نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوئی تو زنجیر عدل کھینچے ۔۔۔ملک سراج احمد

آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے ۔آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے ۔آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے ۔آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ،زات یا نسل سے ہو ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ۔یہ الفاظ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں ادا کیئے۔نئی ریاست کی تشکیل کے وقت یہ تھا ریاست کا وہ خاکہ جو اس ریاست کے بانی کے زہن میں موجود تھا۔ریاست کی مذہب سے علیحدگی کا اصولی نقطہ قائد نے اپنی تقریرمیں بیان کرکے ریاست کے مستقبل کی وضاحت کردی۔اس کو یوں کہا جائے تو غلط نا ہوگا کہ ریاست کے اندر تمام مذاہب کے ماننے والوں کو بیٹا تسلیم کرکے ریاست کو ماں کا درجہ دے دیا ۔ جس طرح ماں اپنے بیٹوں میں تقسیم نہیں کرسکتی اسی طرح ریاست کی نظر میں ہرشہری برابر ہے۔1973 کے آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ تمام شہری برابر کے حقوق و فرائض کا حق رکھتے ہیں اور تمام شہری بلاتفریق رنگ و مذہب مساوی ہیں۔
اس سب کے باوجود گزشتہ دنوں کرک میں مہاراج پریم ہنس کا مندر اور آشرم شدت پسندوں کی شدت پسندی کی نظر ہوگیا۔قائد کے فرمان اور ملک کے آئین کو شدت پسندوں کے ایک گروہ نے اس مندر کی منہدم عمارت کے اندر دفن کردیا۔عمارتوں کے منہدم ہونے کے بعد ان کی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور ملبے سے معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ ملبہ بابری مسجد کا ہے یا پھر مہاراج پریم ہنس کا مندر ہے۔پاکستان کی مشرقی سرحد کے دونوں اطراف کچھ گروہ ایسے بس رہے ہیں جن کو اپنی ریاستوں کی نظریاتی اساس ، اپنی ریاستوں کے قانون اور آئین سے کوئی غرض نہیں ہے۔دونوں طرف جب جس کا دل کرتا ہے مذہبی شدت پسندی کی بنیاد پر مسجد یا مندر گرا دیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ریاست کیا کررہی ہے۔ریاست اتنی بے بس کیوں ہے۔کوئی سانحہ ہو جانے کے بعد ہی ریاست کیوں حرکت میں آتی ہے ۔ریاست وہ حالات کیوں پیدا نہیں کرتی جس میں قانون اور آئین کی پاسداری کے لیے زہن سازی کی جاسکے ۔ریاست سے یہ سوال بھی تو بنتا ہے کہ وہ معاملات جو ریاست کے ہاتھ میں ہونے چاہیں وہ عام لوگوں کے ہاتھ میں کیوں ہیں اور یہ معاملات ریاست اپنے ہاتھوں میں کب لے گی۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ریاست ماں کا کردار ادا کرتے ہوے اپنی زمہ داریوں کو سنبھالے اور اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے۔
بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ ریاست جہاں مذہبی معاملات پر کمزور ثابت ہوئی ہے وہاں پر سیاسی معاملات پر بھی گرفت نا ہونے کے برابر ہے۔سات دھائیاں گذرنے کے بعد بھی ملک کی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی حقوق کے لیئے جدوجہد کررہی ہیں ۔ ملک کی گیارہ سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم کے نام سے الائنس بنا کر ریاستی اداروں کو متعین کردہ آئینی حدود میں کام کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ان جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ ریاستی اداروں کا سیاسی کردار ختم ہونا چاہیے ۔اداروں کی پسند نا پسند سے ہٹ کر عوامی راے کے مطابق حکومتوں کی تشکیل ہونی چاہیے جو عوامی امنگوں کے مطابق حکمرانی کرسکیں۔
یکم جنوری کو پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ عمران خان ایک مہرہ ہے جس کے لیے جنہوں نے دھاندلی کی۔عوام پر یہ حکومت مسلط کی۔ہم اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور فوجی قیادت کو اس کا مجرم سمجھتے ہیں ہم نے تحریک کا رخ صرف مہرے کی طرف نہیں موڑنا بلکہ اس کے پیچھے کرسی والوں کی طرف بھی اس تحریک کو متوجہ رکھنا ہے۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو ڈیپ اسٹیٹ بنا دیا ہے۔
ڈیپ اسٹیٹ جیسے سنگین الزامات عائد ہونے کے بعد کیا اب بھی نیشنل ڈائیلاگ کا وقت نہیں آیا۔کیوں ضرورت محسوس نہیں ہورہی کہ ان الزامات کی وضاحت کی جائے اور ملکی سیاسی جماعتوں کی اعتماد سازی کے لیے کوششیں کی جائیں ان جماعتوں کو قومی سیاسی دھارے میں واپس لایا جائے ۔ان کے تحفظات کو دور کیا جائے اور ایسے اقدامات کیئے جائیں جس سے ملک کے رکے ہوئے نظام کا پہیہ دوبارہ سے رواں ہوسکے۔اس سارے کھیل میں شریک ہر کھلاڑی کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی انا سے بالاتر ہوکر ملک وقوم کے مفاد میں سوچنے کا وقت ہے۔حکومت اور اپوزیشن کے مابین اس جنگ میں ہار صرف پاکستانی عوام کی ہونی ہے۔
پی ڈی ایم کے مطابق حکومت کو 31 جنوری تک کی مہلت دی گئی ہے اور اس کے بعد لانگ مارچ کا فیصلہ ہوگا اور یہ بھی فیصلہ ہوگا کہ دھرنا اسلام آباد میں دیا جائے یا راولپنڈی میں دیا جائے۔ہر دوصورتوں میں دھرنا اورلانگ مارچ ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے ۔اس ضمن میں ایک ماہ کی مہلت بھی خوش آئند ہے کہ ایک ماہ کی مدت کافی ہوتی ہے جس میں بیک ڈور چینلز سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے ۔کوئی بیچ کی راہ نکالی جاسکتی ہے ۔اس تصادم کو روکا جاسکتا ہے اور اقوام عالم کے سامنے تماشہ بننے سے پہلے ہی اگر معاملات خوش اسلوبی سے سیاسی انداز میں طے ہوجائی تو اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے ۔
رہی بات ملک کی عوام کی تو حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں اور پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کا اطلاع ہو کہ جس بائیس کروڑ عوام کی نمائندگی کا آپ دعویٰ کررہے ہیں ان کے معاشی حالات بہت ابتر ہوچکے ہیں ۔مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری نے انسانی زندگیوں کو نگلنا شروع کردیا ہے۔ارباب اختیار کو اطلاع ہو کہ عام پاکستانی اب بجلی ، گیس کے بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ہنرمندان آئین وسیاست کو اطلاع ہو کہ عام پاکستانی کو اب ایک وقت کا کھانا بمشکل مل رہا ہے۔قوم کے مسیحاوں کو خبر ہو کہ عام آدمی اب بھی قابل علاج بیماریوں کے باوجود اپنی زندگی ہار رہا ہے۔صاحب دستار کو بھی علم ہونا چاہیے کہ غربت نے دستاروں کو داغدار کرنا شروع کردیا ہے۔کوئی زنجیر عدل کھینچے کہ تخت نشین آقا کو خبرہو کہ اس کی رعایا کے حالات اچھے نہیں ہیں
تحریر:ملک سراج احمد
براے رابطہ03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

About The Author