امتیاز عالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیومن رائٹس واچ کی سال 2020ءکی رپورٹ میں پاکستان اور بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کا پہلے سے بھی زیادہ شدید نوٹس لیا گیا ہے۔ مجال ہے کہ دونوں ملکوں کے حکام بالا کے کانوں پہ جوں بھی رینگے۔ البتہ دہلی اور اسلام آباد اپنی اپنی انسان کُشیوں پہ شرمندہ ہوئے بغیر انسانی حقوق کی علمبردار عالمی تنظیموں کے فریق مخالف پہ اٹھائے گئے شرمناک حقائق کو اپنی اپنی جارحانہ سفارت کاری کے لیے یکطرفہ طو رپر استعمال کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ یا پھر اپنے اپنے ملک پر کی گئی تنقید پر کیڑے نکالنے میں عافیت پانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ بھلا اپنی اپنی شرمساری کو چھپا کر دوسرے کی انسانی خلاف ورزیوں پر شور شرابے کو کون کیا وقعت دے گا۔ محاورہ ہے چھاج بولے تو بولے چھلنی بولے تو کیا بولے۔ انسانی حقوق کی پامالی پہ قومی منافقت سے کام چلنے والا نہیں لیکن پھر بھی دونوں ملکوں کی وزارت ہائے خارجہ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے، معاندانہ سفارشکاری کے پرانے شفف کو دہرانے میں مگن رہتی ہیں۔ قومی تشفی کے لیے خارجہ افسران بڑی عرق ریزی کے ساتھ ان نکات کی تلاش میں لگ جاتے ہیں جو کسی بھی حوالے سے دوسرے کے نقائص نکالنے کے کام آئیں۔ پھر یکطرفہ رھنڈورچی اور قومی معتصب میڈیا میدان میں اترتے ہیں اور اپنے اپنے قارئین اور ناظرین کو سرحد پار ہونے والی انسان سوزیوں پہ کف افسوس ملنے پہ اکساتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ دوسروں کے دکھوں پہ قومی صحافت چمکانے والے اپنے قارئین و ناظرین کو یہ بھی سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ خود ان کے حالات کسی بھی انسانی حق کے پیمانے پہ کتنے برے ہیں۔ یوں سرحد پار کے دونوں اطراف دکھوں کی انسانی ایکتا جنم لیتی ہے۔ جیسے آج کل ہم بھارت میں جاری کسانوں کی فقید المثال تحریک کے حوالے سے پاکستان کے عوام میں بھارتی کسانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار میں دیکھتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ پاکستان کے کسان بھی اپنے دکھوں کے ازالے کے لیے ویسے ہی میدان میں اتریں جیسے بھارت کے شمالی صوبوں کے کسان اترے ہیں۔ سرحدوں کے آر پار جب مظلوم عوام اور دانشور اظہار یکجہتی کرتے ہیں تو اسے قومی تعصب کی دیواریں گرجاتی ہیں اور قومی سلامتی کی ریاستوں کی پھیلائی قومی عصبیتیں دم توڑنے لگتی ہیں۔
یہ عجب منافقت ہے کہ جب ارون دھتی رائے کشمیریوں یا بھارتی مسلمانوں اور نچلی جاتیوں کے مظلوم عوام کے لیے اپنی ہی قومی ریاست کی جارحانہ اور معتصبانہ پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں تو انہیں پاکستانی میڈیا میں بے پناہ احترام کے ساتھ بطور گواہ پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستانی حکومت اور انتظامیہ کے جمہوری ناقدین جب ہمارے ہاں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں بھارت کے میڈیا میں نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ جیسے کبھی آسمہ جہانگیر اور آج کل پی ڈی ایم کے لیڈروں کے بیانات بھارتی میڈیا میں ضرورت سے زیادہ اجاگر کیا جاتا ہے۔ یہ ایک خوفناک اتفاق ہے کہ ضمیر او رحق کی آواز اٹھانے والوں کو اپنے اپنے ملکوں میں غدار کا تعصب اور دشمن کا ایجنٹ قرار دے ان کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسے ارون دھتی رائے کے خلاف بغاوت کا مقدمہ یا پھر پاکستان میں حذب اختلاف کو بھارتی آلہ کار کے طور پر پیش کر کے کیا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی تنظیم سافما (SAFMA)کی خطے میں امن و تعاون کی کوششوں کے پندرہ برسوں میں پاکستانی سافما کو بھارتی ایجنٹ اور ہندوستانی سافما کو پاکستانی ایجنٹ کے طور پر مطعون کیا جاتا رہا۔ دونوں ملکوں کے ارباب اختیار نے اپنی اپنی ضرورتوں اور اعتماد سازی کے لیے سافما کی کوششوں سے استفادہ بھی کیا، لیکن ساتھ ساتھ وہ سافما کی خودمختاری اور معاملہ فہمی سے شاکی رہے۔
انسانی، شہری، سیاسی و معاشی حقوق کے اب عالمی پیمانے بن چکے ہیں جن کی کسوٹی پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کسی بھی ملک میں انسانی حقوق کے حالات کو پرکھتی ہیں۔ اگر مختلف قوموں اور ملکوں کے لیے مختلف پیمانے استعمال ہونے لگیں تو انسانی حقوق کے عالمی نگران ادارے اپنی ساکھ کھو بیٹھیں۔ جب میڈیا کی آزادی کا جائزہ لیا جائے گا تو کیسے اس میں صرف پاکستان کو مطعون کیا جاسکے گا اور بھارت کو کلین چٹ دی جاسکے گی۔ ا گر بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بدترین اور سفاکانہ سلوک روا رکھا جارہا ہے تو اس کی مذمت تو کی جائے گی، اور جب کم و بیش ایسا ہی سلوک پاکستان کی منحنی سی اقلیتوں کے ساتھ ہوگا تو اسے کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی طرح بہت سی انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں ہونے والے مظالم کی مسلسل مذمت کررہی ہیں۔ وہاں ہونے والے حالیہ مقامی انتخابات میں دھاندلیوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ پھر گلگت بلتستان میں ہونے والی انتخابی بے ضابطگیوں پر عالمی آبزرور کیسے آنکھیں موند سکتے ہیں؟ دوہرے معیار کی سب سے بدتر مثال تو قومیتوں کے حقوق کے حوالے سے ہے۔ جب مشرقی پاکستان میں فوج کشی ہوئی تو بھارت نے مسلم بنگال کے حق خود ارادیت کا مسئلہ عالمی سطح پہ اٹھایا اور ان کی آزادی کی جدوجہد میں ہر طرح کی مدد ہی فراہم نہیں کی بلکہ فوج کشی تک کی لیکن جب بھارت کشمیریوں کے ساتھ ویسا ہی جابرانہ سلوک کررہا ہے اورحق خود ارادیت مانگنے والوں کو تہ تیغ کرنے میں مصروف ہے تو بھارت میں اس قومی جبر کی مخالفت کرنے والوں کو دہشتگردوں کا ہمنوا اور آئی ایس آئی کا ایجنٹ کہہ کر چپ کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی طرح جب پاکستان میں چھوٹے صوبوں کے لوگ حقوق مانگتے ہیں انہیں دشمن کی ہائبرڈ جنگ کا آلہ کار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی کے معاملے میں لگتا ہے کہ بھارت اور پاکستان میں مقابلہ ہے۔ آخر انسانیت کی تذلیل کا یہ خوفناک سلسلہ کم ختم ہوگا۔ سرحدی تنازعات اور قومی دشمنی کے تاریخی ورثہ کے ہاتھوں اگر کوئی پس رہا ہے تو وہ برصغیر کے محنت کش عوام ہیں۔ بدقسمتی سے بڑی سیاسی جماعتیں بھی ابن الوقتی کا شکار ہے جب کوئی اپوزیشن میں ہوتا ہے تو وہ حکومت وقت کو قومی مفادات کا سودا کرنے کا موجب قرار دیتا ہے اور برسراقتدار جماعت اپنی اپنی حزب اختلاف کو دشمن کا ایجنٹ قرار دے کر اپنی اپنی کوتاہیوں اور مظالم پر پردہ ڈالتی ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں سات دہائیوں سے یہی مضحکہ خیز لیکن المیاتی اور خونی کھیل جاری ہے۔ آخر کب تک؟ کبھی تو انسانی حقوق کی تعظیم برصغیر طرہ امتیاز بنے گی۔
یہ بھی پڑھیے:
قضائے الٰہی اور انسانی گناہوں کی سزا۔۔۔امتیازعالم
بدلتا علاقائی منظر اور او آئی سی کا زوال۔۔۔امتیازعالم
امریکہ کی واپسی اور چین کے بدلتے تیور۔۔۔امتیازعالم
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر