گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
یہ کہانی امریکہ کے شھر نیو یارک کے کچی آبادیوں اور جھونپڑی میں رھنے والے ایک شخص کی ھے۔ امریکہ میں شھروں کے ساتھ غریبوں کی جو کچی آبادیاں ہوتی ہیں انہیں انگریزی میں Slums کہتے ہیں ۔
مائیکل جارڈن 1963 میں اس کچی آبادی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کے چار بھائی بہن تھے اور اس کے باپ کی آمدنی بھت کم تھی جس سے گھر کا خرچہ بڑی مشکل سے چلتا تھا۔ اب جس آبادی میں وہ پیدا ہوا وہ تو جرائیم پیشہ لوگوں کا گڑھ تھی ۔نسلی تعصب اور تشدد روزمرہ کا معمول تھا۔ اس جگہ رھنے والوں کا نہ کو ئی حال تھا نہ ماضی نہ مستقبل ۔
یہ لوگ زندگی بسر نہیں کرتے بلکہ زندگی ان کو بسر کرتی رہتی ھے۔ مائیکل کے باپ کی امیدوں کا ایک وہ ہی سہارا تھا مگر ابھی یہ تیرہ سال کا کم عمر بچہ تھا اور باپ کی آمدنی میں کچھ اضافہ نہیں کر سکتا تھا۔ ایک دن باپ نے اسے ایک پرانے کپڑے کا ٹکڑا دکھایا اور کہا مائیکل تمھارے خیال میں یہ کپڑا کتنی قیمت کا ہو گا ؟ مائیکل نے استعمال شدہ بوسیدہ کپڑے کو دیکھا اور باپ سے کہا یہ کپڑا زیادہ سے زیادہ ایک ڈالر کا ہو گا۔
باپ نے کہا کیا تم اس کپڑے کو دو ڈالر پر فروخت کر سکتے ہو؟ اگر تم اس کو دو ڈالر پر بیچ ڈالو تو اس سے ایک ڈالر کمائی ہو جاۓ گی اور ہماری فیملی کا کچھ گزارا اچھا ہو گا۔ مائیکل جارڈن نے کہا ٹھیک ھے بابا میں کوشش کر کے دیکھ لیتا ہوں مگر یہ گارنٹی نہیں دے سکتا کہ یہ کپڑا دو ڈالر پر بک جاۓ !!!
اس نے کپڑا لیا اس کو اچھی طرح دھو کر صاف کیا اور سوکھنے کو رکھ دیا۔اب مسئلہ یہ تھا کہ گھر میں استری نہیں تھی کہ اس کو سیدھا کرتا بہرحال اس کے ہاتھ ایک برش لگا اس نے کپڑے کو میز پر رکھا اور برش کے ذریعے کچھ ٹیڑھ نکال دئیے۔
اگلی صبح وہ زیر زمین ریلوے سٹیشن پر جا پہنچا جہاں کافی رش ہوتا ھے اور کپڑا بیچنے کی کوشش کرنے لگا۔ چھ گھنٹے کی محنت کے بعد آخر کار وہ اس کپڑے کو دو ڈالر میں بیچنے میں کامیاب ھو گیا اور خوشی سے گھر کی طرف دوڑ پڑا تاکہ اپنی کامیابی کی خوشخبری گھر والوں کو سناۓ۔
اس کے بعد تو اس کا معمول بن گیا کہ وہ پرانے کپڑے لیتا انہیں دھو کر مارکیٹ میں بیچ دیتا۔ چند روز کے بعد اس کے باپ نے بلایا اور اسے ایک معمولی کپڑا دے کر پوچھا ۔۔جارڈن کیا تم اس کپڑے کو مارکیٹ میں بیس ڈالر سے بیچ سکتے ہو؟
اوہ ۔اب تو جارڈن کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ جارڈن نے کہا ۔۔بابا میں اس کپڑے کو بیس ڈالر میں کیسے بیچوں گا جبکہ اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت دو ڈالر ھے !! باپ نے کہا جارڈن تم کوشش تو کرو راستے نکل آتے ہیں ٹرائی کرنے میں کیا حرج ھے؟ خیر اس نے کپڑا ہاتھ میں لیا اور سر کو پکڑ کے بیٹھ گیا۔ ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے ذھن میں اچانک ایک آڈیا کلک کر گیا۔ وہ اپنے کزن کے پاس گیا جو پینٹر تھا اور ا سے کہا کہ اس کپڑے پر مِکی ماوس اور ڈونلڈ ڈک کی تصاویر بنا دے۔ جو اس نے فورا” بنا دی ۔
پھر وہ ایک سکول کے آگے جا کھڑا ہوا جھاں امیر لوگوں کے بچے پڑھتے تھے ۔ ابھی وہ پہنچا ہی تھا ایک ہاوس کیپر جو اپنے مالک کا بچہ لینے وہاں کھڑا تھا اس نے وہ کپڑا بیس ڈالر پر خرید لیا۔ہاوس کیپر کا خیال تھا بچہ اس کو دیکھکر بھت خوش ھو گا۔ اور ہوا بھی یہی۔۔۔ ابھی وہ وہاں کھڑا تھا کہ مالک کا بچہ چھٹی کر کے باہر نکلا اور اس کپڑے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور جارڈن کو پانچ ڈالر کی ٹپ بھی تھما دی۔
واو جارڈن کے لئیے پچیس ڈالر بہت بڑی رقم تھی کیونکہ اس کے باپ کی ماہانہ تنخواہ بھی پچیس ڈالر ہی تھی۔ جب جارڈن گھر پہنچا تو سب لوگ بہت خوش ہوۓ ۔اب جارڈن کے باپ نے اسے ایک جرسی دی اور اس سے دوسو ڈالر میں فروخت کرنے کا کہا۔۔۔اس دفعہ جارڈن کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ اللہ کی اس دنیا میں بے پناہ مواقع موجود ہیں اور کوشش اور محنت سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ھے ۔۔اس کے ذھن میں یہ خیال گھمنے لگا تھا کہ
Every thing is possible.
خیر وہ پھر سوچنے لگا ۔۔۔ انہیں دنوں امریکہ کی مشہور فلم سٹار فرح فاسٹ نیو یارک آ رہی تھی کیونکہ اس نے نئی فلم چارلی اینجل بنائی تھی اور اس کے پرومو اور فلم کی پبلیسٹی کرنا تھی۔ فرح جب اپنی نیوز کانفرنس مکمل کر چکی تو جارڈن سیکورٹی والوں سے آنکھ بچا کر فرح کے قریب پہنچ گیا اور اس سے جرسی کےاوپر آٹو گراف کی درخوست کی۔لیکن سیکورٹی والوں نے اسے پکڑ لیا۔فرح نے جب دیکھا ایک معصوم سا بچہ اس کا آٹو گراف لینا چاھتا ھے اس نے سیکورٹی والوں سے کہا اس کو چھوڑ دو اور فورا” سائین کر دئیے۔ اب وہ باہر نکلا اور زور زور سے ھوکا دینا شروع کیا کہ اس جرسی پر مشھور ایکٹریس فرح فاسٹ کے آٹو گراف ہیں دوسو ڈالر دوسو ڈالر۔۔۔۔ لوگ جمع ھو گئیے نیلامی شروع ہوئی ریٹ بڑھتا گیا آخر ایک بزنسمین نے 1200 ڈالر پر اسے خرید لیا۔ جب وہ گھر واپس لوٹا تو یہ دیکھکر باپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئیے اور اس نے اپنے بیٹے کا منہ چوم لیا او بے ساختہ کہا۔۔
You are great my son.
اس رات سونے سے پہلے باپ نے مائیکل جارڈن سے پوچھا ۔۔۔بیٹا تم نے ان تین تجربوں سے کامیابی کا کیا سبق حاصل کیا؟ جارڈن نے جواب دیا۔۔
where there is a will there is a way…
باپ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ یہ بات بھی ٹھیک ھے مگر میں تم کو سمجھانا یہ چاھتا تھا کہ دنیا میں ایک ڈالر کا پرانا بوسیدہ کپڑا بھی اپنی ویلو یا قیمت تبدیل کر سکتا ھے تو خود زندہ اور ذھین انسان کیوں نہیں اپنی قدر وقیمت بڑھا سکتا !!! ہم غریب اور بےکس تو ہیں مگر اللہ کی اس دنیا میں محنت اور عقل سے اپنی قسمت تبدیل کر سکتے ہیں۔ جارڈن کے ذھن میں یہ بات کھب کے رہ گئی اور اس دن سے اس نے سوچنا شروع کیا کہ اس کا مستقبل روشن اور تابناک ھونا چاھیے۔ اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ مائیکل جارڈن نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کا عظیم ترین باسکٹ بال کھلاڑی بنا۔۔۔چلیں امریکہ سے واپس ڈیرہ۔۔ ہم دیکھتے ہیں دریا میں ایک بے قیمت سی کوندر اگتی ھے ۔لوگ اس سے رسی بناتے ہیں تو ایک ویلو بن گئی۔پھر اس سے چارپائی بُنتے ہیں تو ڈبل قیمت بن گئی۔ چارپائی رنگ کر کے بیچتے ہیں قیمت دس گنا بڑھ گئی۔ اب آپ خود کو دیکھیں ۔۔۔اگر آپ ان پڑھ ہیں تو آپکی ویلو مزدور کی ھے۔آپ کاریگر ہیں تو ڈبل ۔ آپ میٹرک ہیں تو سپاہی اور ایف اے ہیں تو لیفٹین بن سکتے ہیں۔ تو اس قصے کے سنانے کا مقصد یہ ھے کہ آج ہم 2021 کا ٹارگٹ مقرر کریں کہ ہم اپنی زندگی کو ویلو ایڈڈ Value added
بنائیں گے تاکہ ہم بھی سکھی ہوں اور مخلوق خدا کو بھی سکھ دے سکیں ۔۔آمین۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر