ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود کشی کرنے والے کا نوحہ نہیں بلکہ قصیدہ کہنا چاہیے مگر ایسی خود کشی کرنے والے کا جو سوچ سمجھ کر خودکشی کرتا ہے۔ اس لیے کہ سوچ سمجھ کے خود کشی کرنا قطعی بزدلانہ عمل نہیں بلکہ انتہائی دلیرانہ عمل ہوتا ہے۔ مذہب اور نفسیات والے تو انسانی جان کی قدر کا لحاظ کرتے ہوئے اسے حرام یا بزدلی پر محمول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس فلسفی اسے بہادری کہتے ہیں۔
ہارا کیری کرنا تو آپ نے سنا ہی ہو گا جو جاپان میں شرمساری کو بہادری سے قبول کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں پیٹ میں چھرا گھونپ کے جان دینے کو کہا جاتا ہے، ایسے ہی معروف فرانسیسی وجودی فلسفی اور ادیب ژاں پال سارتر اپنی ایک کہانی میں بتاتا ہے کہ اس کا ایک کردار پیرس میں بہتے ہوئے دریائے سین کے کنارے سیر کر رہا تھا کہ اسے ایک بیہوش شخص آدھا پانی میں ڈوبا ہوا ملا۔ اسے اس نے کھینچ کر باہر نکالا، اس کا پیٹ دبا کر اس میں داخل ہوا پانی نکالا۔
جب اس کی اکھڑی سانسیں بحال ہوئیں تو بچانے والے نے اپنا اوور کوٹ اتار کر اسے اڑھایا اور اس نیم بے ہوش شخص کو کندھوں پر لاد کے اپنے گھر لے گیا۔ اس کے منہ میں برانڈی انڈیلی۔ جب اس شخص کو قدرے ہوش آیا تو اس نے بچا کے گھر لانے والے کا گریبان پکڑ لیا۔ بچانے والے نے کہا کہ شریف آدمی میں نے تو تمہیں بچایا ہے، تم میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہو؟
گریبان پکڑنے والے نے کہا کہ تم نے میرے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ میرے کئی ایسے مسائل ہیں جو حل ہونے کا نام نہیں لیتے۔ میں روزانہ مرنے کی خاطر دریائے سین کے پل پر آتا تھا لیکن تار اور یخ پانی کو دیکھ کر، مرنے کی اذیت کا سوچ کر کمزور پڑ جاتا اور گھر لوٹ جاتا تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے وہ لمحہ عبور کیا تھا جس کے کے لیے از حد ہمت درکار تھی کہ تم نے مجھ سے میرا وہ لمحہ چھین لیا۔ اب یا تو مجھے مار ڈالو یا میرے مسائل کا حل نکالو۔
تو اظہر! میں تمہارے لیے قصیدہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ تم نے جو کیا وہ مایوسی کے عالم میں نہیں بلکہ اضطرار میں کیا۔ میں تمہارا نوحہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ تم نے قتل بھی کیا اور وہ بھی اضطرار کے عالم میں، نہ کہ سوچ سمجھ کر۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو مجھے تمہاری ہجو لکھنی پڑتی۔ اضطرار میں بیٹی کو قتل کرنے کے بعد تم نے شرمساری اور اذیت دہ قید یا پھانسی سے بچنے کی خاطر مایوسی میں خود کشی کر لی۔
ایک بار پھر ژاں پال سارتر کو یاد کرتے ہوئے جس نے انسانی زندگی کے مراحل پر مبنی تین جلدوں میں تین عنوانات کے تحت ایک ناول لکھا تھا جسے Triology کہا جاتا ہے۔ انگریزی تراجم میں پہلی جلد کا عنوان Age of reason یعنی ”عہد تعقل“ ہے۔ اسی عہد میں ہم تم واقف ہوئے تھے۔ تم، شاہد مبشر، محمد علی، فدا حسین اور غالباً طاہر اور شریف بھی ایف ایس سی میں تھے اور ہم میڈیکل کالج کے دوسرے برس میں۔ تم ان سب میں خاموش طبع، مسکراتے ہوئے، لمبے اور پتلے نوجوان تھے۔ تمہاری آنکھیں سبز اور نیلگوں تھیں۔
جہاں سے نشتر میڈیکل کالج روڈ شروع ہوتی ہے، اس کے سامنے دوسری طرف کی سڑک میں اندر جا کر ایک گھر تھا جو شاید کامریڈ نذیر چوہدری نے کرائے پر لیا ہوا تھا۔ اسی گلی میں آگے جا کرمیرے ہم جماعت اکبر سعید کا گھر بھی تھا۔ طاہر اور شریف گھر سے پکا کھانا لاتے اور سب مل کر روزہ کھاتے۔
عہد تعقل میں کچھ نکل گئے، کچھ بچھڑ گئے۔ کوئی پروفیسر بن گیا، کسی نے خود کشی کر لی تو کسی نے میڈیکل کالج میں پہنچ کر بھی پڑھنا چھوڑ کر کوئی اور راہ اپنا لی۔ یہ انہیں لوگوں سے متعلق کہہ رہا ہوں جو روبوٹ نہیں تھے بلکہ سوچنے والے لوگ تھے۔ جب تم لوگ یعنی شاہد مبشر، علی، تم اور فدا بھی نشتر میں داخل ہو گئے تو تم کبھی کبھار علی اور اعجاز بلو کے ساتھ میرے کمرے میں آیا کرتے۔ مجھے تمہارا مسکراتا ذہین چہرہ کبھی نہیں بھولا۔
سارتر کی ٹرایالوجی کی دوسری کتاب Reprieve ہے یعنی ”معلق پن“ ۔ ہم جو سوچنے والے لوگ تھے، ان میں سے کئی نے معلق رہنا مناسب نہ جانا اور زندگی کی عام رو میں شامل ہو کر بس ڈاکٹر بننے کا ارادہ کر لیا مگر وہ تھے تو وہی چنانچہ رہے معلق ہی۔ معلق ہونے کا یہ عہد ہم سب کا اپنا اپنا تھا۔ پھر میں نے ایک روز نشتر روڈ پر ایک بورڈ دیکھا جس پر تمہارا نام لکھا تھا اور ساتھ لکھا ہوا تھا ماہر امراض دماغی، ابھی تم نے ماہر نفسیات یا ماہر نفسیاتی امراض لکھنا شروع نہیں کیا تھا کیونکہ تب تک تم جانتے تھے کہ تم سائکیٹرسٹ ہو، ماہر نفسیات نہیں۔ ادویہ دیتے ہو، سیشن نہیں لیتے۔ باہر ایک سرخ کار کھڑی ہوئی تھی۔
میں نے اپنے دوست سے پوچھا، جس کا تمہارے کلینک کے سامنے دفتر تھا کہ کیا یہ نیلی آنکھوں اور لمبے قد والا ڈاکٹر اظہر ہے؟ اس نے تائید کی تو میں تمہیں ملنے تمہارے کلینک میں داخل ہوا۔ تم ذرا موٹے ہو گئے تھے، کچھ بال اڑ گئے تھے اور پیٹ نکل آیا تھا لیکن تم ویسے ہی اظہر تھے، جیسے کو میں شروع سے جانتا تھا۔ تم بڑے تپاک سے ملے۔ تمہارے گرد مریضوں کا ہجوم تھا مگر تم نے پھر بھی وقت دیا۔ تم نے بتایا کہ تم ایک عرصہ پولیس سرجن رہے۔ اسی دوران کسی کھاتے پیتے گھر میں تمہارا بیاہ ہوا۔
ژاں پال سارتر کی مذکور کتاب کے تیسرے اور آخری حصے کا نام Iron in the soul یعنی ”روح فولاد ہوئی“ ہے۔ روح میں فولاد ہو جانے کی صلاحیت کہنے کو تو سبھوں کے حصے میں آتی ہے مگر جو تعقل کے عہد سے معلق پن سے گزرے بنا زندگی کے اس ذہنی انگ کو پھلانگ کر آخری حصے میں داخل ہو جاتے ہیں، ان کی روح متزلزل رہتی ہے۔ کہنے کو تو کہتے ہیں کہ نفسیات اور اعصاب سے وابستہ امراض کے معالجین کا ایک بڑا حصہ خود نفسیاتی مریض ہو جاتا ہے۔ بیشتر یاسیت یعنی ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کئی خود کشی کرنے کا سوچتے ہیں اور کچھ کر بھی لیتے ہیں مگر ڈپریشن میں قتل شاید ہی کوئی کرتا ہو۔
مجھے جب ایک بالکل بالواسطہ ربط سے تمہارے اقدام سے متعلق معلوم ہوا تو تب سے اب تک میں صدمہ کی حالت میں ہوں۔ باتیں تو اب طرح طرح کی بنیں گی۔ تمہارے ہاتھوں اپنی بیٹی کے قتل اور اس کے بعد خود کشی کر لینے کے بارے میں ایک عورت کی آواز میں دو آڈیو اور ایک مرد کی آواز میں دو آڈیو کے علاوہ تمہاری لاش کی تصویر اور تمہاری بیوی کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر بھی سوشل میڈیا پر ہیں۔
میں ماہر نفسیات ہوں اور نہ ماہر جرائم مگر مرنے والا خودکشی کر کے پستول کیسے بستر پہ پھینک سکتا ہے؟ ہاں اتنا میں ضرور جانتا ہوں کہ ایک عرصے سے جائیداد سے متعلق تم میاں بیوی کا تنازعہ تھا، پھر جب کسی خاتون سے تمہاری راہ و رسم سے متعلق تمہاری بیوی کو علم ہوا تم نے یہ اعتراف کر کے کہ میں ہفتے میں ایک بار اس کے ساتھ بس مل بیٹھتا ہوں، اس کے شک کی تائید کر دی تھی۔
لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمہارا بیاہ ”سہولت کی خاطر بیاہ“ تھا۔ تمہیں مادی مفاد تو پہنچ گیا مگر تمہاری ذہنی طورپر، جیسا کہ میں تمہیں جانتا تھا، ایسی تیسی ہو گئی ہو گی۔ تم اس قدر نرم مزاج تھے کہ تمہارا طیش میں آنا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ جہاں میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی بھی نہ ہو، جہاں رشتے میں مادی معاملات طعنہ بنے ہوئے ہوں اور اوپر سے تم نے آزاد انسان کی طرح ایک اور تعلق بنانے کی ہمت بھی کر لی ہو، وہاں واحد بیٹی کی ماں کے لیے ہمدری سے متعلق جاننے کی خاطر ایڈلر ہونے کی ضرورت نہیں۔ جب سے تمہیں کلینک سے بے دخل کر دیا گیا تھا جہاں تمہاری جگہ تمہاری بیٹی نے تمہارے مریض بھگتانے شروع کر دیے تھے، اس کے بعد تم ایک عضو معطل اور محض مفادات میں مداخلت کار رہ گئے تھے۔
تمہارے پاس پستول بھی ہو سکتا ہے، میں اس کے بارے میں بھی یقین کرنے کو تیار نہ ہوتا اگر پاکستان میں مال و دولت رکھنے والوں کو اپنی حفاظت آپ کرنے بارے میں مجھے علم نہ ہوتا۔ پھر اس روز یعنی 22 جنوری 2021 کی دوپہر کو تمہاری بیوی یا بیٹی نے ایسی کیا بات کہہ دی تھی کہ تم نے طیش میں آ کر بیٹی کو قتل کر دیا اور مارے وحشت کو مبینہ طور پر خود کو بھی قتل کر دیا؟ جیسی ایف آئی آر ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اب اس بارے میں تفتیش کار تو شاید ہی کچھ بتائیں البتہ کوئی تحقیقات کرنے والا صحافی شاید معلوم کر سکے، چنانچہ اظہر! میں دہرے قاتل کے لیے نہ نوحہ لکھ سکتا ہوں نہ قصیدہ کہہ سکتا ہوں اور ہجو اس لیے نہیں کہ تم میرے دوست تھے اور مجھے پیارے بھی۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر