رانامحبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ماضی کو بدلا جا سکتا ہے؟؟
کیا افسر سرونٹس ہو سکتے ہیں؟؟
ماضی کی گرفت اور ایک افسر کا دکھ
دست ِنمو
رانا محبوب اختر
استعماری ماضی ذہنوں پر قابض ہے۔لاہور کا ایک افسر سول سروس میں پھیلی کرپشن پر آزردہ ہے۔کوئٹہ میں ہزارہ لاشیں فریاد کناں ہیں۔واشنگٹن میں استعماری ماضی کے مارے گورے نسل پرست پارلیمان پر حملہ کرتے ہیں۔حال ماضی کی گرفت میں ہے۔ماضی نے حال میں غصہ بھر دیا ہے۔ پہلے ذرا افسری کے پیراڈائم پر غور کرتے ہیں۔نوآبادتی سول سرونٹ تضادات سے بھرا ہے۔وہ بادشاہ کی نوکری اور عوام پر بادشاہی کرتا ہے۔1947 میں آزادی ملی تو برطانوی فوج اور سول سروس کو اقتدار منتقل ہوا تھا۔عوام اس انتظام سے باہر تھے۔غلامی نیو کولونیل ہو گئی تھی۔غربت اور جہالت غلامی کے دوام کے لئے ضروری تھیں۔لہذا غربت اور جہالت کو برقرار رکھنے کا بندوبست ہوا۔نیو کولونیل نظام میں پٹواری، عوام کا زمینی بندوبست کرتے ہیں اور تھانیدار غریب کی پشت پر "چھتر” سے ریاست کا پیغام لکھتا ہے، کہ "تم غلام ہو”!
سی ایس ایس کے ایک سینئر افسر نے بڑی دلسوزی سے سول سروس کی زبوں حالی کا قصہ کیا ہے۔ان کی تحریر کا کچھ حصہ ملاحظہ کیجئے :
"الحمد للہ!آج سول سروس کے بیس سال مکمل ہوئے۔اگر میں ان بیس سالوں کو گریڈ سترہ سے گریڈ بیس کا سفر کہوں تو کچھ بے جا نہ ہو گا۔والٹن اکیڈمی لاہور میں مختلف محکمہ جات کے افسروں نے گریڈ سترہ میں جائن کیا اور مجھے قوی یقین ہے کہ تقریباً سبھی بیچ میٹ آفیسرز گریڈ بیس پا چکے، یا پانے والے ہیں۔ جو انفرادی اور ذاتی سطح پہ یقیناً بہت خوشی کی بات ہے۔ مگر ان بیس سالوں کو اگر میں اپنی قومی و اجتماعی زندگی کے زاویے و نقطہ نظرسے دیکھوں تو افسوس و ابتری، مایوسی و تنزلی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اپنے پیارے وطن کی خدمت، شان و شوکت، بہتری و خوشحالی کے خواب سجائے ہم نے سی ایس ایس کیا۔ مگر بے رحم وقت، حالات کے جبر اور ذاتی اغراض و مفادات و مصلحتوں نے وہ سب خواب کہیں راستے میں ہی دفن کر دیے۔ آج یہ سوہنی دھرتی ہم سے بجا طور پہ سوال کرتی ہو گی کہ جو مقام و مرتبہ و شناخت تمہیں عطا کیا گیا اسکا انعام و بدلہ یہی تھا کہ مجھے بے حسی و بے رحمی سے لوٹا جائے۔ ذاتی اغراض کا شکار ہو کے اپنی اور اپنے بڑوں کی خواہشات بجا لانے کی خاطر قانون و ضوابط کو جوتے کی نوک پہ رکھا جائے۔ بجائے اس ملک کی تقدیر سنوارنے اور ایک روشن دن کی نوید بن کے اقوام عالم میں اپنے وطن عزیز کا نام و مقام پیدا کرنے کے ، سبھی عالمی پیمانے ہماری برائی و بدنامی کو اچھالیں۔ اور بیرونی دنیا کی نظر میں استہزا، شرمندگی و رسوائی ہمارا مقدر ٹھہرے۔
سی ایس ایس میں شامل ہمارے سبھی گروپس نے اس ابتری، تنزلی و مایوسی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اور کتنا زبردست سسٹم ہے کہ ہم سبھی پروموشن پاتے آگے بڑھتے چلے جا رہے رہیں۔ حالانکہ اس ملک کا عام آدمی اس پورے نظام کے ہاتھوں پٹ رہا ہے- شدید ناامیدی کے عالم میں اپنے مسائل کے مداوے کیلئے سرگرداں ہے۔ مگر اسے اس ناامیدی و مایوسی کے طویل و تاریک سائے کہیں سے بھی چھٹتے نظر نہیں آتے۔طلسم نگر پٹوار خانے ہوں یا جا بجا منہ چڑاتے گندگی کے ڈھیر، ناگفتہ بہ صحت و تعلیم کے محکمے ہوں یا پولیس کے دفاتر، اِنکم ٹیکس کی فائلیں ہوں یا روز افزوں سمگلنگ ، پنشن کیلئے خوار ہوتے اکاؤنٹس آفیس کی بڑی بڑی بلڈنگیں ہوں یا محکمہ خارجہ کی زبوں حالی، ریلوے و پوسٹ آفس کے خسارے ہوں یا کامرس و ٹریڈ کے ہاتھوں ستائے ہوئے ایکسپورٹرز، ایم ایل سی کی سکہ شاہی ہو یا محکمہ اطلاعات کی ناکامیاں ، ہم سب اس چہار سو پھیلی مایوسی و ابتری کے ذمہ دار ہیں۔
وقت بے تکان بھاگا چلا جا رہا ہے۔ ایک نئے سال، ایک نئے عشرے کی ابتدا ہے۔ ہم سب کے پاس اپنی سرکاری زندگی کے دس سال یا کچھ زائد وقت دستیاب ہے۔ اس وقت اک تجدید عہد بلکہ عہد نو کی اشد ضرورت ہے۔ کہ جن اہم عہدوں اور مراتب پہ ہم فائز ہیں وہاں اک انقلاب کی بنیاد رکھیں۔ ان خوابوں کو تعبیر بخشیں جنہیں سجائے ہم نے سول سروس میں قدم رکھا تھا۔ کہ ہماری یہ دل سے کی گئی کاوشیں ہمارے ملک کی آن اور شان بڑھائیں۔ اک ایسا انقلاب کہ جس سے قانون کا بول بالا ہو۔ عام آدمی کی زندگی میں شانتی ہو اور اس نظام پہ اس کا اعتماد بڑھے۔ وہ دوسری دنیا ، بیرون ملک جانے کا خیال دل سے نکال دے۔ بلکہ اسی سوہنی دھرتی پہ رہنے میں فخر محسوس کرے!!”
ایک باضمیر افسر نے اپنے حصے کا سچ بولا ہے۔ایک تعلیم یافتہ نوجوان سی ایس ایس کرنے کا خواب دیکھتا ہے۔ محنت کرتا ہے۔ کامیاب ہوتا ہے۔افسری کا نشہ کرتا ہے۔نشے سے پھر بدن ٹوٹتا ہے، روح چٹختی ہے! مغائرت ہوتی ہے اور شکست ِخواب کا یہ عمل مغائرت میں بدل جاتا ہے۔اس اجمال کی تفصیل ایک کالم میں ممکن نہیں۔مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ anxiety اور مغائرت سول سروس کی تعمیر میں مضمر ہے۔ہمارے ادارے برطانوی اداروں کا تسلسل ہیں۔1855 میں انڈین سول سروس گورے قبضہ گیروں نے مقامیوں کو غلام رکھنے کے لئے بنائی تھی۔یہ لوٹ کھسوٹ کے نظام کو تحفظ اور تسلسل دینے کا انتظام تھا۔استحصال نے قانون کا لباس پہنا تھا۔انڈین سول سروس کے مداح نہیں جانتے کہ پال کینیڈی کے مطابق 1750 میں دنیا کی مجموعی دولت میں انڈیا کا حصہ 26 فی صد تھا جو لگ بھگ دو صدیاں بعد صرف 4 فی صد رہ گیا تھا۔ایک اندازے کے مطابق برطانیہ نے سامراجی قبضے کے دوران انڈیا سے لوٹ مار کے 80 ٹریلین ڈالر لندن منتقل کئے تھے جبکہ ایک محتاط معیشت دان نے یہ رقم 45 ٹریلین ڈالر بتائی ہے۔سالہا سال تک یہ ڈاکہ انڈین سول سروس کی نگرانی میں ہوا اور انڈین آرمی اس انتظام کی محافظ تھی! زمیں زاد مرتے تھے۔ایک اندازے کے مطابق 1857 کی جنگ _ آزادی اور اگلے دس سالوں میں دس ملین لوگ مارے گئے تھے۔سول سروس کے اس نظام کو گورے steel structure of the empire کہتے تھے۔استعمار کے آہنی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔لیکن آج بھی ساری خرابی کے باوجود ہم اسی لونڈے سے دوا لیتے ہیں اور مسیحائی کی توقع رکھتے ہیں جس کے سبب بیمار ہوئے ہیں۔بس میر کے شعر کا مزہ خراب کرنے کو ہم لونڈے کی جگہ بوڑھے عشرت حسین سے کام چلاتے ہیں!ہمارے عہد میں بھی لوٹ مار کی رقم کی لندن منتقلی کا عمل جاری ہے۔اب اس دنیا کے نواز شریف یہ کام کرتے ہیں۔افسر بھی نہیں چوکتے ، مال اور اولاد کو لندن میں حفاظت سے رکھتے ہیں!
قدیم وادء سندھ سندھ یا بلادالسندھ آج کا پاکستان ہے۔یہ ہزار رنگ کا باغ ہے جس میں ہر رنگ کے ہزاروں رنگ ہیں۔مخلوط قوموں اور مخلوط زبانوں کے اس ملک میں تکثیریت کے مقابلے میں کسی افسر نے ” One nation, one road” سا مضحکہ خیز بیانیہ بھی تشکیل دیا ہے۔ استعماری آبادکاری اور نوآبادکاری نے اس بیانیے کو لوٹ مار کے دوام کے لئے استعمال کیا ہے۔فساد ، نفرت ، غربت ، فرقہ پرستی اور کرپشن سے کولونیل بیوروکریسی اور اشرافیہ کو ہر زماں نئی حیات ملتی ہے۔کرپشن اب سٹیٹس سمبل ہے اور حرام خور، حرم کے نام پر استحصال کرتے ہیں۔کرپشن تب بری لگتی ہے جب ہم یا ہمارے دوست ایسا نہ کر رہے ہوں۔استثنیات ہیں مگر استثنیات سے اصول تو نہیں بدلتے!ادارے بے حسی، نااہلی یا کرپشن سے زیادہ اپنے طبقاتی کردار کی وجہ سے ناکام ہیں۔اسلام آباد میں ایک 22 سالہ نوجوان کے جسم میں 22 گولیاں پولیس کے کولونیل رویے کا تسلسل ہیں۔جو بھی وجوہات ہوں، ہزارہ مقتولوں کی لاشیں سوال کرتی ہیں۔زندگی کا آخری مطالبہ میت کی تدفین ہے، اب میتیں اور موت مطالبات سے زندگی کو شرمندہ کرتی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اب تک ہزارہ لوگوں پر 115 حملے ہوئے ہیں۔جن میں ایک ہزار سے زیادہ اموات اور 2800 سو زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔اور آج تک ان حملوں کے ایک بھی ذمہ دار کو سزا نہیں ہوئی۔پولیس اور پاکستان کی انتظامی سروس کی نااہلی کا قصہ عام ہے۔کرپشن کے کلچر کو سماج نے قبول کر لیا ہے!واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ان گروپوں نے کسٹمز اور انکم ٹیکس کے محکموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پولیس قبضہ گروپوں کے ساتھ مل کر کھلم کھلا دھندا کرتی ہے۔تن ہما داغ داغ شد،پنبہ کجا کجا نہم، کسی بت کدے میں بیاں کروں تو صنم بھی ہری ہری بولیں گے۔سرمد شہید کا شعر یاد آیا:
نسخہء آشفتہء دیوان عمر ما مپرس
خط غلط، معنی غلط، انشا غلط، املا غلط
ہمارا حال ماضی کے قبضے میں ہے۔پیڑک موڈیانو کہتا ہے کہ زندگی پر مستقبل سے زیادہ ماضی کی گرفت ہوتی ہے۔لاہور میں ایک سرکاری افسر ماضی کے رومان میں گرفتار ہے، آج کا نوحہ لکھتا ہے مگر اس کا ماضی کولونیل ہے!استعماری ماضی کو بدلے بغیر کچھ نہیں بدلے گا۔کوئٹہ میں میتوں کے پیچھے ماضی کی کربلا کھڑی ہے۔واشنگٹن میں گورے نسل پرست، پارلیمان میں گھس کر غلامی کو جائز قرار دینے والے confederates کے جھنڈے اٹھائے گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف دوڑاتے ہیں۔دنیا میں پھیلا غصہ ماضی سے پھوٹا ہے۔ٹھنڈے دل سے غور کریں!درست تجزیے سے ماضی بدل دیں!مستقبل بدل جائے گا!
یہ بھی پڑھیے:
محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر