رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم تو خیراس طرح کے منظر دیکھنے کے پرانے عادی تھے، دنیا نے یہ منظر خوب خوب دیکھا کہ ایک بپھرے ہوئے مجمع نے امریکہ کے دارالحکومت میں ملک کی پارلیمان پر ، جسے کانگریس کہا جاتا ہے، چڑھائی کر کے عمارت پر قبضہ کرلیا ۔مجمع کا کہنا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے ۔ جو بائیڈن کی کامیابی میں دھوکہ ہوا ہے ،ملک کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی جائز صدر ہیں اور کانگریس کو کسی اور کی کامیابی کی تصدیق کرنے کا اختیار نہیں۔ عمارت کے اندر اجلاس جاری تھا جہاں جو بائیڈن کی کامیابی کا رسمی اعلان ہونے والا تھا۔ باہر جمع ہونے والا مجمع اس سے پہلے ہی کانگریس کی شاندار تاریخی عمارت پر چڑھ دوڑا اور ایسی تباہی مچائی کہ دنیا ششدر رہ گئی۔
دل چسپ بات یہ تھی کہ مجمع سے خود صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ کانگریس کی طرف بڑھے۔ وفادار ہجوم جھٹ مان گیا اور دنیا نے ٹیلی وژن پر دیکھا کہ ایک مرحلے پر کانگریس کے ارکان جان بچانے کے لئے ہتھیار نکال کر مورچہ بند ہوگئے۔اس دوران نو منتخب صدر بائیڈن نے قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ جمہوریت پر حملہ ہوا ہے اور قانون اور دستور کا محاصرہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ سے کہا کہ وہ قوم سے خطاب کریں اور مجمع کو ہدایت کریں کہ وہ اپنے گھروں کو جائے۔ کچھ دیر بعد ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنا پیغام جاری کیا جس میں مجمع سے یہ تو کہا کہ وہ پر امن رہے اور اپنے گھروں کو جائے لیکن ساتھ ہی ان سے یہ بھی کہا کہ آپ بہت پیارے ہیں اور ہمارے لئے بہت خاص ہیں۔
غرض یہ کہ مار دھاڑ جاری رہی اور پولیس نے بتایا کہ اس ہڑبونگ میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ شہر میں کرفیو لگا دیا گیا اور کانگریس کے ارکان لوٹ آئے اور اجلاس شروع ہوگیا۔ ٹوئٹر نے صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ بند کر دیا اور صدر کو اختیارات سے محروم کرکے بے دست و پا کرنے کے امکانات پر غور ہونے لگا۔میں اپنی بات دہراتا ہوں کہ ہم نے تو خیر سے ہر الیکشن میں یہ منظر دیکھا کہ ہارنے والا روتا جاتا ہے اور کہتا جاتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ امریکہ میں، جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مانا جاتا ہے اور آزادی کے تصور کا سب سے بڑا علم بردار تصور کیا جاتا ہے، اس امریکہ پر کون سی بپتا آن پڑی کہ کروڑوں ووٹروں نے جو فیصلہ سنایا، ایک شخص نے کھڑے ہوکر اعلان کردیا کہ میں اس فیصلے کو نہیں مانتا۔ کیسی دیوانی قوم ہے کہ لاکھ دو لاکھ افراد اس شخص کی حمایت میں بھی کھڑے ہوگئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ جمہوریت کے دامن پر تاریخی دھبہ لگا۔ اس سے پہلے بھی کم سے کم ایک بار عدالتی کارروائی کرکے انتخابات کا نتیجہ تبدیل کرایا گیا۔ اس طرح کی کارروائیاں چھوٹے موٹے ملکوں کو زیب دیتی ہوں تو الگ بات ہے لیکن جس امریکہ کی بنیاد جمہوری روایات پر رکھی ہو اور جس سرزمین پر ایک مہذب معاشرہ آباد ہو وہاں اس طرح کی دھکم پیل اور قانون شکنی سے کیا سمجھا جائے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔
مجھے یاد ہے ایک بار امریکہ سے ایک صاحب لندن آئے جو ہندوستان کے بڑے دانش ور تھے اور ایک امریکی یونی ورسٹی میں کمیونزم کے بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو کسی نے ان سے کہا کہ ایک سطر میں جواب دیجئے کہ کمیونزم کیوں ناکام ہوا ۔ انہوں نے واقعی ایک سطر میں جواب دیا کہ ’’فطرت کے خلاف ہے‘‘۔ مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ کہیں جمہوریت کا بھی یہی معاملہ تو نہیں۔ کیا جمہوریت انسانی فطرت سے میل نہیں کھاتی۔ کیا شکست تسلیم کرنا انسانی مزاج کے بر خلاف ہے اور کیا اکثریت کے فیصلے کا درست اورصحیح ہونا ضروری ہے؟۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ انتخابات میں کشیدگی پروان چڑھتی ہے جو ووٹوں کی گنتی اور نتیجوں کے اعلان تک اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔کتنے ہی ملکوں میں دھاندلی کا الزام ضرور لگتا ہے اور ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ایک صاحب اقتدار کی کرسی پر اس شان سے براجمان ہیں کہ آندھی آئے یا طوفان، ہر الیکشن میں وہی صاحب یا ان کے بیٹے کامیا ب ہوتے ہیں۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے بعض حکمرانوں کو بڑی مشکل سے اور شدید کھینچا تانی کے بعد اس مسند سے اتارا گیا۔ یا پھر موت نے ان کو دبوچ لیا ورنہ وہ الیکشن پر الیکشن جیتتے جاتے ہیں اور اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
امریکہ میں جو کچھ ہوا اور امریکیوں کے مہذب ہونے کے تصور پر جو داغ لگا وہ اس قوم کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرے گا۔ یہ ملک اپنے جس آئین کو سینے سے لگائے بیٹھا ہے اور صدیوں سے جس کے ایک ایک نقطے کی حفاظت کی جارہی ہے اب اس پر قلم چلانے کی ضرورت محسوس ہو گی۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ آئین فرسودہ ہوگیا بلکہ یہ کہ انسان کا ذہن بدل رہا ہے، سوچنے سمجھنے کا انداز تبدیل ہورہا ہے۔ انسانی رویے بدل رہے ہیں اور ہر عمل کے ردعمل کا قدیم اصول اپنی شکل و صورت بدل رہا ہے۔ حالات سے سمجھوتا کرنے اور نا پسندیدہ حالات میں بھی جینے کا ہُنر معدوم ہوچلا ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ فیصلے کرنے کے عمل میں انسانی ذہن کارفرما ہوا کرتا تھا، اب اس کام میں مشین بھی داخل ہوگئی ہے۔ ہمارے کتنے ہی فیصلے کمپیوٹر میں پڑا ہوا ڈیٹا کرتا ہے۔ ہم نے مان لیا ہے کہ انسانی ذہن میں اتنی استعداد نہیں کہ پوری صورت حال پر نظر رکھ سکے۔ چنانچہ جدید الیکٹرونکس کا سہارا لے کر رائے قائم کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس رائے میں انسانی جذبات اور حس کا دخل کم ہوتا جارہا ہے۔ راستہ سہل ہونے کی بجائے دشوار ہورہا ہے اور جسے ہم سائنسی انقلاب سمجھ رہے ہیں، وہ ہمیں ہماری بے پناہ صلاحیتوں سے محروم کر رہا ہے۔
کمپیوٹر سب کچھ بتا سکتا ہے، یہ نہیں بتا سکتا کہ دنیا میں سر پھرے دیوانوں کی کمی نہیں، ان پر وقت اور حالات کب اور کیوں کر قابو پاسکیں گے؟
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
یہ بھی پڑھیے:
جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی
کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی
مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر