دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بات طے ہے کہ آپ کچھ بھی کر لیں اس ملک سے سکینڈلز ختم نہیں ہوں گے۔ہر دفعہ کوئی مداری کرتب دکھاتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں اب اس سے بڑا کرتب اور کیا ہوسکتا ہے اور پھر ہم ہی غلط نکلتے ہیں کہ کچھ وقفے بعد اس سے بھی بڑی واردات ہوجاتی ہے

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بات طے ہے کہ آپ کچھ بھی کر لیں اس ملک سے سکینڈلز ختم نہیں ہوں گے۔ہر دفعہ کوئی مداری کرتب دکھاتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں اب اس سے بڑا کرتب اور کیا ہوسکتا ہے اور پھر ہم ہی غلط نکلتے ہیں کہ کچھ وقفے بعد اس سے بھی بڑی واردات ہوجاتی ہے اور ہم پچھلا کرتب بھول کر نئے کرتب میں کھو جاتے ہیں۔اب تو یاد بھی نہیں رہا کہ اس ملک میں کیا کیا سکینڈلز بریک ہوئے اور ان کا کیا بنا اور پرانے کھلاڑی دوبارہ ہم پر نازل ہوگئے ۔ پورے پانچ سال لگتے ہیں ایک حکومت اور اس کے کرپٹ کارناموں کو سامنے لانے اور لوگوں میں ان کے خلاف شعور پیدا کرنے میں۔ لوگ اس کرپٹ ایلیٹ کو مسترد کرنے لگتے ہیں تو وہ سب مل کر اپنا نیا سردار منتخب کر کے پھر عوام پر نازل ہو جاتے ہیں۔ انسانی نفسیات ہے کہ اگر کسی کو نئے کپڑے پہنا کر سامنے لایا جائے تو لوگ اس کے پچھلے کپڑے بھول جاتے ہیں۔ یہی کچھ سیاست میں ہوتا ہے کہ پانچ سال یہ سب مل کر مال بناتے ہیں اور اگلے الیکشن سے پہلے کسی اور پارٹی میں مل جاتے ہیں اور ان کے ووٹرز اسی بھول پن میں رہتے ہیں کہ اب کی دفعہ ایماندار قیادت کے نیچے وہ کرپشن نہیں کریں گے لیکن وہ کب باز آتے ہیں۔
براڈ شیٹ کی جس واردات کی کہانی لندن سے آپ سن رہے ہیں اس کی بنیاد بیس برس پہلے رکھی گئی تھی۔پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ان کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ وہ طویل مدتی حکمرانی کے خواہش مند ہیں تو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی کرپشن ڈھونڈ کر سامنے لائیں۔ جو ساتھ مل جائے وہ ایماندار اور جو نہ ملے اسے نیب سے لمبی جیل کرا دو۔پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی تھیں کہ وہ سب پیسہ پاکستان میں رکھتے۔ زرداری اگر سوئٹزر لینڈ میں ساٹھ ملین ڈالرز بینک میں ڈپازٹ کرچکے تھے تو شریفوں نے بھی پانچ براعظموں میں جائیدادیں بنا رکھی تھیں۔جبکہ اپنا اقتدار لوگوں کی آنکھوں میں جائز قرار دلوانے کیلئے پرویزمشرف کیلئے ضروری تھا کہ سیاستدانوں کی مالی کرپشن کو پکڑکر ہائی لائٹ کیا جائے ۔یوں عالمی سطح پر ایسی کمپنیوں کی تلاش شروع ہوئی جو یہ کام کریں۔یہ راستہ اس سے پہلے نواز شریف دور میں احتساب سیل کے سربراہ سیف الرحمن دکھا چکے تھے‘ جب انہوں نے نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں سیکرٹ فنڈز سے تیس کروڑ روپے نکلوا کر لندن اورجنیوا میں ایسے وکیل اور سراغ رساں ادارے ہائر کیے جنہوں نے زرداری اور بینظیر بھٹو کا کچا چٹھا کھول دیا تھا۔ اتنے ثبوت اکٹھے کر لیے گئے کہ زرداری صاحب نے 2008 ء میں صدر بنتے ہی لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو جیمز بانڈز طرز پرجنیوا خفیہ مشن پر بھیجا کہ وہ سب صندوق خفیہ طور پر جنیوا سے اٹھا لائو۔ موصوف برستی بارش میں چھتری پکڑے‘ سگار سلگائے سر پرکائو بوائے ہیٹ پہنے وہ سب صندو ق اٹھوا کر گاڑی میں رکھوا رہے تھے اور کیمرے پر سب کارروائی ریکارڈ ہورہی تھی جو بعد میں پاکستان کے ایک چینل پر پوری دکھائی گئی۔یوں پاکستانیوں کے تیس کروڑ روپے لگا کرکرپشن کے جو ثبوت سیف الرحمن اور وسیم افضل نے اکٹھے کیے تھے وہ واجد شمس الحسن چرا کر ساتھ لے گیا۔جو کام سیف الرحمن نے کیا تھا وہی مشرف کے چیئر مین نیب جنرل امجد کو سوجھا۔انہوں نے بھی ایسی کمپنیاں تلاش کرنا شروع کیں جو اسی طرح پاکستانی سیاستدانوں کی فائلیں ڈھونڈ کر دیں۔ امجد صاحب کو اپنے تئیں بہتر ڈیل مل گئی کہ لندن کی دو فرموں نے پیش کش کی وہ دنیا بھر میں پاکستان کی چھپی ساری دولت کے ثبوت اکٹھے کر کے دیں گے لیکن اس کے بدلے اس جائیداد یا دولت کا 20 فیصدشیئر لیں گی۔ ایک پارٹی کا نام براڈ شیٹ تھا۔ ان سے جون 2000ء میں معاہدہ طے پایا۔پرویز مشرف اور امجد صاحب کی ان کمپنیوں کو ہدایت تھی کہ وہ زیادہ فوکس شریف خاندان پر رکھیں ۔پرویز مشرف کا خیال تھا کہ محض جہاز کی ہائی جیکنگ کا مقدمہ کافی نہیں ‘ وہ عوام کی نظروں میں شریفوں کو کرپٹ بھی ثابت کریں ۔
جوں جوں شریفوں کے گرد گھیرا تنگ ہورہا تھا ان کیلئے جیل بیٹھنا مشکل ہورہا تھا‘ لہٰذا شریف خاموشی سے دو تین محاذوں پر کام کررہے تھے تاکہ نہ صرف سزائیں ختم ہوں بلکہ وہ جیل سے رہا بھی ہوں‘ تاہم پرویز مشرف کو علم تھا کہ ان کے اقتدار کو عوامی قبولیت اس وقت ملے گی جب وہ نواز شریف کے خلاف بڑے سکینڈلزلا سکیں گے‘اس لیے جنرل امجد کاانتخاب کیا گیا تھا کہ وہ کوئی رعایت نہیں کریں گے‘ اور یوں پوری دنیا میں دو جاسوس کمپنیاں(براڈ شیٹ اور International Assets Recovery) پھیلا دی گئیں۔اس دوران پرویز مشرف پر دبائو ڈالنے کا یہ طریقہ شریفوں کے ذہن میں آیا کہ بینظیر بھٹو سے رابطہ کیا جائے اور جمہوریت کے نام پر جدوجہد شروع کی جائے۔ اب یہ سب سے مشکل کام تھا۔ ایک تو بینظیر بھٹو پرویز مشرف کے مارشل لاء کاخیر مقدم کر چکی تھیں کہ جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب مشرف ان سے بات چیت کریں کہ آگے کیا کرنا ہے۔ بارہ اکتوبر کی اُس رات جب ملک میں مارشل لا لگا تھا‘ بینظیر بھٹو نے نواز شریف کے طرز حکمرانی کا ٹی وی انٹرویو میں پوسٹ مارٹم کیا کہ وہ کیسے ملک کو تباہ کررہے تھے اور ان کے دورِ حکومت میں کیسے بڑے سکینڈلز اور مخالف سیاستدانوں کا جینا حرام کر دیا گیا تھا۔ ایک طرح سے بینظیر بھٹو نے نواز شریف حکومت کے خاتمے کو endorse کر دیا تھا۔تاہم پرویز مشرف نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دیے تھے۔ ان کا پلان اب لمبی ریس کا بن گیا تھا۔ وہ اب بینظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کو پاکستانی سیاست سے مستقل آئوٹ کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے لہٰذا بینظیر بھٹو کو جھنڈی کرا دی گئی ‘ جس کا انہیں دکھ ہوا۔
لوہا گرم تھا ‘ اس پر صرف چوٹ لگنا باقی تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ بینظیر بھٹو کو راضی کیسے کیا جائے کیونکہ بینظیر بھٹو تو براہ راست نواز شریف کی ڈسی ہوئی تھیں۔ سیف الرحمن نے ہی تیس کروڑ لگا کر زرداری کی کرپشن ڈھونڈی تھی‘ بلکہ نواز شریف دور میں ہی اٹارنی جنرل محمد فاروق نے سوئس حکومت کو خط لکھ کر اس میں یہ کہہ کر پارٹی بننے کی خواہش کو اظہار کیا تھا کہ یہ پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت ہے جس پر پاکستانی عوام کا حق ہے۔ یوں زرداری کے ساٹھ ملین ڈالرز جو منی لانڈرنگ میں سامنے آئے تھے ان پر دعویٰ کیا گیا تھا ۔ نواز شریف دور میں بینظیر بھٹو کو پاکستان چھوڑ کر جانا پڑا تھا کہ کہیں انہیں گرفتار نہ کر لیا جائے۔ تاہم کہا جاتا تھا کہ انہیں باہر بھجوانے میں بھی حکومت کا اپنا ہاتھ تھا کہ ان کی گرفتاری سے مسائل ہوں گے‘ لہٰذا انہیں چپکے سے باہر جانے دیا جائے اور پیچھے پاکستان میں” امیر المومنین‘‘ بن کر حکومت کی جائے اور اگلے پیچھے سارے نقصانات پورے کیے جائیں۔
اب مخالفین کو بینظیر بھٹو کی ضرورت پڑ گئی تھی تاکہ مشرف پر دبائو ڈال کر کچھ اپنے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں‘ مگر سوال یہ تھا کہ یہ مشکل کام کیسے کیا جائے؟ جو پہلا نام ذہن میں ابھرا ‘جنہیں اس موقع پر سب استعمال کرتے تھے وہ نوابزادہ نصراللہ خان کا تھا جو اس طرح کے سیاسی الائنس بنانے کے موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔نوابزادہ تو چلیں تیار ہی رہتے تھے لیکن بینظیر بھٹو کو کیسے راضی کیا جائے جو دبئی میں تھیں اور اپنے سب مسائل‘ مقدمات اور مشکلات کا ذمہ دار نواز شریف کو سمجھتی تھیں۔ اب بی بی کو کون راضی کرے؟
اٹک قلعہ میں کئی راتیں جاگنے اور سوچنے کے بعد نواز شریف کے ذہن میں اچانک ایک نام ابھرا‘ جو ان کے خیال میں بینظیر بھٹو تک ان کا پیغام پہنچا بھی سکتا تھا اور شاید کسی حد تک قائل بھی کرسکتا تھا۔(جاری )

یہ بھی پڑھیے:

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

About The Author