ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عوامی رابطے کے پروگرام ’’آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ‘‘ میں ٹیلی فون پر عوام سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ملک ایک دم ٹھیک کرنا پریوں کی کہانیوں میں ہو سکتا ہے۔ قوم کو صبر کرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ پٹواری، تھانیدار نہیں، حکمرانوں کی چوری نے ملک کو تباہ کیا۔ کون کون سے حکمران؟ وزیر اعظم کو نام لینا چاہئے اور پٹواری، تھانیدار کو بے گناہی کا سرٹیفکیٹ نہیں دینا چاہئے کہ عام آدمی ان کا بھی ڈسا ہوا ہے۔
وزیرا عظم کی طرف سے صبر والی بات سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنا صبر؟ یہ ٹھیک ہے کہ ملک ایک دم ٹھیک نہیں ہو سکتا لیکن دھیرے دھیرے سے ہی کچھ نہ کچھ بہتری تو سامنے آنی چاہئے۔ ذرہ برابر لوگوں کو کچھ نہ کچھ ریلیف تو ملنا چاہئے اگر معاملہ ریلیف کی بجائے تکلیف کی طرف چلا جائے تو یہ ریاست مدینہ والی بات نہ ہو گی۔ لکھ لکھ کر تھک گئے مگر ابھی تک ہوا کا کوئی تازہ جھونکا سامنے نہیں آیا۔ نہ کوئی ذاتی عناد ہے ، نہ کوئی مخالفت۔ دل کرتا ہے کہ عمران خان کے حق میں کچھ لکھیں، مگر لکھیں تو کیا لکھیں؟
افسوس کہ اڑھائی سالوں میں کوئی ایک بھی قابل ذکر کارنامہ سامنے نہیں آسکا۔ابھی کل کی بات ہے کہ میں نے تحریک انصاف کے ایک دوست سے پوچھا وزیر اعظم نے ملتان آنا تھا اور وسیب کے لیے بھاری پیکیج کا اعلان کرنا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ منصوبوں کا افتتاح کریں گے تو تحریک انصاف کے دوست نے برجستہ جواب دیا کہ کون سے منصوبے؟ پھر ساتھ ہی بات تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ ہاں ہاں وزیر اعظم آرہے ہیں اور سول سیکرٹریٹ کا افتتاح کریں گے۔
اس پر میں نے کہا کہ کونسا سول سیکرٹریٹ؟ نہ تو کوئی عمارت بنی ہے اور نہ ہی سول سیکرٹریٹ فعال ہوا ہے۔ بہاولپور والے اپنی جگہ رو رہے ہیں اور ملتان والے اپنی جگہ، نہ وہ خوش ہیں نہ یہ راضی ہیں۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
عمران خان نے صوبے کا وعدہ کیا تھا، نہ کہ سول سیکرٹریٹ کا۔ بہتر تو یہی ہے کہ عمران خان کو صوبے کی خوشخبری کے ساتھ وسیب کا دورہ کریں۔ جہاں تک سول سیکرٹریٹ کی بات ہے ستمبر 2020ء میں حکومت پنجاب کی طرف سے سیکرٹریٹ کا اعلان کرتے ہوئے چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان سمیت 16 محکموں کے سیکرٹری تعینات کئے گئے۔ 100 افسران اور اہلکار بھی تعینات ہوئے مگر نہ ان کے پاس گاڑی ہے اور نہ دفاتر اور نہ ہی کوئی اختیار۔ صرف نام کے چیف سیکرٹری ہیں۔
وسیب کے لوگ کب تک انتظار کریں؟ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ملک عامر ڈوگر نے ایوان صنعت و تجارت ملتان کی مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب کی شناخت تسلیم کر لی گئی ہے۔ بہتر ہوتا کہ ملک عامر ڈوگر صاحب شناخت کی بھی تعریف بتا دیتے۔ سابق صدر آصف زرداری کے دور میں صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبرپختونخواہ رکھا گیاتو زرداری نے دعویٰ کیا کہ ہم نے صوبے کو شناخت دی۔
ملک عامر ڈوگر جنوبی پنجاب کہہ کر وسیب کو شناخت نہیں دے رہے بلکہ شناخت کو مسخ کر رہے ہیں۔ سندھ ، پنجاب، خیبرپختونخواہ، کشمیر، بلتستان اور بلوچستان کی طرح وسیب کی بھی اپنی ایک شناخت ہے۔ سرکاری ریکارڈ، مردم شماری، نادرا، سرکاری ریڈیو، ٹیلی ویژن پر سرائیکی میں پروگرام ہو رہے ہیں نہ کہ ’’جنوبی پنجابی‘‘ میں۔ اسی طرح کالجوں میں اور یونیورسٹیوں میں ایف اے، بی اے، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی سرائیکی میں ہو رہی ہے۔ سرکاری ریکارڈ میں پنجابی زبان ضرور ہے، جنوبی پنجابی کوئی زبان نہیں۔
ملک عامر ڈوگر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ حکومت کے اہم عہدیدار بھی ہیں، کم از کم اُن کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ شناخت کیا ہوتی ہے اور اگر اپنے حافظے پر تھوڑا زور دیں تو انہوں نے الیکشن سرائیکی صوبے کے ایشو پر لڑا تھا اور وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے قومی اسمبلی میں فخر کے ساتھ سرائیکی زبان میں تقریر کی تھی۔ وزیر اعظم نے عوام سے براہ راست رابطے کے پروگرام میں یہ بھی کہا کہ مہنگائی پر قابو پا لیا ہے حالانکہ ان کو حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ مہنگائی پر قابو نہیں پا سکے۔ ابھی کل ہی وفاقی حکومت کے ادارہ شماریات نے مہنگائی سے متعلق جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ کے دوران اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں دس سے پندرہ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
وفاقی حکومت کے ادارہ شماریات کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگست 2018ء میں آٹا 33 روپے کلو، چینی 55 روپے، چکن 120روپے کلو تھا، اب ان تمام چیزوں کی قیمتیں ڈبل ہو چکی ہیں۔ یہ ستم ظریفی بھی ملاحظہ کیجئے کہ جنوری میں پٹرول کی قیمتوں میں تین مرتبہ اضافہ ہوا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ماہ میں تیل کی قیمتیں تین مرتبہ بڑھیں۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے حکومت سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو کہتے تھے کہ پٹرول مہنگا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم چور ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ اپنی بات کی نفی کیوں کر رہے ہیں؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم اوگرا کی سمری پر دستخط کرتے ہیں ، دوسری طرف صرف ٹرانسپورٹ کرائے ہی نہیں دیگر اشیائے ضرورت کو بھی آگ لگ جاتی ہے۔ یہ خبر خوش آئند ہے کہ پنجاب اسمبلی میں خواجہ سرائوں کیلئے ملازمتوں میں کوٹے کی قرارداد جمع کرائی گئی ہے۔ خواجہ سرا بھی انسان ہیں۔ اُن کو نہ صرف ملازمتوں کا کوٹہ ملنا چاہئے بلکہ اُن کیلئے اسمبلیوں میں بھی کوٹہ مختص ہونا چاہئے۔
وزیر اعظم کے وزیر مذہبی امور طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ لیہ میں اقلیتی ہیڈ ماسٹر پر حملہ کرنے والے ملزم گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ صرف گرفتاری کافی نہیں سزا بھی ملنی چاہئے کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہو گا تو دیگر ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں کا تحفظ ہو سکے گا۔ وزیر اعلیٰ عثمان خان بزدار نے ڈیرہ غازیخان چیمبر آف کامرس کے صدر جلال الدین رومی سے ملاقات کے دوران کہا کہ ڈی جی خان میں مزید پناہ گاہیں اور لنگر خانے بنا رہے ہیں جبکہ وسیب میں پناہ گاہوں یا لنگر خانوں کی نہیں ٹیکس فری انڈسٹریل زون ، موٹرویز ، تعلیم صحت اور روزگار کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز ملتان پریس کلب میں ’’پگ دا پرب‘‘ کے نام سے سرائیکی شاعروں کی کانفرنس ہوئی اس موقع پر سرائیکی شاعروں اور وسیب کے رہنمائوں نے حکومت کے وعدوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے صوبے کے قیام کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جب تک صوبہ نہیں بنے گا وسیب کے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ کے دعویدار عمران خان کو وسیب کی پکارپر توجہ دینا ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں:
ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر