رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی یادیں کتنی ظالم ہوتی ہیں‘ اس کا آج ایک بار پھر اندازہ ہوا۔
ایف سی کالج لاہور کے 1964 کے ایک ادبی رسالے ‘فولیو‘ کے موضوعات اور مصنفین کے ناموں پر نظر پڑی۔ ایک نام پر نظر جم گئی۔ یہ نام تھا گلزار وفا چودھری کا۔
شاید 1990 کا سال تھا‘ لیہ کالج میں اردو کی کلاس پڑھنے گئے تو پتا چلا نئے پروفیسر ہمیں اردو پڑھائیں گے۔ کسی نے سرگوشی کی: لاہور سے ٹرانسفر ہوکر یہاں آئے ہیں۔ آج تیس برس بعد سوچتا ہوں‘ گلزار وفا چودھری صاحب نے لاہور میں کیا گستاخی کردی تھی جس کی سزا کے طور پر انہیں چار پانچ سو کلومیٹر دور لیہ کالج پھینک دیا گیا تھا۔ جب کوچ کا حکم ملا ہو‘ شاید انہیں بھی علم نہ ہو کہ لیہ کالج پنجاب کے نقشے میں کہاں ملے گا۔ کسی کا بھی ایسی جگہ تبادلہ کر دیا جائے تو اس کو دو تین فکریں لاحق ہوتی ہیں۔ اپنا گھر بار اور بچے چھوڑ کر اتنی دور کیسے جائے، اس کے پیچھے بیوی بچوں کا خیال کون رکھے گا، بچوں کو سکول چھوڑنا‘ لینا کون کرے گا؟ دوسرے وہ ایک اجنبی شہر میں کہاں اور کس کے پاس رہے گا؟ اخراجات کہاں سے پورے کرے گا‘ اس اجنبی شہر کے لوگ کیسے ہوں گے اور وہ کتنی جلدی واپس تبادلہ کراسکے گا؟
خیر اسی وقت ہمارے کلاس روم میں پینٹ کوٹ میں ملبوس گلزار وفا نمودار ہوئے۔ انہوں نے پوری کلاس پر ایک نظر دوڑائی۔ ہم سب تجسس سے انہیں دیکھ رہے تھے اور وہ ہم سب کو۔ ہمارے لیے یہ پہلا تجربہ تھا کہ کوئی اتنی دور سے بھی ہمیں پڑھانے آسکتا ہے۔ انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ ہم سب چپ رہے۔ انہوں نے خود ہی اردو کا کوئی ٹاپک چنا اور اس پر دھیرے دھیرے گفتگو کرنے لگے۔ عموماً ان دنوں میں ہم طالب علموں کی یہ کوشش ہوتی تھی اگر کوئی نیا پروفیسر آیا ہے تو کم از کم پہلے دن کوئی کلاس نہ ہو۔ بس تعارف میں ہی گھنٹہ گزر جائے۔ کلاسز پڑھتے ہوئے موت پڑتی تھی ان دنوں‘ لیکن بعض استاد اور ان کا انداز ایسا تھاکہ آپ کا دل کرتا‘ وہ پڑھاتے رہیں اور آپ ان سے پڑھتے رہیں۔ لیہ کالج میں جن چند پروفیسرز سے میں پڑھا اور کلاسز انجوائے کیں‘ ان میں بابر صاحب، ظفر حسین ظفر صاحب، غلام محمد صاحب، شبیر نیّر صاحب، بہادر ڈلو صاحب نمایاں تھے۔ ملتان یونیورسٹی میں مظہر سعید کاظمی اور میڈیم مبینہ طلعت ان استادوں میں سے تھے جن کی کلاس مس نہیں کرتے تھے۔ گلزار وفا چودھری صاحب اس فہرست میں نیا اضافہ تھے جنہوں نے اردو کی کلاس کو مختلف انداز میں پڑھانا شروع کیا۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ ہمارے لیہ کالج کے اردو کے لیکچررز سے مختلف تھے۔
اس سے پہلے کروڑ سکول میں ارشاد سرگانی صاحب سے میٹرک میں اردو پڑھی تھی۔ وہ بھی کمال اردو پڑھاتے تھے۔ ارشاد صاحب کبھی کبھار ہمارے گالوں پر اچانک sophisticated انداز میں اپنے تئیں دھیرے انداز میں چماٹ مارتے لیکن اس فن میں انہیں وہ مہارت حاصل تھی کہ نہ صرف گال سرخ ہوجاتے بلکہ آواز بھی دور تک جاتی۔ ایک دفعہ انہوں نے ہمارے دوست شفیق غزالی کو ایک کلاس فیلو سے اظہارِ محبت پر سزا دی جس کو یاد کرکے آج تک دکھ ہوتا ہے۔ شفیق غزالی سے کروڑ ملنے جائوں تو اس کو پڑنے والی مار کا وہ دکھ تازہ ہوجاتا ہے‘ لیکن ارشاد صاحب استاد کمال کے تھے۔نومبر سے فروری مارچ تک ان سے اردو پڑھنے کا مزہ دوبالا ہوجاتا‘ جب ان کی کرسی کروڑ سکول کے ایک بڑے گرائونڈ کے کونے میں لگ جاتی اور ہم سب نیچے ٹاٹ بچھا کر سردیوں کی دھوپ میں مست بیٹھے ہوتے۔ اس مست ماحول میں بھی ان کی گھن گرج والی آواز اور پڑھانے کا انداز ہمیں جگائے رکھنے میں مدد گار ہوتا۔ کبھی ان کا موڈ اچھا ہوتا تو لطیفہ گوئی اور شاعری سناتے۔
اور پھر گلزار وفا سے اردو پڑھی۔ وہ جس محبت سے اردو پڑھاتے، شعر سناتے اور پھر ان شعروں کی تشریح کرتے وہ اپنی جگہ ایک خوبصورتی تھی۔ ایک دن ہمیں پتہ چلا وہ تو باقاعدہ شاعر ہیں۔ یہ بڑی عجوبے کی بات تھی؛ اگرچہ لیہ کالج میں اردو کے بڑے شاعر خیال صاحب سے میں فارسی پڑھتا تھا۔ ایک درویش ملنگ ٹائپ بندہ جو کالج کے کسی کونے میں اکیلا بیٹھا اپنی دنیا میں مگن ہوتا یا پھر وہ سائیکل کو ایک ہاتھ سے تھامے پیدل گھر جاتے نظر آتے۔ کبھی وہ ہنستے تو پورا کالج ان کے قہقہے سنتا۔ وہ ہنستے تو دیر تک ہنستے جاتے اور خاموش ہوتے تو لگتا پورا جہاں اچانک خاموش ہوگیا ہے۔
ظفر حسین ظفر اکنامکس کو جدید انداز میں پوری تیاری اور محنت سے پڑھاتے تو بابر صاحب اکنامکس اتنی ہی سادہ اور عام فہم زبان میں ہمیں پڑھاتے۔ بابر صاحب دراز قد، خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ ان پر تین چیزیں جچتی تھیں: مونچھیں، ہنسی اور عینک۔ اگر کالج میں دنگا فساد کا خطرہ ہوتا تو لڑکوں کو دبکا لگانے کے لیے بابر صاحب اور سرور باجوہ صاحب ہی کام آتے۔ لالا میرو یاد ائے‘ جنہوں نے مجھے لاہور کے بڑے صحافی ہما علی کے نام سفارشی رقعہ لکھ کر دیا کہ اس نوجوان کو کسی انگریزی اخبار میں نوکری لے دو۔ ہما علی سے لاہور جا کر ملا تو لگا بازی گر کے استاد بٹھل کے لاڈلے بابر زمان سے مل رہا ہوں۔ شبیر نیّر کی نفاست ساری عمر ذہن پر سوار رہی‘ انگریزی ادب پر کمانڈ‘ لیکن میرے ذہن سے جی ایم صاحب کا بروٹس سے شکوہ آج تک نہیں بھول سکا۔ نہایت محبت سے انہوں نے ہمیں بی اے انگریزی لٹریچر میں جولیس سیزر پلے پڑھایا۔ وہ اکثر ہمیں پڑھاتے پڑھاتے دکھی ہوجاتے۔ انہیں زیادہ دکھ اس بات کا ہوتا تھا کہ سیزر کا دوست بروٹس‘ جسے وہ اپنا بیٹا سمجھتا تھا‘ وہ اس سازش میں کیوں شریک ہوا۔ میں نے جب بھی سیزر یا روم پر کوئی فلم یا سیریز دیکھی تو میری نظروں کے سامنے پروفیسر جی ایم صاحب آن کھڑے ہوئے۔ لیہ کالج کی کسی سرد دوپہر باہر کسی لان میں پڑی کرسی پر وہ ہمیں شیکسپیئر کا جولیس سیزر پڑھاتے پڑھاتے اپنی ہونٹوں پر بار بار انگلی پھیرتے اور دوسرے ہاتھ سے ڈرامہ کی کتاب ہاتھ میں پکڑے عینک کے اوپر سے جھانکتے۔ وہ گلہ کررہے ہیں کہ ٹھیک ہے سیزر سے سب کو خطرہ تھا‘ سب کو خوف تھا کہ سیزر ڈکٹیٹر بن جائے گا، روم ری پبلک نہیں رہے گی لیکن ابھی تو وہ ڈکٹیٹر نہیں بنا تھا۔ ابھی اس نے تاج سر پر نہیں سجایا تھا۔ اور بروٹس جیسا دوست بھی سازشیوں کے ساتھ مل گیا تھا تو پھر سیزر کا بروٹس سے یہ کہہ کر مرجانا ہی بنتا تھا : بروٹس تم بھی؟مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا اگر سیزر کے بعد کسی کو اس کے قتل پر سب سے زیادہ افسوس ہوا اور بروٹس پر غصہ تھا تو وہ پروفیسر جی ایم صاحب تھے۔
ابھی پچھلے دنوں لیہ کالج کے پرنسپل مزمل حسین صاحب کا فیس بک پر سٹیٹس پڑھا تو دل خوش ہوا۔ انہوں نے ایک ڈیپارٹمنٹ پروفیسر بابر صاحب کے نام سے موسوم کیا تھا۔ وہ ڈیزرو کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے انہیں بھکر کے ظفر حسین ظفر صاحب کے نام پر بھی ڈیپارٹمنٹ کا نام رکھنا چاہئے۔ ظفرصاحب نے لیہ شہر کو پوری زندگی دی، نسلوں کو پڑھایا۔ مزمل صاحب کو ظفر صاحب کو وہ عزت دینی چاہئے جس کے وہ مستحق ہیں۔
بات ایف سی کالج کے ایک 56 سال پہلے چھپنے والے ایک رسالے سے شروع ہوئی اور کہاں لے گئی۔ گلزار وفا چودھری کا نام تیس برس بعد آج پڑھا اورجو تصویر ذہن میں ابھری وہ ان کی خوبصورت مسکراہٹ تھی۔ ایسی مسکراہٹ جو آپ کو برسوں بعد بھی نہ بھولے۔ان صاحب کا شکریہ جنہوں نے بطور سزا یا جزا انہیں لاہور سے لیہ کالج ٹرانسفر کیا۔ گلزار وفا کچھ عرصے بعد لاہور تو لوٹ گئے تھے لیکن اپنے پیچھے اپنی خوبصورت مسکراہٹ اور لیہ کالج میں چار سو بکھری یادیں چھوڑ گئے جو آج تیس برس بعد اسلام آباد کے سرد،اداس اور تنہا موسم میں حد نظر بکھری دھوپ میں مجھ سے گلے ملنے لوٹ آئیں۔ مجھ سے سرگوشیاں کرنے،مجھے مزید اداس کرنے۔
یہ بھی پڑھیے:
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر