گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی کے آخری سالوں میں جب میں بیجنگ جاتا تو وہاں کے لوگوں میں ایک نعرہ بہت عام تھا ۔۔
China,s peaceful Rise.
یہ نعرہ چین کے ممتاز لیڈر
HU JINTAO
نے بلند کیا تھا اور اس کو قوم کی سرکاری پالیسی بنایا۔ مقصد اس سلوگن کا یہ تھا کہ چین خاموشی سے ترقی کی رفتار تیز کرنے پر توجہ مرکوز رکھے اور ہر قسم کی بین الاقوامی لڑائیوں اور جھگڑوں سے دور رہے۔
درحقیقت چین 1978ء سے معیشت کی بہتری پر گامزن ہو چکا تھا اور 9.4 % کی سالانہ جی ڈی پی گروتھ کے ساتھ ساری دنیا میں اول نمبر پر تھا۔جب مغربی ممالک نے یہ ترقی دیکھی تو وہ مارے حسد کے سوچنے لگے کہ اس رفتار سے چین ترقی کرتا رہا تو پھر سپر پاورز کی نمبرداری تو جاتی رہے گی۔مغربی ممالک جنگیں لڑ لڑ کے یہ بھی سیکھ چکے تھے کہ طاقت کا نشہ ہر ملک کو دوسرے ملکوں پر تسلط پر اکساتا ہے اس لیے وہ چین کی ترقی کو روکنے اور اس کو جنگوں میں الجھانے کے منصوبے بنانے لگے مگر چین نے ہر اشتعال کو برداشت کیا اور خاموشی سے پرامن ترقی کی راہ چلتا رہا۔
ہانگ کانگ بھی اس کے پاس نہیں تھا مگر برطانیہ سے ایک پر امن صبر آزما معاھدہ کر کے واپس لے لیا۔تائیوان پر بھی چین نے صبر کا دامن تھامے رکھا ہوا ہے۔یو این او کا رکن بنا اور ویٹو پاور بھی حاصل کر لی۔اس وقت چین دنیا کا نمبر ون ملک بن چکا ہے اور مزید آگے بڑھ رہا ہے ۔اس کے مقابلے میں پاکستان ایک بہت چھوٹا ملک ہے مگر پچھلے 72 سال میں کتنی جنگیں لڑ چکا۔ کچھ جنگیں تو چلو ہم پر مسلط کی گئیں کچھ ہم نے خرید لیں۔ اب معیشت کا حال دیکھیں ساری دنیا آسمان پر جا پہنچی مگر بقول شاکر شجاع آبادی
؎ اساں پیلے پتر درختاں دے ساکوں رہندے خوف ہواواں دا۔
چلو دور نہ جائیں اپنے ڈیرہ پھلاں دا سہرا کا گذشتہ بیس سال کا حال دیکھیں۔ ہمارا شھر اپنے مرکز چوگلہ کے اردگرد پانچ میل کے اندر چھوٹا سا قصبہ نما شھر ہے مگر پچھلے دور کے اندر ایسی خوفناک دھشت گردی اور خونریزی شاید ہی کسی دوسرے شھر نے دیکھی ہو۔
ہر ملک اور شھر کے فرقہ باز ڈیرہ آتے رہے اور ہمارا امن تباہ کر دیتے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا یہاں صنعتیں لگنے کی جگہ ناکے مضبوط ہوئے ۔تعلیمی ادارے اکثر اوقات بند رہنے کی وجہ سے ہمارے طلبا کچھ نہ بن سکے تعلیم پر پیسہ خرچ ہونے کی بجاے سیکورٹی پر لگا ۔ ہمارے اعلی دماغ جو شھر کو ترقی سے ہمکنار کر سکتے تھے یہاں سے ہجرت کر گیے۔
ہمارے دانشور ۔ہمارے پروفیسر۔صحافی۔سیاستدان۔ادیب ۔شاعر آپس میں لڑ بھڑ پڑے ۔لسانی و جغرافیائی معاملات کو ہوا دی گئی اور ڈیرہ میں بار بار سیکورٹی پر پیسہ خرچ ہوتا رہا۔ ڈیرہ شھر جو دانشوروں ۔شاعروں ۔ادیبوں۔سکالرز کا شھر مشھور تھا آجکل اس شھر میں ایک بھی باضابطہ رجسٹرڈ ادبی تنظیم موجود نہیں۔
ہم نے دامان آرٹس کونسل ۔ڈیرہ آرٹس کونسل جیسے بنے بناے ممتاز ادارے گنوا دیے یونیورسٹی کا امیج خراب کرنے پر لگے رہے۔ نہ ہسپتال کو بہتر بنوا سکے ۔ہر روز حادثات سے زخمی مریض ملتان پشاور جا رہے ہیں۔ دامان میں خشک سالی تھی بارش کی دعائیں مانگیں بارشیں اللہ کی رحمت بن کے اتریں مگر ہم نے اس پانی پر بھی بندے مرواے اور 80% پانی جمع کرنے کا بندوبست ہی نہیں۔سارا پانی دریا برد ہوا۔
نہ ہم اسلام جو امن و سلامتی کا دین ہے اس پر عمل کرتے ہیں نہ ہم دنیا کے حالات سے سیکھتے ہیں تو پوچھنا یہ تھا کہ ہم ڈیرہ وال کس سیارے کی مخلوق ہیں۔ کیا لڑائی جھگڑے۔مار کٹائی۔فرقہ بندی۔نسل پرستی ۔بدامنی کا پوری دنیا کا ٹھیکہ ہمارے پاس ہے؟۔یار خود تو ذلیل وخوار زندگی گزاری اگلی نسل کو بخش دو کہ کم از کم وہ سکون سے رہ سکیں۔مل جل کر ادارے بناو ۔
قربانی اور برداشت کے کلچر کو فروغ دو۔ اس شھر کے شاعر ۔ادیب ۔ لوگوں سے مانگے تانگے کے کمروں میں اپنی تقاریب کرتے ہیں اس لیے کہ آرٹس کونسل کی عمارت نہیں۔یہاں کا قدیم فن ۔فنکار۔ہنر مند فاقوں کا شکار ہیں وہ شاندار ہنر اور فن جو تاریخ کا حصہ بننا تھا اپنی موت آپ مر رہا ہے مگر ہماری ضد اس بات پر ہے کہ میں دنیا کا بڑا صحافی۔شاعر۔ادیب ۔ فلاں فلاں ہوں اور جن کو میں کمتر سمجھتا ہوں اس کے ساتھ اکٹھا کیوں بیٹھوں؟ کہتے ہیں اتحاد میں برکت ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر