نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شیعہ نسل کُشی اور تکفیری مائنڈ سیٹ ۔۔۔عامر حسینی

پاکستان کے ادارے چاہے وہ انتظامی ہیں یا وہ مقننہ ہیں یا وہ انصاف فراہم کرنے والے ہیں وہ شیعہ پرسیکوشن کو ایک یا دوسرے طریقے سے تحفظ دیتے ہیں اور اُن کے خلاف ریاستی قوانین کا غلط استعمال کرنے کی روک تھام نہیں کرتے-

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیعہ نسل کُشی ایک ایسا مظہر ہے جس کی جب بات ہوتی ہے تو اس کا انکار کرنے والے فوری میدان میں اتر آتے ہیں اور انکار کرنے والوں میں زیادہ تر لوگوں کی اکثریت اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو یا تو اسٹبلشمنٹ کی طرف سے سٹرٹیجک اثاثوں کے نام پر تکفیری عسکریت پسند تنظیموں کی سرپرستی کرنے کے عمل کے انکاری ہوتے ہیں اور بلوچستان میں اُن کے نزدیک ایسے نیٹ ورک اسٹبلشمنٹ نے پالے ہوئے نہیں ہیں جو تکفیری نظریات رکھتے ہیں اور اُن کا ھدف بلوچ قوم پرست کے ساتھ ساتھ ہزارہ شیعہ بھی ہیں –
شیعہ نسل کُشی کا انکار کرنے والے وہ بھی ہیں جو یہ ماننے سے انکاری ہیں کہ ایسی وارداتوں کا ارتکاب وہ تکفیری نیٹ ورک بھی کررہے ہیں جو پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے کبھی اثاثے تھے لیکن اب وہ کسی اور کے اثاثے بن گئے ہیں…….
شیعہ نسل کُشی ، شیعہ پرسیکوشن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور یہ پرسیکوشن اُس اینٹی شیعہ تحریک سے جڑی ہے جو پاکستان کے اندر سپاہ صحابہ پاکستان نے جاری رکھی ہوئی ہے جو شیعہ مسلمانوں کو اُن کے عقائد و شعائر کے مطابق زندگ گزارنے کو جرم بناکر دکھاتی ہے اور اُسے بلاسفیمی اور ارتداد کا درجہ دیتی ہے جس کے بعد ہر شیعہ قابل تعذیب اور واجب القتل ٹھہرتا ہے-
پاکستان کے ادارے چاہے وہ انتظامی ہیں یا وہ مقننہ ہیں یا وہ انصاف فراہم کرنے والے ہیں وہ شیعہ پرسیکوشن کو ایک یا دوسرے طریقے سے تحفظ دیتے ہیں اور اُن کے خلاف ریاستی قوانین کا غلط استعمال کرنے کی روک تھام نہیں کرتے-
جب انتظامیہ بلوچستان میں رمضان مینگل جیسوں کو، اسلام آباد میں ملا عبدالعزیز جیسوں کو، پنجاب میں لدھیانوی جیسوں کو سندھ کے اندرون میں تاج حنفی جیسوں کو اینٹی شیعہ تکفیری پروپیگنڈے کے لیے آزاد چھوڑے گی اور ریاست کے کچھ اداروں کے اندر سے لوگ تکفیری عسکریت پسندوں کو گود میں لیے رکھیں گے تو شیعہ نسل کُشی جاری رہے گی اور پرسیکوشن بھی….
بلوچستان میں سول انتظامیہ کو کمزور کرکے بلکہ سول انتظامیہ میں بھی ریٹائرڈ فوجی داخل کرکے پورے صوبے کو "فوجستان” بنادیا گیا ہے اور بلوچ قوم کی نسل کُشی کی جارہی ہے اور بلوچ قوم کی آواز کوئی سُننے کو تیار نہیں ہے ایسے ہی پوری ہزارہ شیعہ قوم کو دو گھیٹو کالونیوں میں محصور کردیا گیا ہے اور وہ ہیں مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن اور دونوں جگہوں پر اُن کو مارا جارہا ہے، اُن کی نسل کُشی ہورہی ہے-
عوام کے پاس نمائندہ بااختیار حکومت نہیں ہے نہ ہی بااختیار سویلین لوگ جو اُن کے مصائب کا حقیقی طور پر ادراک کرسکے ہیں-
کٹھ پتلی اور کٹھ پتلیوں کی کٹھ پتلیاں جاکر ناٹک رچانے پہنچتی ہیں ہر بار وہ کہتے ہیں کہ تحفظ دیں گے لیکن ہر بار وہ بے سروسامانی کی حالت میں مارے جاتے ہیں-
میرا بس ایک ہی سوال ہے جتنی سیکورٹی حکومتی عہدے داروں، وزیروں، مشیروں، چینیوں اور خود فوج، ایف سی، لیوی کے افسران کے اردگرد اور دفاتر پہ تعینات ہے اگر اتنی سیکورٹی کوئلے کی کانوں، بازاروں، محلوں کے اردگرد عام آدمی کے تحفظ کے لیے تعینات کی جاتی تو کیا تب بھی عام لوگ ایسے قتل ہوجاتے؟
ہزارہ شیعہ کا قتل سیکورٹی پلان کی ناکامی ہے اور عام آدمی کی سیکورٹی اشرافیہ کو دینے کا نتیجہ ہے………

یہ بھی پڑھیے:

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

About The Author