نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بی بی شہید کی قومی اسمبلی میں یادگار تقریر ۔۔۔عامر حسینی

مسلم لیگ نواز کے خواجہ آصف سمیت درجنوں اراکین پہ شدید دباؤ ہے کہ وہ مسلم لیگ ن سے ش برآمد کریں..... ناکامی ہوئی ہے تو اب پھر نیب کا شکنجہ تیز ہورہا ہے........

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی قومی اسمبلی کی چند یادگار تقاریر میں سے یہ ایک تقریر کا چند منٹ کا کلپ ہے، شہید بی بی محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1997ء میں اسٹبلشمنٹ کی مدد سے دو تہائی اکثریت لیکر آنے والی نواز لیگ اور اس کے سربراہ سمیت تمام سیاست دانوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ملک میں غیر جمہوری قوتیں اسٹبلشمنٹ اور اُن کے لے پالک وفاقی پارلیمانی نظام کو برداشت نہیں کرتے
وہ اس کی بساط لپیٹ کر اس کی جگہ صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں تاکہ وہ جو چاہیں کرسکیں اور جب اس میں ناکامی ہوتی ہے تو سیاست دانوں کی کردار کُشی ہوتی ہے اور اُن پہ ڈیلیور نہ کرنے کا، کرپٹ ہونے کا الزام لگاکر پارلیمانی سسٹم کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے……. اور اگر سسٹم نہ ختم ہوسکے تو پھر دھاندلے کرکے لاڈلے اور سلیکٹڈ کو لایا جاتا ہے جس میں پورا پارلیمانی سسٹم ربڑ سٹمپ بن جاتا ہے………
دیلھنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو پی پی پی کی قیادت کے خلاف میڈیا ٹرائل کا پُول کھول رہی تھیں، وہ چیلنج کررہی تھیں کہ جو کہانیاں خاص طور پر آصف علی زرداری اور اُن کی مبینہ کرپشن کی اخبارات اور سرکاری ٹی وی پہ روز چھاپی اور سُنائی جاتی تھیں، اُن کو ثابت تو کیا جائے….
آپ دیکھ سکتے ہیں پوری اسمبلی کی بھاری اکثریت مذاق اڑا رہی تھی (پارلیمنٹ میں پی پی پی کے پاس محض 18 اراکین اسمبلی تھے اور سب کا تعلق سندھ سے تھا) اکثر لوٹے، بکاؤ مال، ضمیر فروش 1997ء کی اسمبلی میں نواز شریف کی پارٹی میں موجود تھے اور یہ اسٹبلشمنٹ سے کہیں زیادہ جمہوری قوتوں سے نفرت کرتے تھے-
بے نظیر بھٹو جس خطرے کی نشاندہی کررہی تھیں اور جس پہ مذاق اڑایا جارہا تھا تو مذاق اڑانے والوں میں سے ہی نواز شریف کے خلاف پہلے "ہم خیال” گروپ سامنے آیا اور جب مشرف نے مارشل لاء لگایا تو اسی "ہم خیال” سے مسلم لیگ قائد اعظم بھی بنی اور ان کے ساتھ ساتھ مشرف کے حامیوں میں عمران خان بھی کھڑا تھا اور یہی عمران خان آج سب سے زیادہ لاڈلا ہے……..
نواز شریف نے 2008ء سے 2018ء تک اگر اپنے ماضی کا احتساب کرتے ہوئے بالغ نظر سیاست کی ہوتی تو آج شاید اسٹبلشمنٹ وہ سب کچھ کرنے کے قابل نہ ہوپاتی جو وہ آج بنا کسی شرم اور چھپاؤ کے کررہی ہے……..
لیکن پاکستان کی تاریخ میں پی ڈی ایم ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو اسٹبلشمنٹ کے لیے واقعی سردرد بن کر رہ گیا ہے- اور وہ پہلے دن سے نواز لیگ اور پی پی پی کے راستے جدا دیکھنے کی خواہش مند ہے……….
اسٹبلشمنٹ کی پوری تاریخ یہ بتاتی ہے جب بھی کوئی پارٹی پورے بالغانہ جمہوری شعور کے ساتھ اُس کی بالادستی اور غیر آئینی مداخلت کے عمل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی پالیسی پہ عمل پیرا ہوتی ہے تو اسٹبلشمنٹ اپنا پورا اپریٹس اُسے توڑنے، کمزور کرنے میں لگا دیتی ہے اور اُس جماعت سے "اصول پسند، آزاد، ضمیر کی آواز سُننے والے اور شخصی آمریت کے خلاف” سیاست دان تلاش کرلیتی ہے……
جیسے مسلم لیگ نواز میں سے یہ پنجاب اسمبلی کے چھے اراکین تلاش کرچُکی……. (اور بھی ہوں گے ابھی سامنے نہیں آئے)….. جیسے جمعیت علماء اسلام (ف) سے مولانا شیرانی سمیت ایسے چھے سینئر رہنما تلاش کرلیے جن کو خیال آیا کہ جے یو آئی تو بس جے یو آئی ہے یہ ف کیا ہے؟ مطلب یہ ہے اسٹبلشمنٹ کو للکارنے والا "فضل الرحمان” قبول نہیں ہے……
مسلم لیگ نواز کے خواجہ آصف سمیت درجنوں اراکین پہ شدید دباؤ ہے کہ وہ مسلم لیگ ن سے ش برآمد کریں….. ناکامی ہوئی ہے تو اب پھر نیب کا شکنجہ تیز ہورہا ہے……..
پی پی پی میں اُن کو اعتزاز احسن کا کندھا لگتا ہے میسر آجائے گا (جبکہ میں نہیں سمجھتا کہ اس عمر میں اعتزاز یہ کلنک اپنے ماتھے پہ لگانا پسند کریں گے)………
ان کو پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے اندر سے "اصول پسند، محب وطن، ضمیر کی آواز سُننے” والے سیاست دانوں کی تلاش ہے جو نااہل کو اہل اور سلیکشن کو الیکشن ثابت کریں اور جمہوری نظام کے نام پہ آمریت کو چلتا رہنے دیں…….
اسٹبلشمنٹ کا نشانہ نواز لیگ میں نواز و مریم ، پی پی پی میں زرداری و بلاول ، جے یو آئی میں مولانا فضل الرحمان، اور دیگر جماعتوں میں اسفند یار ولی، ڈاکٹر مالک، سردار اختر مینگل ہیں یہ ان سب کو تنہا کرنا، کٹ ٹو سائز کرنا چاہتے ہیں کیوں؟ یہ اُن قوتوں کو ننگا کررہے ہیں جنھوں نے پاکستان کی عوام کو طاقت کا سرچشمہ نہیں مانا اور اُن کے ووٹ کو بے عزت کیا ہے…..

یہ بھی پڑھیے:

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

About The Author