وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح ہر کسی کو بچپن میں شوق ہوتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ یا سرکاری افسر بنے گا اسی طرح ہر شوق زدہ حکمرانی کی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے خواب دیکھتا ہے کہ وہ سب کو لائن میں کھڑا کر کے کڑا احتساب کرے گا تاکہ اس ملک کو کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری وغیرہ وغیرہ سے نجات مل سکے اور مجھے اگلی نسلیں یاد رکھیں۔
مگر حسن اتفاق سے ہر آنے والا جانے والے کا تو احتساب کرتا ہے لیکن اپنے اعمال کا احتساب اگلی حکومت پر چھوڑ دیتا ہے۔ یوں احتساب کی نہ ختم ہونے والی چوہتر برس طویل قطار ہے کہ دراز ہی ہوتی جا رہی ہے۔ جنون صفائی کا عالم یہ ہے کہ ہر حکمراں غیر جانبدار احتساب کے لیے غیر جانب دار ادارہ سازی پر توجہ کرنے کے بجائے اپنی مرضی کے احتسابی قوانین متعارف کرواتا ہے تاکہ مخالفین کو (جو کہ عام طور پر کرپٹ ہی تصور ہوتے ہیں ) اچھی طرح خاک چٹوائی جا سکے اور جب یہی محتسب اقتدار سے ہٹتا ہے تو پھر اسی کے بنائے ہوئے یک طرفہ احتسابی قوانین اس کے اور حواریوں کے گلے کا پھندا بن جاتے ہیں۔
گواہی کے لیے پاکستان میں احتساب کی تاریخ ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے کا سب سے پہلا قانون وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت نے گورنر جنرل محمد علی جناح کی وفات کے چار ماہ بعد متعارف کروایا۔ نام تو اس قانون کا پبلک ریپریزنٹیٹیو آفسز ڈس کوالفکیشن ایکٹ تھا مگر پیار سے اسے پروڈا کہتے ہیں۔ اس کا مقصد خیانت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی حوصلہ شکنی تھا۔ اس قانون کے تحت مجرم کو دس برس تک کی سزا ہو سکتی تھی۔ اور سزا یافتہ ظاہر ہے کہ مدت سزا کے دوران نہ تو سیاست میں حصہ لے سکتا تھا نہ کوئی سرکاری عہدہ رکھ سکتا تھا۔
اگرچہ پروڈا جنوری انیس سو انچاس میں متعارف کروایا گیا مگر اس کا اطلاق چودہ اگست انیس سو سینتالیس سے قرار پایا۔ اس قانون کی ضرورت یوں پڑی کہ ایک تو جناح صاحب کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد حکومتی ناقدین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ نیز متروکہ املاک کی الاٹمنٹ اور بھارت سے آنے والے پناہ گزینوں کی امداد میں گھپلوں سے نوآزاد ملک میں گڈگورننس کا تصور داغ دار ہونا شروع ہو گیا تھا۔
مگر پروڈا کا کلہاڑا اصل مگر مچھوں پر کم اور سیاسی مخالفین اور خودسر افسروں پر زیادہ چلا۔ لیاقت علی خان تو انیس سو اکیاون میں شہید ہو گئے البتہ پروڈا نہ صرف برقرار رہا بلکہ گورنر جنرل غلام محمد اور پھر اسکندر مرزا کے اشاروں پر ناچنے والی حکومتوں کے ہاتھ میں گویا استرا ہو گیا۔
استرے کی زد میں متحدہ بنگال کے آخری وزیر اعلیٰ حسین شہید سہروردی کے علاوہ سندھ کے دو وزرائے اعلیٰ ایوب کھوڑو اور پیر الہی بخش، پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواب افتخار ممدوٹ اور مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ مولوی اے کے فضل الحق بھی آئے۔ ان شخصیات اور بہت سے بیوروکریٹس کی شہرت کو بٹہ لگا یا نہ لگا البتہ کرپشن، اقربا پروری اور خورد برد کا بال بیکا نہ ہوا۔
جب آئین سازی کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کو مشرقی و مغربی بازوؤں کے ”بے لگام“ سیاست دانوں کے اتفاق کی حاجت ہوئی تو پروڈا انیس سو چھپن کے آئین کے نفاذ سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔
جب اکتوبر انیس سو اٹھاون میں پہلا مارشل لا لگا۔ تو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان نے بالائے قانون اقتدار اغوا کرنے کے باوجود کرپٹ سیاستدانوں اور افسروں کی گوشمالی کے لیے انیس سو انسٹھ میں الیکٹڈ باڈیز ڈس کوایلفکیشن آرڈر المعروف ایبڈو جاری کیا۔ چن چن کے صف اول و دوم کے لگ بھگ پچھتر سیاستدانوں کو آٹھ برس کے لیے سیاست سے خارج کر دیا گیا۔ ان میں زیادہ تر بائیں بازو کے لوگ، ون یونٹ کے مخالف قوم پرست اور شیخ مجیب الرحمان اور مولانا بھاشانی سمیت مشرقی پاکستان کے اختیار پسند سیاستداں بھی شامل تھے۔
مگر بنگال کے سب سے معروف قانون داں حسین شہید سہروردی کو یہ نادر اعزاز ملا کہ وہ قبل از مارشل لا پروڈا کی زد میں بھی آئے، وزیر اعظم بھی رہے اور پھر ایبڈو کی فہرست میں بھی شامل ہوئے اور جیل بھی کاٹی۔ وہ پہلے سابق وزیر اعظم تھے جنھیں بھارتی ایجنٹ کے طعنے سے نوازا گیا اور وہ بھی جنرل ایوب خان کی طرف سے۔
ایبڈو کے قانون کا آرٹیکل سیون ایک دلچسپ قانونی شاہکار تھا۔ یعنی اگر کوئی زیر تفتیش شخص ازخود اکتیس دسمبر انیس سو چھیاسٹھ تک سیاسی سرگرمیوں سے تائب ہو کر سنیاس لے لے تو اس کے خلاف مزید چھان بین روک دی جائے گی۔ المختصر ایبڈو کی تلوار سیاستدانوں کے علاوہ لگ بھگ تین ہزار اعلیٰ اور درمیانی افسروں پر بھی چلی۔ کوئی نوکری سے برخواست ہوا اور کسی کی تنزلی ہو گئی۔ مگر کرپشن اور بدانتظامی اور اقربا پروری پھر بھی معزول نہ ہو پائی۔
وہی ایوب خان جو روایتی سیاستدانوں کو جملہ بے اعتدالیوں کی جڑ سمجھ کر ان کی بداعمالیوں پر نفرین بھیجنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے تھے، اقتدار سنبھالنے کے چار برس کے اندر اندر اپنے شوق سیاست کو حلال کرنے کے لیے کنونشن مسلم لیگ ایجاد کرنے پر مجبور ہو گئے۔
اس سرکار نواز مسلم لیگی دھڑے کے سیکریٹری جنرل جواں سال وزیر ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ان کا ایک مشن یہ بھی تھا کہ راندہ درگاہ سیاستدانوں کو گھیر گھار کر کنونشن لیگ کے بپتسمے سے گزار کے نئے کلف والے کپڑے پہنائیں تاکہ ان سیاستدانوں کی سوچ مثبت ہو سکے۔
البتہ ایبڈو کے ناخن چند برس میں ہی کند ہونے لگے۔ اس قانون کے رد عمل میں ایوب خان کو صدارتی انتخابات میں متحدہ حزب اختلاف کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ ایوب خان وہی ہتھکنڈے استعمال کر کے صدارتی انتخاب جیتے جن کا الزام وہ پچاس کی دہائی کے سیاستدانوں پر لگاتے آئے تھے۔ اوپر سے آ بیل مجھے مار کے نظریے کے تحت ہونے والی پینسٹھ کی جنگ نے رہا سہا دبدبہ بھی غتر بود کر دیا۔
جنگ کے بعد کون سا ایبڈو، کس کا ایبڈو۔ ایوب خان سب بھول بھال گئے۔ جب ان کی کرسی ہلنے لگی تو ایبڈو زدہ سیاستدانوں کے ساتھ ایک گول میز پر بیٹھنا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے وقار گیا پھر خود فیلڈ مارشل گئے اور ایسے گئے کہ اپنے ہی ہاتھوں کے بنائے گئے آئین کے تحت اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کو منتقل کرنے کے بجائے جنرل یحیی خان کو باگ ڈور سونپ دی۔
یحیی خان نے آتے ہی ون یونٹ کا خاتمہ کر دیا اور بالغ رائے دہی کی بنا پر نئی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کا اعلان بھی کر دیا۔ مگر شوق احتساب ان میں بھی ابل رہا تھا۔ چنانچہ اس شوق کی نذر تین سو تیرہ بیوروکریٹس ہو گئے۔ ان میں سے کتنے افسر واقعی نا اہلی، کرپشن یا اختیارات کے ناجائز استعمال کی بنیاد پر نکالے گئے یہ تو میں نہیں جانتا۔ البتہ ایک بزرگ قاضی منظور احمد کو ضرور جانتا ہوں۔ وہ بھی تین سو تیرہ افسروں میں شامل تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں نکالے گئے؟
انھوں نے قصہ سنایا کہ ”میں اسسٹنٹ کمشنر مظفر گڑھ تھا۔ ایک روز راولپنڈی سے ایک ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسر آئے مظفر گڑھ کے دریائی علاقے میں پرندوں کا شکار کرنے۔ مگر انھوں نے مقامی انتظامیہ کو اس بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی۔
جب مجھے خبر ملی کہ کوئی افسر صاحب اپنے دوستوں کے ہمراہ باہر سے آ کر شکار کر رہے ہیں تو میں موقع پر پہنچا۔ اپنا تعارف کروایا اور ان سے کہا کہ اگرچہ آپ ہمارے مہمان ہیں لیکن کیا آپ نے کسی کو اپنی آمد کا مقصد بتایا یا شکار کا کوئی اجازت نامہ ہے آپ کے پاس۔ ان صاحب نے مجھے اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا اور کہا میں پنڈی واپس جا کر آپ کو تحریری اجازت نامہ بھجوا دوں گا۔
دو ہفتے بعد جب تین سو تیرہ کرپٹ اور نا اہل افسروں کی برطرفی کی فہرست جاری ہوئی تو اس میں میرا نام بھی شامل تھا۔ میں نے اپنی برطرفی کو کسی فورم پر چیلنج نہیں کیا۔ کیونکہ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب ملک کو میرے جیسے سوال کرنے والے افسروں کی نہ ضرورت ہے اور نہ آئندہ ہو گی ”۔
( برطرفی کے چند برس بعد قاضی صاحب کو ماچھی گوٹھ شوگر ملز میں ایڈمن افسر کی نوکری مل گئی۔ وہ روزانہ اپنی تیس برس پرانی سکوڈا کار پر رحیم یار خان شہر سے ماچھی گوٹھ جاتے تھے۔ جب سکوڈا کا انجن بھی جواب دے گیا تو قاضی صاحب وین میں آتے جاتے رہے اور پھر ایک دن مستقل چلے گئے ) ۔
( قصہ جاری ہے ) ۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر