گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
اقتصادی و سیاسی ماہرین کا کہنا ھے کہ اگر حکمران واقعی قوم کو ترقی یافتہ بنانا چاھتے ہیں تو سب سے پہلے وہ ملک میں تعلیم۔صحت۔روزگار اور مقامی انفرا سٹرکچر پر کام شروع کرتے ہیں۔اور اگر حکمران اس کام کی تکمیل سے پہلے بُلٹ ٹرین ۔ بڑے بڑے ہائ ویز اور پُلوں۔پاور پلانٹس پر کام شروع کر دے تواس سے بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کو کافی فائدہ ہوتا ھے مگر قوم وہیں کھڑی رہتی ھے۔
آج ہم جنوبی امریکہ کے ایک ملک بولیویا کا جائزہ لیتے ہیں جس نے محنت کر کے بین الاقومی قرضوں سے نجات حاصل کی۔بولیویا ایک کروڑ اسی لاکھ آبادی کا ایک ملک ھے جو چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ھے۔ ملک کے ساتھ کوئی سمندر نہیں ۔
اس کے اردگرد برازیل۔چلی۔ارجنٹینا۔پیرو۔اور پیراگوۓ کے ممالک واقع ہیں۔ یہ ملک بھی پاکستان کی طرح IMF اور ورلڈ بنک کے قرضوں میں جکڑا ھوا تھا۔2015 کے آخر تک بولیویا پر 15736 ملین ڈالر کے قرضے تھے جو جی ڈی پی کا 46.2 فی صد بنتے ہیں۔
اُس وقت بولیویا کا ہر شخص 1445 ڈالر کا مقروض تھا۔ آئ ایم ایف اور ورلڈ بنک کا قیام 1944 میں عمل میں لایا گیا تھا اور یہ دنیا کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے لگا۔یہ دونوں بنک کسی ملک کو قرضہ دینے سے پہلے اس ملک کی معیشت کے ڈھانچے کو ڈی ریگولیٹ کروانے اور سادگی کے اقدامات کروانے کی شرطیں منواتے ہیں جس سے عام لوگ اور مزدور بُری طرح متاثر ھوتے ہیں۔
مہنگائ بڑھتی ھے کرنسی کی قیمت کم ھوتی ھے۔ان شرائط کے بعد یہ بنک ایک بڑا پیکج دے دیتے ہیں تاکہ وہ ملک اپناخرچہ اور پرانے قرضوں کی قسطیں واپس کرے۔ بولیویا پر بھی نجکاری اور سادگی کی شرائط عائد تھیں جس سے غربت بڑھ رہی تھی اور دولت ملک سے باھر جارہی تھی۔جب وہاں 2000 میں واٹر سپلائ کی نجکاری ھونے لگی تو لوگوں نے خوب مزاہمت کی اور نجکاری رُک گئی۔
2015 کے الیکشن میں وہاں Evo Morale…صدر منتخب ہوتا ھے اور 2016 کے شروع میں صدر کا عہدہ سنبھالتا ھے۔(آجکل یہ صدر نہیں ) صدر موریل نے ایک سال کے اندر تیل اور گیس کی صنعت کو بہتر بنا لیا اور اس سے جو رقم حاصل ہوئ اس کو غربت مٹانے پر خرچ کیا۔
موریل نے تیل اور گیس کمپنیوں سے کہا کہ وہ اپنے منافع کا 82 فی صد حکومت کو دیں جو غربت مٹانے پر خرچ ھو گا۔اسی طرح موریل نے ہیڈرو کاربن کے منصوبے بھی قومیا لئے۔ اس نے صحت ۔تعلیم اور غربت مٹانے کی سرگرمیوں پر 45 فی صد بجٹ زیادہ کر دیا۔
جس سے غربت 60 % سے کم ھو کر 40 % رہ گئی۔ تعلیم پر 14 % بجٹ خرچ کرنا شروع کیا تو ان پڑھ لوگوں کی تعداد 13 % سے کم ہو کر 3 % ھو گئی۔جی ڈی پی 5 % سالانہ کے حساب سے بڑھتی رہی کم سے کم تنخواہ چار گنا زیادہ کی اور بجٹ کا بڑا حصہ لوکل انفرا سٹرکچر۔توانائی ۔
رسل و رسائل اور صنعتوں کے فروغ پر خرچ کیا۔ 2018ء میں موریل نے اعلان کیا ک اب بولیویا IMF اور ورلڈ بنک کے قرضوں سے مکمل چھٹکارہ پا چکا ھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان ایجنسیوں پر بولیویا کا انحصار اتنا بڑھ گیا تھا کہ IMF نے گورنمنٹ ہیڈ کوارٹر میں ایک آفس بنا لیا تھا اور حکومت کی میٹنگوں میں شریک ھوتے تھے ۔
موریل نے کہا اب ہم سیاسی اور اقتصادی آزادی حاصل کر چکے ہیں اس لئے اب کوئی ہمیں بلیک میل نہیں کر سکتا۔بولیویا نے بین الاقوامی بنکوں کے کارٹل کا بھی خاتمہ کر دیا جو اس ملک میں کام کر رھے تھے۔
اس کے علاوہ کئیی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملک سے باھر نکال دیا اور امریکہ کی وار آن ڈرگ سے بھی نکل گیا۔ بولیویا نے دنیا پر ثابت کر دیا ھے کہ کوئی قوم کتنی بھی غریب کیوں نہ ھو مسلسل محنت اور ایماندار قیادت کے ساتھ تمام قرضے اتار سکتی ھے۔
آج پاکستانی قوم بھی اس کراس روڈ پر کھڑی ھے ایک راستہ مسلسل محنت ۔استقلال۔صبر اور آگے بڑھنے کا ھے دوسرا راستہ تاریکی اور غلامی کا ھے اگر آج ہم متحد ہو کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیں تو ہم بھی انشا ء اللہ قرضوں سے نجات پا سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک قابل فخر ورثہ کہلا سکتے ہیں۔
اس وقت پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ایک سو بلین ڈالر ھے اور یہ مسلسل بڑھ رہا ۔کرنسی کی قیمت کم ہو رہی ھے جس سے قرضے راتوں بڑھ جاتے ہیں ۔ بیڈ گورنس نے ایک اچھ بھلے مضبوط ملک کو اس حالت تک پہچایا ھے ۔
پاکستان کی سڑکوں کو جو ٹھیک ٹھاک تھیں کھود کر ہر سال نیا بنایا جاتا ھے تاکہ کرپشن کا کاروبار چلتا رھے۔ہمیں قرضے لےکر میٹرو ۔بی آر ٹی ۔اورنج ٹرین بنانے کی کوئ ضرورت نہیں تھی مگر پیسہ کمانے کے لئے سفید ہاتھی پالے گئے ۔
میرے سامنے مری روڈ کو ہر دو سال کے بعد تین دفعہ کھودا جاتا رہا۔ حکومت جو بھی ملٹی نیشنل کارپوریشن پر ٹیکس لگاتی ھے وہ آخر کار عوام کو ادا کرنا پڑتا ھے۔ ہمارے سونے ۔تانبے۔ماربل۔کوئلہ۔تیل۔گیس کے ذخائر سے کیا ملتا ھے اور کن شرائط پر ملتا ھے راوی خاموش ھے۔ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی قرضوں سے نجات ملے آمین
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر