نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارتی غلامی میں جکڑے کشمیریوں کی بابت اپوزیشن جماعتوں کے غم وغصے کی ’’حقیقت کو عیاں کرنے‘‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے منگل کی سہ پہر سینٹ میں ایک طولانی خطاب فرمایا۔ کمال ہوشیاری سے یاد دلاتے رہے کہ مسئلہ کشمیر عمران حکومت کے دوران نمودار نہیں ہوا۔ یہ 73 برسوں تک پھیلا ہوا قصہ ہے۔ تین سے زیادہ مرتبہ حکومتوں میں رہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ اسے حل نہیں کر پائی۔ عمران خان صاحب کو اقتدار سنبھالے ابھی ڈھائی برس بھی نہیں ہوئے۔ انہیں اس مسئلہ کا ذمہ دار ٹھہرانا زیادتی ہے۔
اپوزیشن کے بے دریغ انداز میں لتے لینے کا موقعہ شاہ محمود قریشی صاحب کو پیپلز پارٹی کی محترمہ شیری رحمن نے فراہم کیا۔ منگل کی سہ پہر اجلاس شروع ہوتے ہی انہوں نے یاد دلایا کہ آج 5 جنوری ہے۔ اس تاریخ کو آج سے کئی دہائیاں قبل اقوام متحدہ نے کشمیریوں سے یہ وعدہ کیا کہ انہیں استصواب رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کا موقعہ دیا جائے گا۔ 73 برس گزر جانے کے باوجود مذکورہ وعدے پر لیکن عملدرآمد نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ کے وعدوں اور قراردادوں کو حقارت سے نظرانداز کرتے ہوئے ڈیڑھ برس قبل مودی سرکار نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا بھی اعلان کردیا۔ اس کی بدولت مقبوضہ کشمیر کو جو نام نہاد ’’خودمختاری‘‘ میسر تھی اسے بے رحمی سے ختم کردیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو ایک وسیع و عریض جیل بنا دینے کے بعد اب ہندو انتہاپسندوں کو اُکسایا جا رہا ہے کہ وہ یہاں جائیدادیں خریدیں۔ نئے کاروبار شروع کریں اور بالآخر وادیٔ کشمیر کو مسلم اکثریت سے محروم کردیں۔
5 جنوری کا تذکرہ کرتے ہوئے شیری رحمن صاحبہ نے ایک حوالے سے عمران حکومت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں سے اختلافات کو وقتی طور پر بھلاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لئے کوئی متفقہ اور سفارتی اعتبار سے تگڑا پیغام تیار کرے۔ مسئلہ کشمیر اگرچہ منگل کے روز سینٹ کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ رواں سیشن اپوزیشن جماعتوں کی درخواست پر بلایا گیا ہے۔ اس کے ذریعے اپوزیشن دُنیا کو بتانا چاہ رہی تھی کہ عمران حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو احتساب کے نام پر دیوار سے لگارہی ہے۔نیب کے چیئرمین کو اگرچہ دو روز تک جاری رہی دھواں دھار تقاریر کے باوجود وضاحتیں دینے کے لئے اپنے روبرو طلب کرنے میں ناکام رہی۔ منگل کی سہ پہر حکومت کی دیگر ’’زیادتیوں‘‘ کا ذکر ہونا تھا۔
ملتان کے ایک روحانی خانوادے سے تعلق کی بنیاد پر شاہ محمود قریشی صاحب کئی برسوں سے روایتی سیاستدانوں کی طرح ’’ہر ایک سے بناکر‘‘ رکھنے کے عادی تھے۔ تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد مگر انہوں نے دریافت کیا کہ ’’پیا‘‘ یعنی عمران خان صاحب کی نظر میں وہی بھاتا ہے جو اپوزیشن جماعتوں میں بیٹھے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو بازاری زبان میں کڑی تنقید کا نشانہ بنائے۔ اس ضمن میں عمران حکومت کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج سے ان کا سخت مقابلہ جاری ہے۔ قریشی صاحب مگر سیانے آدمی ہیں۔ وزارت خارجہ جیسے اہم ترین منصب پر فائز بھی ہیں۔ امید ہے کہ ’’شدت پسند‘‘ کا روپ دھارنے کے بعد وہ جلد ہی محترمہ فردوس عاشق اعوان اور شہباز گِل جیسے بلند آہنگ ترجمانوں کو ’’خوش کلامی‘‘ کے مقابلے میں پچھاڑ دیں گے۔ عمران خان صاحب کا دل جیتنے کے لئے اگرچہ ان دنوں جو رویہ وہ اختیار کئے ہوئے وہ ان امکانات کو معدوم تر بنا رہا ہے جو ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کے حوالے سے انہیں کسی ’’قومی حکومت‘‘ نامی شے کا وزیر اعظم دکھا رہے تھے۔ ’’پیا‘‘ کی دلجوئی کے لئے مگر بہت کچھ قربان کرنا ہوتا ہے اور شاہ صاحب ویسے بھی پیدائشی’’مخدوم‘‘ ہیں۔
کشمیر کے تناظر میں قریشی صاحب نے جس انداز میں اپوزیشن رہ نمائوں کو لتاڑا وہ میرا درد سر نہیں۔ ہماری اپوزیشن بھی خود اذیتی کے عادی مریضوں کی طرح وزراء کو اپنی تبدیلی کے مواقع فراہم کرتی رہتی ہے۔ ایک عام پاکستانی ہوتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ کی طولانی تقریر کے ایک حصے نے البتہ مجھے بہت پریشان کیا۔
1960کی دہائی میں ورلڈ بینک کی سرپرستی میں پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر سے نکلے دریائوں کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا۔ 1980 کا آغاز ہوتے ہی بھارتی حکومت نے ایسے منصوبوں پر کام شروع کر دیا جو واضح انداز میں پیغام دے رہا تھا کہ پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کے ارادے باندھے جا رہے ہیں۔ بھارتی حکومت شدت سے اس تاثر کی نفی کرتی رہی۔ نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مگر بھارتی وزیر اعظم اور حکمران جماعت کے سرکردہ رہنما دھڑلے سے بڑھک لگائے جارہے ہیں کہ کشمیر سے نکلے دریائوں کا پانی ’’دہشت گردی پھیلاتے پاکستان‘‘ جانے نہیں دیا جائے گا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین دریائی پانی کی تقسیم کا جو معاہدہ ہوا ورلڈ بینک اس کا ضامن ہے۔ مذکورہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی نظر آئے تو کسی ایک فریق کی شکایت پر ورلڈ بینک ثالثی کا کردار ادا کرنے کا پابند ہے۔ منگل کے روز مگر شاہ محمود قریشی صاحب نے یہ انکشاف کرتے ہوئے مجھے حیران و پریشان کردیا کہ انہوں نے کم از کم دو مرتبہ ورلڈ بینک کے صدر کی توجہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی جانب مبذول کروانے کی کوشش کی۔ ورلڈ بینک کے صدر مگر اس ضمن میں کوئی کردار ادا کرنے کو آمادہ نظر نہیں آئے۔
شاہ محمود قریشی صاحب نے ورلڈ بینک کی جھجک (Hesitanc) کی بابت جو انکشاف کیا اس نے میرا دل دہلا دیا۔ مجھے قوی امید تھی شاہ صاحب کے بعد تقاریر فرمانے والے اپوزیشن کے سینئر حضرات اس کے بارے میں دہائی مچائیں گے۔ پاکستان کے وزیر خا رجہ کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ وضاحت سے بیان فرمائیں کہ انہوں نے ورلڈ بینک کے صدر سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی بابت رسمی (Formal) انداز میں رجوع کیا تھا یا غیر رسمی طریقے سے ان کے ارادوں کی ٹوہ لینا چاہی تھی۔ ورلڈ بینک کے سربراہ اور پاکستان کے وزیر خارجہ کے مابین سندھ طاس معاہدے کے تناظر میں جو رسمی یا غیر رسمی گفتگو ہوئی اس کے Notes وزارتِ خارجہ کے ریکارڈ میں موجود ہیں یا نہیں۔ اپوزیشن کے کسی ایک سینیٹر نے بھی لیکن اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہمارے ہاں آبادی کے پھیلائو نے ہماری زمینوں کو میسر پانی میں خطرناک حد تک کمی لائی ہے۔ دریں اثنا اگر بھارت نے ہمارے حصے کا دریائی پانی بھی روکنا شروع کر دیا تو وطنِ عزیز خوفناک قحط سالی کا سامنا کرنے کو مجبور ہوجائے گا۔ موسمیات کے ماہرین ویسے بھی مسلسل متنبہ کر رہے ہیں کہ ہمالیہ کے گلیشیر بہت تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ بارشوں کا Pattern بھی ہمارے ہاں بتدریج نمایاں انداز میں تبدیل ہو رہا ے۔ اس کی بدولت گزشتہ دو برسوں میں گندم کا بحران نمودار ہوا۔ بارانی رقبوں میں جن دنوں گندم کے سٹے کو توانائی پکڑنے کے لئے دھوپ کی تمازت درکار ہوتی ہے بے موسم کی بارش اور بسا اوقات ژالہ باری بھی ہوئی۔ ایسے حالات میں کشمیر سے نکلے دریائوں کے پانی کی بتدریج عدم دستیابی قیامت کے مناظر دکھائے گی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اگرچہ بے اعتنائی دکھاتے رویے کے ساتھ مجھے یہ اطلاع دیتے پائے گئے کہ ورلڈ بینک کے سربراہ نے سندھ طاس معاہدے کی بابت ان کی جانب سے بیان کردہ خدشات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ سوال اٹھتا ہے کہ اتنہائی جارحانہ انداز میں نواز شریف کو ’’مودی کا یار‘‘ ٹھہراتے ہمارے وزیر خارجہ سندھ طاس معاہدے کے ’’ضامن‘‘ کو اس کی ذمہ داری یاد دلانے میں کیوں ناکام رہے۔ شاہ صاحب کی ’’دل موہ‘‘ لینے والی گفتگو اور ’’روحانی قوت‘‘ سندھ طاس معاہدے کے ضمن میں اپنا جلوہ کیوں نہیں دکھاپائی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
ت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر