عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس دن سے عمران خان نے عنان ِحکومت سنبھالی ہے اس دن سے ان کا وطیرہ ہے کہ جب بھی ان کی کارکردگی ، نااہلی ، کام چوری ، اقرباپروری اور کرپشن کا ذکر ہوتا ہے وہ فوری طور پر بھاگ کر فوج کی چھتری تلے پناہ لیتے ہیں۔ کتنے ہی واقعات ہوئے جس میں عمران خان نے قوم کو بتایا کہ میں جو بھی کر رہا ہوں ، فوج جانتی ہے۔
کبھی وہ اپنے فون ٹیپ ہونے کا ذکر بہت فخر سے کرتے ہیں ، کبھی اپنی شبانہ روز محنت کا تذکرہ کرتے ہوئے فوج کو ضامن بناتے ہیں ، کبھی “ماشیت” کی تمام تر مشکلات کا ذمہ فوج پر ڈال دیتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ فوج کو سب پتہ ہے۔ ان کی اس روش سے لوگوں کو یہ گمان درست طور پر ہوتا ہے کہ عمران خان کے پیچھے فوج آج بھی چٹان کی طرح کھڑی ہے، اس وزیر اعظم کے جعلی مینڈیٹ کے تحفظ کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لا رہی ہے۔
لوگوں کا یہ گمان کچھ غلط بھی نہیں ہے اس لیے کہ تحسین و آفرین کی یہ کارروائی دو طرفہ ہے۔ عمران خان کے آنے سے پہلے ہی اس زمانے کے ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ خوشخبری عوام کو سنا دی گئی تھی کہ یہ سال تبدیلی کا سال ہے، اسی زمانے میں میڈیا کو چھ ماہ مثبت رپورٹنگ کا بھی حکم ملا تھا، اسی زمانے میں میڈیا میں سے حکومت مخالف صحافیوں کی رخصت کا سلسلہ میڈیا مالکان کے تعاون سے شروع ہوا تھا، اسی زمانے میں ‘ایک صفحہ پر ہونا’ کی اصطلاح وجود میں آئی تھی، اسی زمانے سے اس حکومت کی خامیوں پر پردہ پوشی کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی، اسی زمانے سے ہر پلیٹ فارم پر پہلی دفعہ سول اور ملٹری حکومت کے شیر و شکر ہونے کے بیانات بھی سامنے آنے لگ گئے تھے۔
عمران خان کے برسر اقتدار آتے ہی یہ تاثر دیا گیا کہ “آ گیا وہ شاہکار جس کا انتظار تھا”، جس انقلاب کی راہ قوم دہائیوں سے دیکھ رہی تھی وہ اب ان کی دہلیز تک پہنچ گیا ہے، ایک نیا سورج طلوع ہو گیا ہے۔لیکن صرف اڑھائی سال میں یہ غلط فہمیاں ختم ہو گئیں، عمران خان جنھیں قوم کا حسین خواب بنا کر پیش کیا گیا تھا وہ ایک ہولناک تعبیر ثابت ہوئے، ایک ڈروانا سپنا بن کر رہ گئے،تعمیر کے بجائے تخریب کی علامت بن گئے، لوگ پہلے تو میڈیا کے پراپیگنڈے کے زیر اثر اس بھیانک تعبیر کوسمجھ نہ سکے کیوں کہ پہلے توجہ سابقہ وزرائے اعظموں کی کرپشن پر دی جا رہی تھی، سابقہ حکومتوں کی نااہلی کا غلغلہ بلند کیا جا رہا تھا،
گائیں بھینسیں بیچی جا رہی تھیں، مرغیوں اور انڈوں کی تقسیم سےانقلاب آنے کی نوید سنائی دی جا رہی تھی، آئی ایم ایف کےقرضے پر نفرین بھیج کر خود کشی کے منصوبے بن رہے تھے، دوست ممالک کے سربراہوں کی گاڑیاں ڈرائیو کی جا رہی تھیں۔ مخالفین کو بھیڑ بکریوں کی طرح جیلوں میں دھکیلا جا رہا تھا، اپوزیشن کے ہر فرد، ہر پارٹی کا جی بھر کر میڈیا ٹرائل ہو رہا تھا گویا تبدیلی کے نعرے چہارسو گونج رہے تھے۔
حکومت کے دو سال مکمل ہونے کے بعد جب تبدیلی کے ڈھول کا پول کھلا اور اس سے لوگ بور ہونے لگے تو سب کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ کیا دھوکہ ہو گیا ہے، ان کو کس المناک صورت ِحال کا سامنا ہے۔ لوگوں کو احساس بھی نہیں ہوا اور دو سال میں ان کے روزگار ختم ہو گئے ، کروڑوں لوگ خط ِناداری سے نیچے دھکیل دیے گئے، بھوک گھروں میں راج کرنے لگی، افلاس آنگنوں میں رقص کرنے لگا، کاروبار بند ہوگئے، ملکی ترقی تنزلی میں تبدیل ہوگئی، ترقیاتی منصوبے جہاں تھے وہیں رک گئے، علاج مہنگا ہو گیا ، تعلیم مہنگی ہوگئی، اشیائے خورونوش کمیاب اور انمول ہونے لگیں، بجلی اور گیس کے بل بڑھنے لگے،
قرض میں اضافہ ہونے لگا، پٹرول کی قیمت روز بروز بڑھنے لگی، دنیا میں رہی سہی عزت بھی ہم گنوانے لگے، خارجہ پالسی تماشہ بن گئی ،کشمیر ہاتھ سے نکل گیا، وزیر اعظم کے لطیفے زبان ِزد ِعام ہونے لگے، کابینہ میں اقربا پروری کی روش مقبول ہونے لگی، وزرا کی کرپشن اور وزیر اعظم کی نااہلی کے قصے منظر عام پر آنے لگے، میڈیا میں حوالدار صحافی بھی کرب کے مارے بلبلانے لگے تب لوگوں کو ادراک ہوا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، ہمارے ساتھ ریاست ِمدینہ کے نام پر فراڈ کیا گیا ہے، ہمارے ساتھ نئے پاکستان کے پردے میں ہاتھ ہو گیا ہے۔
بہاولپور کے پی ڈی ایم کے جلسے میں پہلی دفعہ مریم نواز نے اس مسئلے پر بات کی اور عمران خان کی فوج کی چھتری کو بے نقاب کیا۔ انھوں نے جو سوال اٹھائے وہ اب ہر پاکستانی پوچھ رہا ہےکہ اگر عمران خان کے پاس ہر مسئلے کا یہی جواب ہے کہ فوج سب جانتی ہے تو سوال بنتا ہے کہ غریب کی زندگی جو اجیرن ہو گئی ہے تو کیا اس میں بھی فوج کا تعاون حاصل تھا؟ مہنگائی بڑھ گئی ہے کیا اس میں بھی فوج کی مدد حاصل تھی؟ ملک جو قرضوں میں ڈوب گیا ہے کیا یہ کام بھی باہمی مشاورت سے ہواہے؟
معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی کیا اس میں بھی بڑوں کی مرضی شامل تھی؟ بین الاقوامی طور پر جو ملک کی جگ ہنسائی ہوئی ہے کیا یہ باہمی مشاورت سے عمل پذیر ہوئی ہے؟ کاروبار جو ٹھپ ہوگئے ہیں کیا وہ کسی اشارے پر ہوئے ہیں؟ لوگ جو بے روزگار ہوئے ہیں کیا یہ ایک پیج پر ہونے کی کرامات ہیں؟ ترقیاتی منصوبے جو ٹھپ ہو گئے ہیں کیا باقاعدہ منصوبہ بندی سے یہ کامیابی حاصل کی گئی ہے؟ ترقی کی شرح جو منفی میں چلی گئی ہے کیا کسی حکم پر ایسا کیا گیا ہے؟
کیا فارن فنڈنگ کیس ، مالم جبہ کیس ، بی آر ٹی کرپشن تحقیقات آپس میں طے کر کےکسی وسیع تر قومی مفاد میں روک دی گئی ہیں؟ یہ سوال اب عام آدمی کی زبان پر آنے لگے ہیں۔ عمران خان ابھی بھی مصر ہیں کہ فوج سب جانتی ہے، سب پہچانتی ہے، دیکھ رہی ہے کہ وہ کس محنت سے اس ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔
ایسے موقع پر ہونا تو یہ چاہیے کہ فوج فوری طور پر اپنے سیلکٹڈ سے جان چھڑوا لے اور اس تباہی کی ذمہ دار بننے سے انکار کردے مگر ایسا ممکن نظر نہیں آتا اس لیے کہ عمران خان کے جانے سے صرف ایک سیلکٹڈ وزیر اعظم ہی گھر نہیں جائے گا، لانے والے بھی غیر مستحکم ہو جائیں گے۔ ایک وزیر اعظم کے جانے سے کئی عہدے خالی ہو جائیں گے، یہ بات بھی فوج اچھی طرح جانتی ہے
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر