نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جبر کا کوئی ایک علاقہ نہیں ہوتا۔۔۔رؤف لُنڈ

انسانی تاریخ شاہد ھے کہ پھر جب انقلابی گیت گائے جاتے ہیں، ہتھوڑی درانتی والے اٹھتے سرخ پھریرے لہراتے ہیں اور سرخ سویرے کا طلوع ہوتا ھے تو وہ ظلم و جبر سے نجات کی نوید بنتے ہیں۔۔

رؤف لُنڈ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ظلم کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ، جبر کا کوئی ایک علاقہ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔ ظلم ہو کہ جبر سب طبقاتی نظام کی جُڑواں اولادیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اسی اولاد کی خباثت کے زور پر مظلوم و مجبور ہر کہیں کچل دئیے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

لیکن انسانی تاریخ شاہد ھے کہ پھر جب انقلابی گیت گائے جاتے ہیں، ہتھوڑی درانتی والے اٹھتے سرخ پھریرے لہراتے ہیں اور سرخ سویرے کا طلوع ہوتا ھے تو وہ ظلم و جبر سے نجات کی نوید بنتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ داستان ھے تحصیل جام پور ضلع راجن پور کے تھانہ لعل گڑھ کے علاقہ بمبلی کی ان لہلاتی فصلوں کے برباد ہونے کی کہ جسے ادھار کی رقم سے یا گھر کی خواتین کے زیور بیچ کے یا پھر دیہاتی بچوں کو دودھ لسی سے محروم رکھتے ہوئے گائے، بھینس اور بکریاں بیچ کے کاشت کیا گیا تھا۔۔۔۔

اور جس کے بیج بونے سے لے کے اس کے ہر لمحہ اگتے عمل کو اس دور میں چند سانسیں سکون سے جی سکنے کے خوابوں کی تعبیر کی آس میں دیکھا جاتا رہا ۔۔۔۔۔ مگر اس طبقاتی نظامِ زر اور اس کے گماشتوں کی خباثت کے ہاتھوں جوان ہوئی فصل کو ملکیت کی رعونت اور ملکیت کو تحفظ دینے والی طاقت (سرکاری مشینری ) کے زور پر تہس نہس کردیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا لتاڑ دی جانے والی اس فصل کے جاندار پودوں اور ان میں جگہ بناتے دانوں کے خوشوں پہ نگاہ ڈال کے تصور کریں تو یہ اذیت ناک خیال آتا ھے کہ اس فصل کے برباد ہونے کا درد فصل کو کاشت کرنے والوں کی اولاد کے عین شباب میں قتل ہو جانے کے درد سے کسی طور بھی کم نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن قاتل بھلا ایسا کب سوچتے ہیں؟ وہ تو اس طرح سسکتے مرتے خوابوں ، اجاڑ ہوتی فصلوں اور قتل ہوتے جوان لاشوں پر مسرت حاصل کرتے ہیں۔ اور ایسی ہر خباثت و حرامزدگی کو اپنی فتحمندی سے تعبیر کرتے ہیں ۔۔۔۔۔

کہا جاتا ھے کہ یہ فصل سرکاری زمینوں پر کاشت کی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواز یہ بنایا گیا کہ یہ کاشتکار نا جائز قابض تھے چونکہ ان کے نام نسلِ انسانی کی بدترین کتاب فردِملکیت/جمعبندی کے خانہِ ملکیت میں درج نہ تھے ۔۔۔۔

دوسری طرف جو کئی سالوں سے یا اپنی پیدائش سے لے کر اب تک اس زمین پر قابض و کاشتکار چلے آرہے ہیں ان کے بقول ھم نے سردیوں گرمیوں کی موسمی شدت اپنی جان پر جھیلتے ہوئے رات دن خون پسینہ بہا کے تیار کیا ھے تو ھم مالک کیوں نہیں ؟ اگر ملکیت کا ثبوت ماں کے پیٹ سے جنم لینے کے وقت ہاتھ میں لے کے آنا ھے اور لاکھوں کروڑوں سالوں کی انسانی تاریخ سے ایسی کوئی ایک مثال پیش کی جا سکتی ھے تو وہ بر حق اور اگر انسانیت سندھ کے شاہ عنایت شہید کے نعرے ” جیرہا رہاوے اوہو کھاوے ” کی حامی ھے تو پھر ھم کاشتکار ہی حق پر ٹھہرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

چلیں سرِ دست کہ جب تک انسانیت فتحمند ہوکے طبقاتی نظام کو جڑ سے نہیں اکھاڑ پھینکتی تب تک بھی اس بے رحم عمل اور سنگدلانہ اقدام کی کوئی بھی انسان حمایت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا قیامت آگئی تھی کہ کاشتکاروں کے خلاف بیدخلی کی کوئی بھی کاروائی فصل اٹھانے جانے کے بعد کی جاتی ؟ تحصیل انتظامیہ کے ہوتے ہوئے تھانے، سرکل کی پولیس کے دھاوا بولنے سے پہلے اس فصل کا تخمینہ لگا کے کاشتکاروں کو معاوضہ دیدیا جاتا ؟ کاشتکاروں کے زرعی آلات اور شمسی بجلی/سولر سسٹم کی پلیٹوں وغیرہ کو توڑنے اور چوری بلکہ سینہ زوری کے بل پر اپنے ساتھ لے جانے کی بدمعاشی کس لئے ؟ ۔۔۔۔۔ اور ہاں انہی برباد ہوتے کاشتکاروں کے بقول اسی زمین کے ملحقہ اور ہمسائیگی میں ایسی ملکیتی نوعیت کی کاشتہ اراضی جس پر مقامی گورچانی سردار نا جائز قابض ہیں ان سے چھیڑ چھاڑ کی جرات کرنیکی بجائے پولیس اور انتظامیہ گیدڑ کیوں بن گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟

موضع بمبلی/ لعل گڑھ، تحصیل جام پور، ضلع راجن پور اور اسی طرح پاکستان کے چپے چپے کے مظلوم کسانو ! آپ سب کو بھی اپنے ہندوستانی کسان بھائیوں کی کئی روزہ تحریک سے شکتی لیتے ہوئے یہاں کے عثمان مودی ، عمران مودی سمیت ملک کے ہر مودی کے خلاف اور ان مودیوں کے محافظ موذی نظام کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ یہاں بھی سرخ انقلابی پھریرے لہرانے ہونگے۔۔۔ یہاں بھی انقلابی گیت گاتے کسان اور محنت کش متحد ہو کر مارچ کرینگے تو تب آپ سب کے مشترکہ اٹھتے قدم ان ظالم حکمرانوں کی گردنوں پر پڑتے محسوس ہونگے۔ پھر یہی وہ وقت ھوگا کہ جب ملیں مزدوروں اور کھیت کسانوں کے اجتماعی جمہوری کنٹرول میں رہ کر انسانی ضروریات کی تکمیل کا فریضہ ادا کرینگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بھی پڑھیے:

 مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ

 کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ

زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

About The Author