح بڑھا کر اور تربیت دے کر سوشل میڈیا کو بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔
مگر اب یہ ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہے اور اس کے ساتھ ہم نے جینا ہے۔ سوشل میڈیا کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کا رول بھی اہمیت رکھتا ہے اور حکومت یہ ذمہ داری پوری کرے۔ میں سمجھتا ہوں خوشحال خان یونیورسٹی مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے قومی سطح کا سیمینار منعقد کر کے ایک بہت زبردست کام کیا جو نہ صرف صحافت کے طلبا بلکہ صحافیوں کی رہنمائی کے لیے سنگ میل ثابت ہو ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر