نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نئے سال کا قصد کیجئے۔۔۔رضاعلی عابدی

بس تو اس طرح کے ارادے باندھا کرتا ہوں اور زندگی چین سے گزارتا ہوں، صہبا لکھنؤی مرحوم کی طرح ۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مغرب میں یہ بڑ ی اچھی روایت ہے۔ لوگ نئے سال کے آغاز پر آنے والے برس کے لئے کوئی نہ کوئی قصد کرتے ہیں، ارادہ باندھتے ہیںیا کوئی تہیہ کرتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ قصد سب کو بتاتے بھی ہیں تاکہ نہ صر ف یہ کہ لوگ گواہ رہیں بلکہ ارادہ باندھنے والے کو ضرورت پڑنے پر ٹوک سکیں یا اس کا قصد اسے یاد دلا سکیں۔سچ تو یہ ہے کہ یہ واردات اکثر اور بارہا ہوتی ہے۔

مجھے اس سال اپنی ایک نواسی کا قصد بہت پسند آیا۔ اس نے طے کیا ہے کہ وہ اس برس اردو سیکھے گی۔اردو غریب کی جو درگت بن رہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے تو اہل زبان بھی یہ قصد کر سکتے ہیں کہ وہ اس برس اپنی اردو سنواریں گے۔ اس کی تفصیل پر ذرا دیر بعد بات کریں گے۔پہلے دیکھیں عام طور پر اور زیادہ تر لوگ کیا قصد کرتے ہیں۔اس موقع پر بے شمار لوگ سگریٹ نوشی ترک کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور حال ہی میں دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ لوگ کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔یوں بھی سگریٹ اتنی گراں کردی گئی ہے اور ہر جگہ تمباکو نوشی پر اتنی زیادہ پابندیاں ہیں کہ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی سگریٹ سے گریز کرنے لگے ہیں۔

اس کے بعد شراب نوشی کی باری ہے۔ لوگ اسے ترک کرنے کا ارادہ تو کرتے ہیں لیکن کوئی ایسی چال بھی چلنا چاہتے ہیں کہ کبھی کبھار پی لیںاور کوئی کچھ نہ کہے۔ اس میں بچت یہ ہے کہ کچھ کہنے والا خود بھی کہیں جام انڈیل رہا ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی الگ ہی اپنی برادری ہوتی ہے۔ تیسرا فیصلہ جوا نہ کھیلنے کا ہوتا ہے۔ جوا کوئی کھیل یا مشغلہ نہیں، بیماری ہے۔ جسے لگ جائے اس پر کوئی ٹیکہ یا کوئی ویکسین اثر نہیں کرتی ۔یوں بھی ہم نے کسی کو ایسا کوئی قصد کرتے نہ دیکھا اور نہ سنا۔کچھ لوگ طے کرتے ہیں کہ قرض نہیں لیں گے۔ چند ایک پیسہ بچانے کی قسم کھاتے ہیں۔ بعض لوگ اور سمجھ دار لوگ بڑے اچھے فیصلے کرتے ہیں۔مثلاً یہ کہ کتابیں پڑھیں گے۔یہ تو اس اسمارٹ فون نے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ورنہ پوری پوری قومیں کتاب پڑھا کرتی تھیںاور ہر کتاب کی دس دس لاکھ جلدیں فروخت ہوجانا عام بات ہوا کرتی تھی۔

اکثر قصد کھانے پینے اورصحت سے متعلق ہوتے ہیں۔اس سال گوشت کھانا چھوڑ دیں گے۔ بس سبزی ترکاری اور دال چاول پر گزارا کریں گے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ جن تین چیزوں کے بغیر کھانا مکمل نہیں ہوتا وہ تینوں صحت کے لئے مضر سمجھی جاتی ہیں: نمک، شکر اور تیل یا گھی۔ بازاروں میں اب ایسی اشیا کثرت سے ملنے لگی ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ ان میں شکر شامل نہیں، نمک برائے نام ہے اور تیل شرطیہ سورج مکھی یا زیتون کا ہے۔

ایک اور قصد بہت مقبول ہے۔ یہ کہ بسیار خوری نہیں کریں گے، کم کھائیں گے اور زیادہ جئیں گے۔ اس میں کافی صداقت بھی ہے اور میں خود اس کا گواہ ہوں۔آپ اگر اپنی خوراک کم کردیں اور دو کی بجائے ڈیڑھ روٹی کھائیں تو دیکھیں گے کہ معدہ تھوڑا سا اور کھانے کی فرمائش کرے گا مگرآپ سنی ان سنی کردیں تو محسوس کریں گے کہ معدہ مطمئن ہوگیا ہے۔ بس اس کے بعد وقت آرام سے کٹے گا، بڑی بڑی ڈکاریں نہیں آئیں گی، معدے میں جلن نہیں ہوگی اور سارا وجود ہلکا پن محسوس کرے گا۔ مجھے کراچی کے صہبا لکھنٔوی مرحوم ہمیشہ یاد رہیں گے۔ برنس روڈ کے علاقے میں ان کے رسالے کا دفتر تھا۔

بڑی باقاعدگی سے بیٹھتے تھے اور اکثر شاعر ادیب ان سے ملنے آیا کرتے تھے۔ صہبا صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ گھر سے تین سینڈوچ لاتے تھے۔ایک اپنے کاتب کو کھلاتے، دوسرا کسی ملاقاتی کو پیش کرتے اور تیسرا سینڈوچ خود کھاتے تھے۔ دیکھنے میں بالکل دبلے پتلے تھے مگر غضب کے پھرتیلے ۔ جب دیکھئے اپنا بریف کیس اٹھائے لپکے چلے جا رہے ہیں۔کبھی انہیں بیمار پڑتے نہیں دیکھا نہ کبھی کسی عارضے کی بات سنی۔ بس ایک بات طے تھی کہ انہوں نے اپنا وزن بڑھنے نہیں دیا۔ صہبا صاحب کے بارے میں ابراہیم جلیس مرحوم کہا کرتے تھے کہ جتنا صہبا صاحب خود چلتے ہیں، اتنا ان کا رسالہ چلنے لگے تو زندگی چین سے کٹ جائے۔ اور ان کے رسالے کے کاتب کا کہنا تھا کہ صہبا صاحب مریں گے نہیں، بس ایک دن غائب ہوجائیں گے۔ نہایت نفیس انسان تھے ۔ بہت یاد رہیں گے۔

اب عرض کروں کہ سال کے آغاز پر خود میں نے کیا عزم کیا ہے۔ مجھے یاد ہے ،ا یک برس سال کے خاتمے پر مقامی روزنامے نے ایک سروے کیا اور نام ور لوگوں سے پوچھا کہ انہوں نے یہ سال کیا کرتے ہوئے گزارا۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنی اردو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے گزارا۔اس سال بھی میرا عزم کچھ اسی طرح کا ہے۔میں نے ٹھانی ہے کہ اردو کوسنواروں گا اور تین چار کام ہرگزہرگز نہیں کروں گا۔اوّل کبھی جملہ آپ سے شروع کرکے تم پر ختم نہیں کروں گا۔ مثلاً آپ میرے گھر آؤ۔ آپ روز ورزش کیا کرو یا آپ جلدی سویا اور جلدی جاگا کرو۔مجھے خدا جانے کیوں اس لہجے سے چڑ ہے۔ دوئم یہ کہ اپنے لب و لہجے سے لیجئے کیجئے کبھی خارج نہیں کروں گا اور یوں نہیں بولوں یا لکھوں گا کہ آپ میرے گھر آئیں، آپ کتابیں پڑھا کریں۔

بلکہ مہذب انداز اختیار کروں گا کہ آپ میرے گھر آئیے یا خالی وقت میں کتاب پڑھا کیجئے۔ یہی صدیوں سے ہمارا مہذب لہجہ تھا اور آج بھی کانوں کو بھلا لگتا ہے۔اسی لئے ٹھانی ہے کہ اپنی اردو کوسنواروں گا۔ تیسرا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہ تھی مگر کر لیا کہ کبھی بے دھیانی میں یہ حماقت سر زد نہ ہوجائے۔ وہ یہ کہ جیتے جی لفظ عوام کو کبھی مونث نہیں ہونے دوں گا۔عوام کیا کہتی ہے، عوام کیا چاہتی ہے، میری زبان اور قلم سے رہتی دنیا تک ادا نہیں ہوگا۔ بہت سی باتیں گوارہ ہو سکتی ہیں مگر بد تہذیبی نہیں۔ ہماری اتنی ستھری ہوئی نفیس اور مودّب زبان ہے ۔ اسے سنوار کر رکھنے میں کسی کا کچھ نہیں جاتا بلکہ جہاں زبان نفاست سے بولی جارہی ہو وہا ں کی پوری فضا پر ایک سرشاری سی چھائی رہتی ہے۔ میں جو کہتا ہو ں کہ اردو کسی زبان کا نام نہیں،ایک پوری تہذیب کا نام ہے،یوںہی تو نہیں کہتا۔

بس تو اس طرح کے ارادے باندھا کرتا ہوں اور زندگی چین سے گزارتا ہوں، صہبا لکھنؤی مرحوم کی طرح ۔

یہ بھی پڑھیے:

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

About The Author