نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عجب شہر ڈیرہ ۔۔۔گلزار احمد

اس وقت گاو شالا کا کل سرمایہ دو آنے رہ گیا تھا اور مالی مشکلات سے دو چار تھی۔اس تنظیم نے اعلی نسل کی گائیں خریدیں اور اس کا خالص دودھ بیچ کر آمدنی بڑھا لی۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

ویسے تو ڈیرہ کی تہزیب پانچ سے سات ہزار سال پرانی ہے مگر تہزیبیں مٹ جاتی ہیں ثقافتیں تباہ ہو جاتی ہیں اس کے آثار باقی رہ جاتے ہیں۔ڈیرہ کی پرانی تہزیب کے آثار رحمان ڈھیری یا رام ڈھیری اور قلعہ بلوٹ کے مقام پر موجود ہیں۔موجودہ ڈیرہ شھر 1825ء میں تعمیر ہوا جبکہ اس سے پہلے کا کئی سو سال پرانا ڈیرہ دریا برد ہو گیا تھا۔
اس ڈیرہ کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے ۔ شھر کے جنوبی طرف فقیرنی گیٹ کے اندر ہندوں نے گاو شالہ کی بنیاد رکھی۔مقصد یہ تھا کہ بوڑھی اور ناکارہ گائیں یہاں پناہ حاصل کر سکیں اور ان کی خوراک اور رہایش کا بندوبست ہو بعد میں اس میں اعلی نسل کی گائیں بھی شامل کر دی گییں۔
یہاں ان گایوں کی دیکھبال عمدگی سے کی جاتی تھی۔ہندو چندہ دیتے ۔دکانداروں سے عطیات جمع کرتے اور ان جانوروں کی خوراک کا انتظام ہوتا۔ 1931ء میں ہندووں کی ایک تنظیم سیوا سمٹی نے گاو شالا کا چارج سنبھال لیا۔
اس وقت گاو شالا کا کل سرمایہ دو آنے رہ گیا تھا اور مالی مشکلات سے دو چار تھی۔اس تنظیم نے اعلی نسل کی گائیں خریدیں اور اس کا خالص دودھ بیچ کر آمدنی بڑھا لی۔
یہ دودھ گھروں کے علاوہ سامنے زنانہ ہسپتال بھی مہیا کیا جاتا تاکہ نوزائیدا بچے اور ان کی مائیں تازہ خالص دودھ پی کر صحت مند رہ سکیں۔ ان گایوں کے لیے دریا کے کنارے زرعی زمین لے کر گھاس اگائی گئ اور ایک چراگاہ میں روزانہ گائیں چکر لگا آتیں۔
چونکہ ہندو گاے کو مقدس سمجھتے تھے تو اس جگہ گاو استھامی میلے کا بھی انعقاد کیا جانے لگا ۔یہ میلہ پورن ماسی یعنی چودھویں رات کے چاند کی راتوں میں منعقد ہوتا اور ہندو جلوس کی شکل میں گاو شالا جمع ہوتے اور فنکشن کرتے۔جب بٹوارے کا وقت 1947ء آیا اور ہندو انڈیا جانے لگے تو اس گاو شالے کے بیل تو فروخت کر دیے گیے لیکن گائیں بچ گئیں۔
ان گایوں کو ایک ہندو بھگوان دت کی تحویل میں دے دیا گیا۔ وہ بھی اپریل 1948ء میں انڈیا جانے لگا تو ایک کسان راےزادہ کھلندا رام کے حوالے کر گیا اور اس سے تحریری اشٹام لکھوا لیا کہ وہ ان گایوں کو ڈیرہ کے جنوب ایک ہندو زمیندار جیٹھا نند کے حوالے کرے گا تاکہ اس کی زرعی زمینوں پر یہ گاییں خوراک کھاتی رہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جب بھگوان دت یہ گائیں حوالے کر رہا تھا تو اس کے الفاظ تھے۔واللہ باللہ برگردن شما ۔۔ جس کا ترجمہ انگریزی میں لکھا ہوا ہے۔
O God I entrust this to your care.
مجھے فارسی نہیں آتی لیکن اردو میں شاید اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ۔۔اللہ کے حوالے۔
یہ تمام حال میں جسونت رام کی لکھی کتاب ہمارا ڈیرہ اسماعیل خان تصویر آشیانہ1952 ء کے صفحہ 131 سے پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا مالک صرف ایک اللہ ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں آخر کار ہم سب کو اللہ کے پاس ہی پناہ ملتی ہے۔ مسلمان کتنا خوش قسمت ہے کہ دن رات سوتے جاگتے صرف اللہ کی ذات کو اپنا کارساز سمجھتا ہے اور اسی سے مدد اور پناہ حاصل کرتا ہے۔

پردیسیوں کی کشش ۔۔

میری زندگی کا یہ تجربہ ہے کہ لوگ پردیسیوں کی محبت میں جلد گرفتار ہو جاتے ہیں۔ اکثر آپ بس میں یا ٹرین میں سفر کریں یا آپ کے گاٶں میں کوئی پردیسی آ کر رہنا شروع کردے تو ایسے لوگ ہمیشہ آپ کو بہت انسپائر کرتے ہیں۔کچھ آپ کی نگاہوں کا مرکز بن جاتے ہیں۔
ایسے لوگوں کی موجودگی مسرت انگیز ہوتی ہے ۔ایسے لوگوں کی کہانیاں آپ بار بار سننا پسند کرتے ہیں۔ہر زبان میں پردیسیوں پر بے شمار گیت بنے اور شاعری کی گئی ۔ میری زندگی کا خوبصورت ترین تجربہ پردیسیوں سے محبت کا ہے۔ وہ جذبے۔وہ محفلیں۔وہ اچانک ملاقاتیں۔ وہ اچانک ایک دوسرے کا اسیر بن جانا۔ وہ رومانٹک باتیں وہ خلوص۔
وہ گستاخ نگاہیں جن کو پزیرائی ملی۔ ملنا اور بچھڑنا اور بچھڑ کے پھر ملنا ایسے موضوعات ہیں جن پر ہمارے ہاں حقیقت تو بیان نہیں کی جاتی مگر شاید افسانوں میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

About The Author