دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست ہو گی ماں جیسی۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

مذہب کے نام پر قتل ہونے والے بے گناہ انسانوں کی لاشوں پر رونے والی ماوں بہنوں کے درد کو سمجھنے کے لئے اس مذہب اور فرقہ سے تعلق ہونا ضروری نہیں بلکہ اندر کے انسان اور ضمیر کا زندہ ہونا ضروری ہے

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشتاق حسین اور اس کے گھر والے کتنے خوش ہوں گے، کتنے خواب آنکھوں میں سجا لئے ہوں گے نوعمر مشتاق حسین اور اس کے گھر والوں نے جب مشتاق حسین نے کوئٹہ بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہو گی۰ ان لوگوں نے سوچا ہو گا کہ مشتاق حسین پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن جائے گا تو ان کی صدیوں کی بھوک اور غربت ختم ہو جائے گی ان کے بھی دن بدل جائیں گے۰ اپنے اس خواب کو پورا کرنے اور اپنے خاندان کی غربت ختم کرنے کیلئے مشتاق حسین نے اور زیادہ محنت شروع کر دی، تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مشتاق حسین نے گھر کا چولہا جلانے کے لئے محنت مزدوری بھی شروع کر دی لیکن کون جانتا تھا کہ ان کے خواب حقیقت سے کوسوں دور رہ جائیں گے۰ چند روز پہلے مچھ میں کٹنے والی گیارہ گردنوں میں سے ایک گردن اس ہونہار طالبعلم مشتاق حسین کی بھی تھی۰ مشتاق حسین کی گردن پر چلنے والی چھری نے مشتاق حسین کی گردن ہی نہیں کاٹی بلکہ یہ چھری اس خاندان کی تمام امیدوں اور خوابوں پر بھی چل گئی جو انہوں نے مشتاق حسین کی کامیابی کی صورت میں دیکھ رکھے تھے۔

ہزارہ قوم کے گیارہ افراد کا قتل کوئی نئی بات نہیں، ہزارہ افراد کی نسل کشی کا کام بڑے عرصے سے جاری ہے لیکن آج تک کسی قاتل کا گرفتار ہونا یا سزا ملنا تو دور کی بات یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ ہزارہ قوم کا قاتل ہے کون؟ بظاہر تو قاتل نامعلوم ہی ہے لیکن سب کو معلوم بھی ہے کہ قاتل کون ہے۰ ہزارہ مقتولین کے ورثا چھ روز منفی آٹھ ڈگری میں اپنے مقتولین کے تابوت لئے کھلے آسمان تلے بیٹھے حاکم وقت کا انتظار کرتے رہے تاکہ اس سے پوچھ سکیں کہ کیا ہماری جان و مال کی حفاظت بھی ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے یا نہیں لیکن حاکمِ ریاست ان مظلوموں کی داد رسی اور اشک شوئی کے لئے اپنے قیمتی وقت میں سے چند لمحے بھی نہ نکال سکا۰ مانا کہ حاکمِ ریاست کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے اُس نے ترکی کے ڈرامہ نگاروں سے ملاقات کرنی ہوتی ہے، اُسے اپنی سوشل میڈیا ٹیم سے ملاقات کرنی ہوتی ہے، اپنے درجنوں ترجمانوں سے ملاقات کرنی ہوتی ہے اور ان کو ہدایات جاری کرنی ہوتی ہیں تاکہ اپوزیشن کے خلاف زبان درازی اور پروپیگنڈہ میں کوئی کمی نہ آئے۔

حکومتی بے حسی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس اندوہناک واقعہ کو چار روز گزرنے تک بلوچستان کا وزیراعلی دوبئی میں چھٹیاں مناتا رہا۰ چار روز بعد جب واپس آیا تو بھی مقتولین کے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکتا رہا۰ وزیرِداخلہ جو پورے ملک میں امن و امان اور عوام کی حفاظت کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے وہ بھی اس سارے معاملے سے لاتعلق اپوزیشن کو دھمکیاں دیتا اور سیاسی معاملات میں مصروف رہا۰ دہشت گردی اپنی جگہ پر لمحہ فکریہ ہے لیکن اس سارے واقعے میں حکومتی رویہ اور بے حسی ناقابل برداشت ثابت ہوئی ہے۰ یہی عمران خان جو دو ہزار تیرہ میں ہزارہ قوم کے افراد کے قتل پر کہتا تھا کہ آصف زرداری کہاں ہے کیوں وہ مقتولین کے داد رسی نہیں کر رہا۰ اُس آصف علی زرداری نے تو اپنے وزیراعظم کو ورثا کے پاس بھیجا اور ان کے مطالبے پر اپنی بلوچستان حکومت اور وزیراعلی کو برطرف کرکے گورنر راج نافذ کر دیا تھا۰ اسی عمران خان کا رویہ آج یہ ہے کہ چھ روز مقتولین کے ورثا شدید سردی میں کھلے آسمان تلے بیٹھے رہے اور ریاست مدینہ کے اس امیر نے یہ کہہ کر ان کے زخموں پر نمک چھڑکا کہ یہ مجھے بلیک میل کر رہے ہیں۰ اور یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جس نے خود ایک سو چھبیس دن تک دارالحکومت میں دھرنا دے کر پوری قوم کو یرغمال بنائے رکھا۰ پارلیمنٹ اور پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارتوں پر حملے کئے۰ آئے روز شہروں کو بند کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا۰ وقت یہ بھی گزر جائے گا لیکن وزیرعظم صاحب آپ کی اس بے حسی اور ڈھٹائی کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔

اس موقع پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہو گی۰ نیوزی لینڈ میں جب ایک جنونی شخص نے مسجد میں گھس کا مسلمانوں کا قتل عام کیا تو وہاں کی وزیراعظم نے اپنے نمائیندوں کو نہیں بھیجا بلکہ وہ مذہب، رنگ اور نسل کو بالائے طاق رکھ کر وہاں پہنچی، غمزدہ مسلمانوں کو گلے سے لگایا، ان جیسا لباس پہن کر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۰ تو خان صاحب آپ کو کیا مجبوری تھی کہ آپ اس غمزدہ اور افسوسناک موقع پر بھی تاریخ کے غلط رُخ پر ہی کھڑے نظر آئے۰ آپ نے تو ہزارہ برادری کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ حکومت بننے کے ایک ماہ کے اندر اندر آپ لوگوں کے مسائل حل کروں گا۰ خان صاحب آپ کا یہ وعدہ بھی دوسرے وعدوں کی طرح ایک سراب ہی ثابت ہوا۔

ہمارے ملک میں بنیاد پرستی اور عدم برداشت کا زہر اس حد تک رگوں میں سرایت کر چکا ہے کہ مخالف فرقہ یا مذہب کے افراد کے قتل کی مذمت تو دور کی بات، اس قتل کو درست سمجھا جاتا ہے۰ ہزارہ قوم کے افراد کا قتل ہو، شیعہ کا قتل ہو، احمدیوں کا قتل ہو یا عیسائیوں کی جان لی جائے اس کی مذمت تک نہیں کی جاتی۰ اگر کوئی اس کی مذمت کرے تو اس پر کفر کا فتوی لگا دیا جاتا ہے۰ کیا کوئی بتانا پسند کرے گا کہ کیا یہ ہے اسلام کی تعلیم؟ کیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم؟ ہم دنیا کو اسلام کی کون سی تعلیم دکھا رہے ہیں؟ جہاں تک ریاست کی ذمہ داری کا تعلق ہے تو بظاہر ریاست مذہب کا معاملہ مذہبی انتہا پسندوں کے حوالے کر کے خود اس سے پوری طرح لاتعلق ہو چکی ہے۰ یہی وجہ ہے کہ انتہا پسندی عروج پر ہے اور مذہبی مخالفت پر ہر کوئی دوسرے کا گلا کاٹنے پر تیار نظر آتا ہے اور بہت سے غازی آسان جنت کے حصول کے لئے بیتاب نظر آتے ہیں۔

کس منہ سے ہم کشمیر اور فلسطین میں ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کر سکتے ہیں جب ہمارے اپنے ملک میں مذہب کے نام پر لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہماری غالب اکثریت اس خون خرابے کو درست سمجھتی ہے اور جو کوئی اس ظلم و ستم اور خون ناحق کے خلاف آواز اٹھائے اس کو فورا کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بنیاد پرستی اور عدم برداشت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ریاست کبوتر کی مانند آنکھیں موندے بیٹھی ہے۔

مذہب کے نام پر قتل ہونے والے بے گناہ انسانوں کی لاشوں پر رونے والی ماوں بہنوں کے درد کو سمجھنے کے لئے اس مذہب اور فرقہ سے تعلق ہونا ضروری نہیں بلکہ اندر کے انسان اور ضمیر کا زندہ ہونا ضروری ہے۰ ریاست کے کردار کو ایک طرف رکھ کر ہم سب کو بھی اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارا اندر کا انسان زندہ ہے؟ کیا ہمارا ضمیر زندہ ہے؟

ذرا سوچئے۔

جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے

شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے۔

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

About The Author