گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہجرت کے دوران جس دن یثرب داخل ہوۓ وہ جمعتہ المبارک کا دن تھا اور آپ ؐ نے جمعہ کی نماز مدینے کے قریب ایک آبادی بنو سالم بن عوف میں ایک جگہ ادا کی جہاں اب مسجد ھے۔ یسرب میں یہ ایک نہایت تابناک اور تاریخی دن تھا۔ گلی کوچے تقدیس و تحمید کے کلمات سے گونج رھے تھے۔اور یہ وہ تاریخی دن تھا جب انصار کی بچیاں خوشی و مسرت سے وہ نغمے بکھیر رہی تھیں جن کی خوشبو کو قیامت تک کائنات نے پزیرائی دینی تھی۔۔۔
وہ نغمہ جو نیل کے ساحل سے تا بخاک کاشغر مسلمانوں کے دلوں میں دھڑکتا ھے کہ؎؎۔۔جنوب کے پہاڑوں سے آج ہم پر چودھویں کا چاند طلوع ہوا۔ہمیں اللہ کا شکر واجب ھے کہ اس نے کیسا دین اور تعلیم دی اور ہم پر تیرے حکم کی اطاعت فرض ھے۔۔۔۔
انصار اگرچہ دولت مند نہ تھے لیکن ہر ایک کی یہ آرزو تھی کہ رسول اللہؐ ان کے ہاں قیام فرماویں۔۔۔چنانچہ آپ ؐ انصار کے جس مکان یا محلے سے گزرتے وہاں کے لوگ آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ لیتے اور عرض کرتے کہ تعداد و سامان و ہتھیارو حفاظت فرش راہ ہیں تشریف لائیے مگر آپؐ فرماتے کی اونٹنی کی راہ چھوڑ دو یہ اللہ کی طرف سے مامور ھے ۔
چنانچہ اونٹنی مسلسل چلتی رہی اور اس مقام پر جا کر بیٹھ گئی جہاں آج مسجد نبوی ھے لیکن آپؐ نیچے نہیں اترے یہاں تک کے وہ اٹھ کر تھوڑی دور گئی پھر مڑ کر پلٹ آئی اور اپنی پہلی جگہ پر بیٹھ گئی۔اس کے بعد آپؐ نیچے تشریف لاۓ یہ آپ کے ننہیال والوں یعنی بنونجار کا محلہ تھا۔ اور یہ اونٹنی کے لئیے محض توفیق الہی تھی کیونکہ آپؐ ننہیال میں قیام فرما کر ان کی عزت افزائی کرنا چاہتے تھے۔
اب بنونجار کے لوگوں نے اپنے اپنے گھر لے جانے کے لئیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض معروض شروع کی ۔لیکن ابوایوب انصاریؓ نے لپک کا کجاوہ اٹھا لیا اور اپنے گھر لے کر چلے گئیے۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے آدمی اپنے کجاوے کے ساتھ ھے۔ادھر حضرت اسعد بن زرارہؓ نے آ کر اونٹنی کی نکیل پکڑ لی ۔چنانچہ یہ اونٹنی انہی کے پاس رہی ۔ ۔۔ بخاری کی ایک روایت میں حضرت انسؓ سے مروی ھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔ہمارے کس آدمی کا گھر قریب ھے؟ حضرت ابوایوب انصاریؓ نے کہا ۔۔
میرا ۔۔اے اللہ کے رسولؐ! یہ رہا میرا مکان اور یہ رہا میرا دروازہ۔۔۔آپؐ نے فرمایا جاو اور ہمارے لئے قیلولہ کی جگہ تیار کرو۔ ابوایوبؓ نے عرض کی آپ دونوں حضرات تشریف لے چلیں اللہ برکت دے۔۔۔دوسرے آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکرصدیقؓ تھے۔۔۔آج وہ دن تھا کہ اس شھر کا نام یثرب کی بجاۓ مدینتہ الرسول پڑ گیا۔۔۔۔
اب ہم معرکہ احد کا ایک منظر دیکھتے ۔۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم لشکر لے کرمدینہ سے احد جارہے راستے میں شیخان کے مقام پر نماز کا وقت ہوا نماز ادا کی گئی اور لشکر کا معاینہ بھی کیا۔ آپ دیکھتے ہیں لشکر میں کچھ کم عمر لڑکے ہیں آپ انہیں واپس جانے کا حکم دیتے ہیں۔البتہ رافع بن خدیجؓ کو کم عمری کے باوجود جنگ میں شرکت کی اجازت مل گئی کیونکہ وہ بڑے ماھر تیر انداز تھے۔
جب کم عمر حضرت سمرہ بن جندب ؓ نے دیکھا کہ حضرت رافع کو اجازت مل گئی تو اس نے کہا میں رافع سے زیادہ طاقتور ہوں اور اس کو پچھاڑ سکتا ھوں اس لیے مجھے بھی اجازت دی جاۓ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دعوے کو سن کر دونوں کے مابین کشتی لڑوائی اور واقعی حضرت سمرؓہ نے حضرت راؓفع کو پچھاڑ دیا اور ان کو بھی اجازت مل گئی۔
اب ایک اور منظر دیکھتے ہیں مکہ فتح ہو چکا ھے ۔ مکہ وہ جگہ ھے جہاں آپؐ پلے بڑھے یہ وہ جگہ ھے جہاں آپؐ کا گھر تھا ۔مکہ وہ جگہ ھے جہاں آپؐ کا پورہ قبیلہ رہتا تھا۔ لیکن وفا کا یہ عالم کہ آپؐ نےفتح مکہ کے باوجود اپنی بقایا زندگی مدینہ میں گزاری اور وصال کے بعد بھی مدینہ میں۔۔۔انصار آپؐ کی زندگی میں بھی آپ کے چاند جیسے چہرہ انور سے منور ہوتے رھے اور آپ کے وصال کے بعد بھی انہی کی شھر پر نور کی بارش جاری ھے۔۔
اب مدینہ منورہ سے متعلق عشق کا ایک اور منظر دیکھتے ہیں۔
ترکوں نے جب مسجد نبوی کی تعمیر کاارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع عریض ریاست میں اعلان کیا کہ انھیں عمارت سازی سے متعلق فنون کے ماہرین درکار ھیں، اعلان کرنے کی دیر تھی کہ ھر علم کے مانے ھوۓ لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں، سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہربسایا گیا جس میں اطراف عالم سے آنے والے ان ماہرین کو الگ الگ محلوں میں بسایا گیا،
اس کے بعد عقیدت اور حیرت کا ایسا باب شروع ھوا جس کی نظیر مشکل ھے، خلیفۂ وقت جو دنیا کا سب سے بڑا فرمانروا تھا ، شہر میں آیا اور ھر شعبے کے ماہر کو تاکید کی کہ اپنے ذھین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھاۓ کہ اسے یکتا و بیمثال کر دے، اس اثنا میں ترک حکومت اس بچے کو حافظ قرآن اور شہسوار بناۓ گی،
دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب و غریب منصوبہ کئی سال جاری رھا ، 25 سال بعد نوجوانوں کی ایسی جماعت تیار ھویٔ جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتا ۓ روزگار تھے بلکہ ہر شخص حافظ قرآن اور با عمل مسلمان بھی تھا، یہ لگ بھگ 500 لوگ تھے،
اسی دوران ترکوں نے پتھروں کی نئی کانیں دریافت کیں، جنگلوں سے لکڑیاں کٹوایٔیں، تختے حاصل کئے گئے اور شیشے کا سامان بہم پہنچایا گیا،یہ سارا سامان نبی کریم ﷺ کے شہر پہنچایا گیا تو ادب کا یہ عالم تھا کہ اسے رکھنے کے لیۓ مدینہ سے دور ایک بستی بسایٔ گیٔ تا کہ شور سے مدینہ کا ماحول خراب نہ ھو، نبی ﷺ کے ادب کی وجہ سے اگر کسی پتھر میں ترمیم کی ضرورت پڑتی تو اسے واپس اسی بستی بھیجا جاتا،
ماھرین کو حکم تھا کہ ھر شخص کام کے دوران با وضو رھے اور درود شریف اور تلاوت قرآن میں مشغول رھے، ھجرہ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا گیا کہ گرد غبار اندر روضہ پاک میں نہ جاۓ، ستون لگاۓ گئے کہ ریاض الجنت اور روضہ پاک پر مٹی نہ گرے ، یہ کام پندرہ سال تک چلتا رھا اور تاریخ عالم گواہ ھے ایسی محبت ایسی عقیدت سے کویٔ تعمیر نہ کبھی پہلے ھویٔ اور نہ کبھی بعد میں ھوگی.۔۔۔ لاکھوں درود و سلام محمد رسول اللہ پر اور آپؐ کی آل پر۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر