نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سینیٹ کا انتخاب اور بلوچستان کا اکھاڑہ۔۔۔شاہد رند

ایسے ہی بی این پی عوامی بھی خواہش رکھتی ہے کہ گزشتہ جتنے ضمنی الیکشن سینیٹ کے ہوئے انکی جماعت نے بی اے پی کی حمایت کی ہے اسلئے اس بار ایک سینیٹر منتخب کروانے کیلئے بی اے پی انکی مدد کرے۔

شاہدرند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے قیام کے ساتھ ہی بہت سے افراد کی یہ رائے تھی کہ اب سینیٹ کے انتخابات نہیں ہونگے اور یہ سسٹم اب گیا کہ تب گیا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں پی ڈی ایم کے استعفیٰ ایک آئینی بحران پیدا کردینگے لیکن اب سے چند روز قبل پیپلزپارٹی نے سی ای سی کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ وہ نہ صرف ضمنی انتخاب لڑینگے بلکہ سینیٹ کے انتخابات میں بھی میدان خالی نہیں چھوڑینگے اور اگلے ہی روز پی ڈی ایم کے اجلاس میں آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان کی ایک نہ چلنے دی یہاں تک کہ ن لیگ بھی پیپلزپارٹی کی ہمنواء بن گئی تھی اب چونکہ سینیٹ انتخابات میں اترنے کا فیصلہ پی ڈی ایم کرچکی ہے۔

تاہم اسکا واضح اعلان نہیں کیا گیااب جب سینیٹ انتخابات کے التواء میں جانے پر چھائے بادل چھٹ رہے ہیں تو سینیٹ کے آئندہ انتخابات میں بظاہر حکمراں اتحاد کو اکثریت ملنے کا امکان ہے، حکمراں اتحاد کو سندھ کے علاوہ تین صوبوں سے اکثریت ملنے کی امید ہے اس بار بلوچستان کے گیارہ سینیٹر ریٹائیرڈ ہونگے اور اگلے باربارہ سینیٹر منتخب ہو کر ایوان بالا جائینگے ۔اس وقت اگر اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو بلوچستان اسمبلی میں موجود حکمراں اتحاد کو سات سے آٹھ نشستیں ملنے کا امکان ہے جبکہ اپوزیشن کو تین سے چار نشستیں ملنے کی بات ہورہی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق صرف بلوچستان کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بی اے پی ہے۔

جسکے پاس اپنے اراکین کی تعداد پچیس کے لگ بھگ ہے اور حکمراں اتحاد میں موجود اتحادیوں کی تعداد اڑتیس کے قریب ہے ، ان اعداد و شمارکے ساتھ بی اے پی اور اسکے اتحاد میں شامل جماعتیں باآسانی چار جنرل نشستوں پر کامیاب ہوسکتی ہیں بلکہ پانچویںجنرل نشست کیلئے بھی تگ و دو کرسکتی ہیں جبکہ خواتین اور ٹیکنو کریٹ کی ایک ایک نشست اور اقلیت کی نشست اس اتحاد کے حصے میں آسکتی ہے جسکے لئے انہیں اپنی اتحادی جماعتوں کی ضرورت ہوسکتی ہے لیکن ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ سینیٹ کی ایک نشست عوامی نیشنل پارٹی نے بی اے پی سے مانگی ہے اور اس سلسلے میں قول و قرار پہلے ہوچکے ہیں۔

ایسے ہی بی این پی عوامی بھی خواہش رکھتی ہے کہ گزشتہ جتنے ضمنی الیکشن سینیٹ کے ہوئے انکی جماعت نے بی اے پی کی حمایت کی ہے اسلئے اس بار ایک سینیٹر منتخب کروانے کیلئے بی اے پی انکی مدد کرے۔ ایسا ہی مطالبہ ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی بھی دل میں دبائے بیٹھی ہے ۔اور بی اے پی کی دوسری بڑی اتحادی جماعت بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف ہے جسکے سات اراکین ہیں ان نمبرز کیساتھ تحریک انصاف ایک نشست جیت سکتی ہے اگر اسکے ارکان یکجا رہے تو بلکہ پاکستان تحریک انصاف بلوچستان بھی چاہتی ہے کہ لین دین کے کھیل میں جہاں بی اے پی کو انکی اور انہیں بی اے پی کی ضرورت ہے۔

تو اسلئے انہیں بھی ایک سے زیادہ سیٹ دیے جا ئیں۔ یہ تو ہیں موجودہ اعداد و شمار اب ایسی صورتحال میں کس کے ہاتھ کیا آتا ہے کہاں اتفاق اور کہاں اختلاف آتا ہے کیونکہ ابھی تک بی اے پی بظاہر صرف اے این پی کو ایک سیٹ دینے پر آمادہ ہے یہاں تک کہ جام کمال چند روز قبل یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سینیٹ کی نشست لے تو بہتر ہے تاہم ابھی اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اگر نظر دو ڑائی جائے اپوزیشن کے اعداد و شمار پر تو نمبر گیم کے مطابق ستائیس نشستوں کیساتھ اپوزیشن کو تقریباً تین جنرل نشستیں باآسانی مل سکتی ہیں جنرل اور ٹیکنو کریٹ کی نشستوں کا حصول ووٹ کے اعداد و شمار پر اور مخالف فریق کی جوڑتوڑ پر ہوگا ۔

اب اس کی تقسیم کیسے ہوگی آیا اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں انہیں برابری پر تقسیم کرینگی یا پھر ایک رکن والی پشتونخواہ یا ایک آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی کو کوئی حصہ ملے گا کیونکہ یہ تو طے ہے فی الحال ن لیگ کے واحد رکن نواب ثنا ء اللہ زہری کا ووٹ اپوزیشن اتحاد کو نہیں ملے گا۔ یہ تو تھا نمبر گیم جسے کسی صورت حتمی نہیں کہا جاسکتا ، اب بات کرتے ہیں کہ کس جماعت کے امیدوار کون ہوسکتے ہیں۔ سب سے پہلے بی اے پی پر نظر دوڑائی جائے تو سنا ہے کہ امیدواروں کی فہرست تیس سے زائد ہوچکی ہے کوئی بیٹا ،کوئی بھائی، کوئی بہن ،کوئی بیٹی ،کوئی دوست، کوئی کاروباری شراکت دار اور کوئی برادر نسبتی کو سینیٹر دیکھنا چاہتا ہے۔

سینیٹ کیلئے حقیقی سیاسی کارکن یا کوئی پروفیشنل اس فہرست میں نظر نہیں آرہا ہے اسکے لئے ایسا ہی کہا جاسکتا ہے کہ’’ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘ بحر حال تمام امیدواروں کے نام لکھنا ممکن نہیں ہے لیکن کچھ ایسے امیدوار یا گھرانے ہیں جو اس وقت اہم ہیں جیسا کہ منظور کاکڑ بی اے پی کے مرکزی سیکریٹری جنرل ہیں اور وہ پشتون ہونے کی بنیاد پر مضبوط امیدوار بھی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بی اے پی کے پشتون ایم پی ایز انکی حمایت کرتے ہیں یا نہیں ؟دوسرے نمبر پر ہیں سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کچھ عرصے کیلئے خاموش ہوئے تھے یا کسی کی ان سے کوئی ناراضگی تھی۔

کہا نہیں جاسکتا لیکن گزشتہ سال چھبیس اگست کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں کچھ حلقوں کو انکی شدت سے یاد آئی تھی اور وہ ریاست کے بیانئے کے حوالے سے ایک توانا آواز ہیں اسلئے ممکنہ طور پر وہ بھی اس ریس کا حصہ ہیں۔ تیسرے اہم امیدوار کے طور پر سعید ہاشمی صاحب بانی بی اے پی اور انکا گھرانا ہے ،دیکھنا ہے وہ کہاں اور کیسے ایڈجسٹ ہوتے ہیں ،آیا وہ ٹیکنو کریٹ پر امیدوار بنتے ہیں یا انکی اہلیہ ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی سامنے آتی ہیں یا بیٹے حسنین ہاشمی کومیدان میں لاتے ہیں ۔چوتھے مضبوط امیدوار کے طور پر خان قلات کے خانوادے میں دو امیدوار ہیں جو سربراہ بی اے پی کے بھی بڑے قریب ہیں۔

جن میں ایک پرنس احمد علی قابل ذکر ہیں ۔نصیر آباد سے لہڑی برادران بھی اپنے ایک بھائی کو ایوان بالا میں بھیجنے کے خواہش مند ہیں جبکہ مگسی خاندان سے بھی ایک نام منظر عام پر آسکتا ہے جسکے لئے نواب ذوالفقار مگسی کے صاحبزادے سیف اللہ مگسی کا نام لیا جارہا ہے، وہیں دریجی کے سردار بھوتانی بھی خواہش رکھتے ہیں انکے خانوادے کا کوئی نوجوان ایوان بالا تک پہنچے اور خضدار سے آغا برادران میں اس بار آغا شکیل درانی سینیٹ کے میدان میں قسمت آزمانے کے خواہش مند ہیں ،اسکے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے جو دل میں خواہشات لئے بیٹھی ہے۔

تاہم اتحادی حکومت ہونے کی وجہ سے بی اے پی کے سربراہ جام کمال کیلئے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ تمام خواہش مندوں کی خواہشات کو پورا کرسکیں جبکہ ذرائع یہ بھی بتارہے ہیں کہ کچھ غیر معروف سیاسی نام بھی کوشاں ہیں جام کمال ان پر اپنا نظر کرم کریں تاہم ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ جام کمال یہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان سے انکی جماعت سے جانے والے سینیٹرز ایسے ہوں جنکا ایوان بالا میں کردار نظر آئے، صرف سینیٹ کی نشست کا حصول انکا مقصد نہ ہو ،ایسی صورت میں قرعہ فال کس کے نام نکلتا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔دوسری بڑی جماعت حکمران اتحاد میں پاکستان تحریک انصا ف ہے۔

جو دو سینیٹرز کے حصول کی خواہش مند ہے تاہم بی اے پی انہیں ایک سینیٹر دینے پر اصرار کررہی ہے تاہم تاحال کوئی باضابطہ مذاکرات اس سلسلے میں نہیں ہوئے ہیں ،یہاں بھی امیدواروں کی تعداد ڈبل فیگر میں ہے تاہم اہم امیدواروں میں پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کے صاحبزادے سردار خان رند ، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے قریبی دوست باری بڑیچ، سید ظہور آغا ،سردار خادم حسین وردگ کیساتھ ساتھ ڈاکٹر منیر بلوچ ،نواب خان دمڑ میدان میں اترنے کے خواہش مند ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کو دو نشستیں ملیں تو ایک پر ممکنہ طور پر پشتون اور ایک پر بلوچ امیدوار سامنے آنے کا امکان ہے ۔

لیکن اگر بی اے پی کی بات مانی گئی اور تحریک انصاف کے حصے میں ایک نشست آئی تو صورتحال دلچسپ ہوگی ۔کچھ حلقوں کا تو خیال ہے کہ اس وقت جو صورتحال پاکستان تحریک انصاف کی بلوچستان میں ہے وہاں کنفرم نشست بھی بچانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ اے این پی اور بی این پی عوامی کو اپنے سینیٹر کامیاب بنانے کیلئے حکمران جماعت بی اے پی کی مدد درکار ہے حیران کن طور پر بی این پی عوامی کو حکومت اور اپوزیشن بینچ دونوں سے ووٹ ملنے کی بھی بات ہورہی ہے اور انکے امیدوار میر اسرار اللہ زہری ہونگے لیکن اے این پی بلوچستان سے اگر سینیٹ کی نشست حکمران اتحاد کیساتھ جیتے گی تو وہ نشست وفاق میں پی ڈی ایم کی وجہ سے اپوزیشن کے کھاتے میں چلی جائیگی۔

تاہم بی این پی عوامی کی صورتحال غیر واضح ہے کہ مرکز میں وہ کہاں بیٹھے گی ۔حکمراں اتحاد کے بعد اپوزیشن بینچوں پر موجود بی این پی دو نشستوں کے حصول کو یقینی سمجھ رہی ہے تیسرے کیلئے جوڑ توڑ کرنے کی ضرورت ہوگی یہاں قابل ذکر امیدواروں میں ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ، ملک عبدالولی کاکڑ ،ساجد ترین ،رئوف مینگل ،حاجی لشکری رئیسانی شامل ہیں ۔بتایا جارہا ہے کہ بی این پی مینگل اس بار ملک عبدالولی کاکڑ یا ساجد ترین میں کسی ایک کو ٹکٹ ہر حال میں دیگی ،باقی ایک نشست کیلئے تین یا اس سے زائد خواہش مند میدان میں ہونگے جبکہ جمعیت علماء اسلام کی جانب سے بھی دو نشستوں کا حصول یقینی نظر آرہا ہے۔

اب تیسری نشست وہ لیتے ہیں یا پھر بی این پی کو دیتے ہیں کہنا قبل از وقت ہے تاہم جمعیت علماء اسلام کے امیدواروں میں مولانا غفور حیدری اور کامران مرتضیٰ کا نام لیا جارہا ہے تاہم کچھ حلقے یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان سینیٹ کے امیدوار ہونگے یا نہیں اگر ایسی کوئی صورت ہوئی تو پھر کیا ہوگا اور کیا کنفرم نشست کے ووٹ اگر خیبر پختونخواہ میں نہ ہوئے تو مولانا فضل الرحمان کیا بلوچستان میں قسمت آزمائینگے ؟ماضی کے انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے ایوان بالا میں بلوچستان کی نمائندگی کیلئے چند ایک توانا آوازوں کے علاوہ دیگر اکثر شخصیات نے کاروباری مفادات کے تحفظ کیلئے یہاں ووٹوں کی خرید و فروخت کرکے ایوان بالا میں بیٹھنے کا حق حاصل کیا۔

یاپھر الیکٹیبلز اور ہیوی ویٹ شخصیات نے اپنے خاندان کے افراد کو نوازا ہے تاہم کیا اس بار بھی یہی ہوگا یا پھر حقیقی نمائندگی صوبے سے ایوان بالا میں جائیگی؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام جماعتیں ایسے امیدوار سامنے لائیں جو حقیق سیاسی کارکن ہوں یا پھر حقیقی ٹیکنو کریٹ یا پروفیشنل ہوں یا پھر خواتین کی نشستوں پر جانی والی خواتین کا صوبے کی خواتین کی بہتری کیلئے کوئی کردار ہو بصورت دیگر یہ انتخاب بھی ماضی کے سینیٹ کے انتخابات سے مختلف نہ ہوگا ۔

یہ بھی پڑھیے:

بلوچستان عدم اعتماد کی کہانی۔۔۔شاہد رند

گوادر کی ریت یا سونا اور بلوچی قول۔۔۔شاہد رند

پنوں کی سرزمین اور پانچ کلو میٹر کا ویژن۔۔۔شاہد رند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ ڈیلی آزادی کوئٹہ

About The Author