نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

توہین مذہب کا الزام: پروفیسر کو قتل کرنے پر طالبعلم کو سزائے موت

ملزم کی گرفتاری کے بعد یہ مقدمہ بہاولپور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں زیر سماعت تھا

پنجاب کے جنوبی ضلع بہاولپور میں توہین مذہب کا الزام لگا کر کالج پروفیسر کو قتل کرنے والے طالب علم کو دوبار سزائے موت سنا دی گئی۔

بہاولپور میں گورنمنٹ صادق ایجرٹن (ایس ای) کالج کے شعبہ انگریزی کے پروفیسر خالد حمید کو ان کے ایک شاگرد خطیب حسین نے مارچ 2019 میں توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کردیا تھا۔

ملزم کی گرفتاری کے بعد یہ مقدمہ بہاولپور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں زیر سماعت تھا، جہاں جج مہر ناصر حسین نے کیس کی کارروائی مکمل ہونے پر ہفتہ (16 جنوری) کو کیس کا فیصلہ سنایا۔

عدالت نے خطیب حسین کو جرم ثابت ہونے پر زیر دفعہ 302 کے تحت سزائے موت اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ جبکہ دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت بھی سزائے موت اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ یہ سزائیں مجموعی طور پر دوبار سزائے موت اور سات لاکھ روپے جرمانہ بنتا ہے۔

فاضل عدالت نے خطیب حسین کو قتل پر اکسانے کا جرم ثابت ہونے پر لیہ سے گرفتار کیے گئے ساتھی ملزم ظفر حسین کو مختلف دفعات کے تحت مجموعی طور پر 14 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی۔

معاملہ تھا کیا؟

بہاولپور کے تھانہ سول لائنز میں درج مقدمے کے مطابق ایس ای کالج میں پانچویں سیمسٹر کے طالبعلم خطیب حسین نے 20 مارچ 2019 کو صبح کے وقت اپنے انگریزی کے استاد پروفیسر خالد حمید کو ان کے دفتر میں چھری کے وار کرکے قتل کردیا تھا، جس کے بعد کالج میں بھگدڑ مچ گئی تھی جبکہ کالج انتظامیہ کی کال پر پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر ملزم کو آلہ قتل سمیت گرفتار کیا تھا۔

پولیس حراست کے دوران خطیب حسین نے اقبال جرم کرتے ہوئے بیان دیا تھا کہ پروفیسر خالد حمید دوران گفتگو مذہب کی توہین کرتے تھے جس سے ان کے جذبات مجروح ہوتے تھے اس لیے انہیں قتل کر ڈالا۔ ملزم نے یہ بیان بھی دیا تھاکہ مقتول کالج میں پارٹی کے انعقاد کی اجازت دے رہے ہیں جس میں لڑکے اور لڑکیوں کی شمولیت پر بے حیائی پھیلنے کا خدشہ تھا۔

دوران تفتیش پولیس کو علم ہوا تھا کہ خطیب حسین نے لیہ کے رہائشی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مقامی رہنما ظفر حسین سے روابط کے دوران مشاورت کی تھی اور انہوں نے پروفیسر کے قتل کا مشورہ دیا تھا اور اس کے لیے انہیں قائل کیا تھا، جس پر پولیس نے ملزم ظفر حسین کو بھی واقعے کے چند دن بعد حراست میں لے لیا تھا۔

خطیب حسین کے کلاس فیلوز نے پولیس کو بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ وہ علامہ خادم رضوی مرحوم، جو اس وقت حیات تھے، کے خطابات سنتا تھا اور ان کے خیالات سے متفق تھا۔ انہی دنوں تحریک لبیک کی جانب سے ناموس رسالت سےمتعلق تحریک بھی جاری تھی۔

اس واقعے پر ملک بھر سے سول سوسائٹی اور اساتذہ کی جانب سے بھی شدید ردعمل سامنے آیاتھا۔

فیصلے پر مقتول کی فیملی کا ردعمل

پروفیسر خالد حمید کے بیٹے ولید خان کے مطابق ان کے والد کو بلاوجہ مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھایا گیا اور وہ اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے۔

بذریعہ فون گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ‘پوری فیملی ان کو ناحق قتل کیے جانے پر سوگوار رہی اور اب فیصلہ آنے پر ان کی یاد تازہ ہوگئی ہے اور گھر کا ماحول افسردہ ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ‘پورا خاندان ابھی تک اس حیرانی کی کیفیت میں ہے کہ جو شخص سچا مسلمان اور نماز روزے کا پابند تھا، انہیں مذہب کی توہین کا الزام لگا کر قتل کردیاگیا۔’

ولید کے مطابق پولیس، سول سوسائٹی اور کالج انتظامیہ نے ان کی فیملی کا خیال رکھا اور انہیں انصاف دلانے میں بھرپور مدد کی۔ انہیں کیس کی پیروی کے دوران دھمکیاں بھی ملتی رہیں لیکن پولیس نے بہتر انداز میں انہیں تحفظ فراہم کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ملزم کی جانب سے اعلیٰ عدالتوں میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی تو وہاں بھی انصاف کے لیے قانون کے مطابق ان کے کیے کی سزا دلوائیں گے۔

About The Author