ڈاکٹر ناصر عباس نیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملتان میں دوروزہ قیام کے دوران میں وہاں کے احباب سے ملاقاتیں ہوئیں۔ڈاکٹر انوار احمد صاحب،ڈاکٹرممتاز کلیانی(صدر شعبہ ء اردو)، ڈاکٹر سید عامر سہیل ،ڈاکٹر امتیاز بلوچ ، محبوب تابش ،خاور نوازش، منور آکاش ، عبدالجباراور کچھ دوسرے احباب سے ۔رفعت عباس سے طویل نشستیں ہوئیں ،جن میں عزیز دوست الیا س کبیر بھی شامل رہے۔ ان نشستوں کو ملتان کے مختصر قیام کا حاصل کہنا چاہیے۔ ان سے پہلی ملاقات انوار صاحب کے بیٹے کے ولیمے میں ہوئی تھی ، مگروہ سرسری تھی ۔کچھ باتیں ضرور ہوئیں مگر ایک تکلف درمیان میں حائل رہا۔ اس بار کوئی تکلف نہیں تھا۔ میرے لیے یہ انکشاف سے کم نہیں تھا کہ ان کی شاعری ، فکر اور فکشن کا مقامی آدمی، ان کی حقیقی زندگی میں بھی بار بار اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ اسے میں نے انکشاف اس لیے کہا ہے کہ اکثر لکھنے والے حاشیے پر دھکیلے گئے لوگوں کا مقدمہ اپنی تحریروں میں تو لڑتے ہیں مگر اپنی نجی زندگی میں ان لوگوں کی سب چیزوں ،صفات اور مماثلتوں کو جگہ نہیں دیتے۔ان کے لکھے اور ان کے عمل میں بہت فرق ہوتا ہے ۔رفعت عباس سرائیکی خطے کے پانچ ہزارسے زائد برسوں اور ان قرنوں میں بھٹکتی ثقافتی روح کا علم رکھتے ہیں ، مگر اس علم کے سبب اپنے لیے کسی خصوصی استحقاق کی طلب نہیں رکھتے ۔مجھے کبھی کبھی یہ بات پریشان کرتی تھی کہ وہ چاردہائیوں سے زائد عرصے سے اس خطے کے مقامی آدمی کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ یہ مقدمہ خواہ کس قدر سیاسی معنویت رکھتا ہو اور ایک ایکٹوسٹ کے لیے کتنا ہی کشش کا باعث ہو، ایک تخلیق کار کے طور پر انھیں سٹیریو ٹائپ کا شکار کرسکتا ہے اور ایک تخلیق کار کے لیے سب گوارا ہوسکتا ہے، اپنی شعری وفکشنی کائنا ت میں کسی شے ، تصور ، خیال یا تجربے کی بہ ظاہر کامل مگر حقیقت میں "پتھریلی شبیہ” کو پیش کرنا گوارا نہیں ہوسکتا،مگر ان سے گفتگو ، شاعری اور ان کے تازہ ناول ” لون دا جیون گھر”سے ظاہرہوا کہ وہ جس مقامی آدمی کااستغاثہ اپنی تحریروں میں پیش کرتے ہیں،وہ نہ تو ایک تصور ہے ،نہ خیال ہےاور نہ ہی محض ایک آدمی ۔ وہ قرنوں پر محیط(تاریخ کے دیووں کی طاری کردہ ) دھند میں بھٹکی ہوئی روحیں ہیں ،جنھیں وہ واگزار کرارہے ہیں۔یہ اوڈیسی ہے، خطرات سے لبریز طویل سفرہے—لوک کہانیوں ، اساطیر اور معاصر بیانیوں کے اندر ایک ایسا سفر جس میں انھیں دیووں کا سامنا ہوتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک طویل رزمیہ لکھ رہے ہیںجس میں اگر کوئی سورما ہے تو وہ اسی دھرتی ، اس کے حافظے ، تاریخ اور سیاسی ترجیحات سے نکالا گیا آدمی ہے ۔ ان کی تحریروں میںا ور گفتگو میں وہ آدمی ظاہر ہوتا ہے،اپنی سب سے بڑی انسانی صفت،جسےمزاحمت کہیں یا subversive power ، کے ساتھ۔چیزوں کو تہ وبالا کرنے کی یہ طاقت وہ کہیں اور سے نہیں، اپنے ارد گرد کی حقیقی فضا سے اپنے تعلق کو بے دھڑک ظاہر کرنے سے حاصل کرتا ہے۔ اوریہ تعلق آرٹ کا ہے اور آرٹ بھی وہ جس میں تنہائی ہے نہ بیگانگی ۔اسے جدید پیرا ڈائم میں سمجھنا آسان نہیں۔
فوجاں اپݨی بیرکیں دو اَڄ واپس ونڄِن رفعت!
ساکوں اپݨی جھمر کیتے جاء لُڑِیندی پئی اے!
(فوجیں اپنی بیرکوں میں رفعت واپس جائیں کہ ہمیں اپنے رقص کے لیے جگہ کی ضرورت ہے)
دیکھیے،جھمر اجتماعی رقص ہے، دھرتی پرہونے کا جشن ہے، دھرتی کو اپنے لیے واقعی جنت سمجھنے کا فنی اظہار ہے۔
رفعت عباس مسلسل سفر میں رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ گفتگو میں آپ بھی یہ سفر کرتے ہیں۔ کچھ عرصے سے وہ تھر میں کارونجھر ،ننگر پارکر اور دوسری جگہوں پر مسلسل جارہے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں چیزیں اپنی قدیمی حالتوں سےز یادہ مختلف دکھائی نہیں دیتی۔ "لون دا جیون گھر”کا گہرارشتہ ان اسفار سے ہے۔یہ ایک ایسا ناول ہے جہاںکی دنیا ، ہماری معلوم دنیا سے یکسر مختلف ہے، مذہب اور خدا کے بغیر دنیا۔کرونا کی وبا کے سبب ہمیں ریسٹوران میں کھلی جگہ پر بٹھایا گیا۔ ملتان کی گرمی مشہور ہے، اس لیے سردی کا تصور کرنا ذرا مشکل لگتا ہے مگر وہ رات واقعی سرد تھی۔ ایک سرو قامت ہیٹر کا انتظام تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ رفعت صاحب اپنی شاعری ، اپنے مقامیت کے تصور اور اپنے سندھ کے اسفار کے بارے میں گفتگو اس قدر توجہ انگیز تھی کہ سردی ہی کا نہیں،ارد گرد کا احساس بھی کم تھا۔ان سے مکالمہ اگلے دن ،پھر رات کو بھی گلوریا جینز پر کافی پیتے ہوئے جاری رہا۔
اصل یہ ہے یہ مکالمہ ابھی شروع ہوا ہے!!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر