رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواجہ آصف سے پہلا تعارف 2002 ء کے الیکشن کے بعد ہوا تھا جب میں نے پارلیمنٹ میں رپورٹنگ شروع کی۔ نیا نیا شوق‘ نیا نیا جذبہ‘ جن بڑے بڑے سیاستدانوں کے نام سنتے تھے اب ان سے دعا سلام شروع ہوئی۔صحافی کا نیچرل الائنس اپوزیشن کے ساتھ بنتا ہے ‘لہٰذا میرے تعلقات اپوزیشن ہی سے رہے۔ وہی اپوزیشن کے دوست جب حکومت میں گئے تو انہی سے بیر پڑگیا۔
اُس پارلیمنٹ میں بڑے پائے کے مقرر تھے جن کی تقریروں سے بہت کچھ سیکھا اور خود کو گروم کیا۔ ان میں چوہدری نثار علی خان‘ خواجہ آصف‘ جاوید ہاشمی‘ محمود خان اچکزئی‘ نواب یوسف تالپور‘ اعتزاز احسن‘ لیاقت بلوچ‘ فرید پراچہ‘ حافظ حسین احمد‘ ثنااللہ بلوچ کے ساتھ سعد رفیق جیسے نوجوان بھی شامل تھے۔خواجہ آصف کی تقریروں نے آگ لگائی ہوئی تھی۔ جب بولتے تو ہاؤس لرزتا ہوا محسوس ہوتا۔
میں خود ان کی تقریروں کا مداح بن چکا تھا۔ ایک دن خواجہ صاحب نے دل کو چھو لیا جب انہوں نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا کہ وہ اپنے باپ کے اس فعل پر قوم سے معافی مانگتے ہیں کہ انہوں نے جنرل ضیاکا ساتھ دیا۔ میرے لیے یہ بڑا ایکٹ تھا‘ ہمارے ہاں یہ رواج نہیں کہ کوئی اپنے باپ کی کسی بات کو غلط مانے اور سرعام معافی مانگے۔ میری خواجہ آصف سے دعا سلام شروع ہوئی۔ وہ اور چوہدری نثار علی خان اکٹھے پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں پائے جاتے۔ دونوں کے تعلقات پچھلے ادوار سے صحافیوں سے اچھے تھے‘ لہٰذا کیفے ٹیریا میں خوب محفلیں جمتیں۔
خواجہ آصف اکثر کہتے تھے کہ پرویز مشرف کے چیئر مین نیب جنرل (ر)امجد نے دو لوگوں کی گرفتاری پر معذرت کی تھی کہ انہیں غلط اٹھایا گیا ۔ وہ اُس وقت نج کاری کے وزیر تھے‘ ان کے آفس کی تلاشی لی گئی لیکن کسی فائل سے کچھ نہ ملا۔ اس پر خواجہ آصف اور پی آئی اے کے ایک ٹوانہ صاحب کو رہا کر دیا گیا اور ساتھ ہی چیئرمین نیب نے معذرت کی ۔
خواجہ صاحب اس بات کا کریڈٹ لیتے کہ سینکڑوں لوگوں کو نیب نے اٹھایا لیکن معذرت صرف ان سے کی گئی ۔ خواجہ صاحب کے بقول ان کی زندگی کا مشکل مرحلہ وہ تھا جب ان کی بیٹی‘ جو امریکہ میں پڑھ رہی تھی‘ پاکستان سے روانگی سے قبل ان سے ملنے آئیں اور انہوں نے بڑی منتیں کیں کہ بیٹی کو ملنے دیا جائے لیکن اجازت نہ دی گئی۔ خیر پھر دور جالیوں سے ہی انہوں نے بیٹی کو آنسو بھری آنکھوں سے ہاتھ ہلا کر رخصت کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین لمحہ تھا۔
انہی دنوں میں نے اُس وقت کے نیب چیئرمین جنرل (ر)امجد کے حوالے سے ایک سکینڈل فائل کیا کہ کیسے ایک سرکاری شوگر مل ان کے دوست کو اونے پونے بیچی گئی۔ امجد صاحب اس معاملے پر مجھ سے ملاقات کے خواہاں تھے۔
خواجہ آصف نے وہ خبر پڑھی ہوئی تھی۔ انہیں پتہ چلا کہ میں نے ان سے ملنے جانا ہے تو کہنے لگے: آپ ان سے ایک سوال کرسکتے ہیں؟ میں نے کہا جی بتائیں‘ کہنے لگے :ان سے پوچھیں آپ نے خواجہ آصف سے معافی کیوں مانگی تھی؟ میں نے کہا :اچھا سوال ہے پوچھ لوں گا۔ کہنے لگے: اگر انہوں نے یہ بات آپ کو بتادی اور چھپ گئی تو وہ نیب اور امجد صاحب پر مقدمہ کریں گے کہ انہیں بے قصور اٹھایا گیا‘ بدنام کیا گیا اور ان کی فیملی نے بے پناہ ذہنی اور ایموشنل تشدد کا سامنا کیا۔
خیر‘ میری جنرل (ر)امجد سے ملاقات ہوئی۔ مجھے ناراض ہو کر کہنے لگے کہ آپ کی اس خبر کی وجہ سے میری پینتیس برسوں کی ساکھ خراب ہوگئی۔ میں نے کہا: سر آپ کی ساکھ بس اتنی تھی کہ وہ ایک سکینڈل کا بوجھ نہ سہہ سکی؟ امجد صاحب کچھ دیر بعد مجھ سے پوچھنے لگے: جو نقصان ہونا تھا ہوگیا‘ اب بتائیں اس کا ازالہ کیسے کیا جائے؟ میں ہنس پڑا اور کہا: سر جی میرا کام ازالہ کرنا نہیں‘ خبر دینا ہے۔
خیر اس دوران میں نے ان سے پوچھ لیا کہ انہوں نے خواجہ آصف سے معذرت کی تھی کہ انہیں غلط گرفتار کیا گیا؟جنرل امجد نے کہا :جی بالکل خواجہ آصف کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی انہیں غلط پکڑا گیا تھا۔میں نے وہ خبر فائل کر دی۔ کچھ دن بعد پارلیمنٹ ہاؤس میں خواجہ آصف مل گئے۔ میں نے کہا: سر جی کب نیب پر کیس کررہے ہیں؟ ان کا اچانک موڈ بدلا اور مجھ پر برس پڑے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ آئندہ ایسی بات نہ کیجئے گا۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔
یہ توقع نہ تھی کہ وہ اچانک بھڑک اٹھیں گے۔ اس واقعے کو تیرہ ‘چودہ برس گزر چکے ہیں اس کے بعد کبھی خواجہ آصف سے بات کی نہ ہاتھ ملایا۔ مجھے اُس دن احساس ہوا کہ یہ سیاستدان لوگوں کو استعمال کرتے ہیں اوراپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں‘ خواجہ صاحب کو مجھ میں دلچسپی تھی کہ میں وہ سوال پوچھوں اور وہ اس خبر کو ہمیشہ کیلئے ریفرنس کے طور پر استعمال کریں کہ چیئرمین نیب نے معافی مانگی تھی۔ ان کا نیب پر مقدمے کا کوئی پلان تھا ‘نہ ہی جرأت تھی۔ جونہی وہ کام ہوگیا خواجہ آصف نے ایک سیکنڈ میں رنگ بدل لیا‘ جس کا مجھے اب تک افسوس ہے۔
خواجہ آصف پر اب بھی کرپشن کے الزامات نہیں تھے۔ وہ ابھی اسمبلیوں میں کھڑے ہو کر ہائی مورال گراؤنڈ پر سٹینڈ لے کر خوبصورت تقریر کرسکتے تھے‘تاہم خواجہ صاحب یہ احساس نہ کرسکے کہ عزت‘ رعب‘ دبدبہ بنانا بہت آسان ہے لیکن اسے عمر بھر دونوں ہاتھوں سے تھامے رکھنا بہت مشکل۔
شاید خواجہ صاحب بھی اپنے اردگرد لوگوں سے متاثر ہوئے کہ سب مایا ہے۔ان کا پہلا سکینڈل آیا کہ انہوں نے وزیر ہوتے ہوئے د بئی کی کمپنی میں نوکری کی تھی جہاں سے انہیں سولہ لاکھ روپے تنخواہ مل رہی تھی۔
اس پر انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نااہل قرار دیا لیکن وہ سپریم کورٹ سے بحال ہو گئے۔ خواجہ صاحب بھی اب اسی رنگ میں رنگے گئے جن کے نزدیک کرپشن کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس لیے پانامہ پر کہا کہ میاں صاحب پریشان نہ ہوں لوگ پانامہ جلد بھول جائیں گے۔
وہی خواجہ آصف جن کی پارلیمنٹ آمد اور نام سے بینظیر بھٹو اور زرداری دہل جاتے تھے کہ وہ ان کی کرپشن کہانیاں ایسے انداز میں پیش کرتے کہ پیپلز پارٹی کی چیخیں نکلتیں‘ وہ اب پارلیمنٹ سے گھبرانے لگے کہ اب مراد سعید جیسا نوجوان اسی انداز میں الزامات ثبوتوں کے ساتھ لہراتا تھا جیسے نوے کی دہائی میں خواجہ صاحب آصف زرداری کی کرپشن کے پلندے لہراتے تھے۔اب نیب کی پریس ریلیز میں بتایا جارہا ہے کہ ان کے پاس اتنی دولت ہے جس کا حساب ان کے اپنے پاس بھی نہیں۔ کروڑوں روپے نقد بینکوں میں اور جائیدادیں ۔
مجھے کبھی کبھی خود پر افسوس ہوتا ہے کہ میرے پارلیمنٹ کے دنوں کے سیاسی ہیروز ایک ایک کر کے گرتے گئے۔ محمود خان اچکزئی سے رومانس ہوا کہ چلیں کوئی باغی تو ہے جسے اقتدار اورکرسی سے غرض نہیں اور دبنگ بات کرتا ہے‘ لیکن پتہ چلا کہ اس باغی کی قیمت ایک گورنری اور دو تین خاندان کی مخصوص سیٹیں تھیں۔ وہ رومانس ختم ہوا۔
چوہدری نثار سے بھی رومانس تھا کہ وہ اپنی اَنا اور وقار پر سمجھوتہ نہیں کرتے لیکن جس دن انہوں نے اپنی وزارت بچانے اور نواز شریف کو خوش کرنے کیلئے اعتزاز احسن کی جانب سے اپنے مرحوم بھائی جنرل(ر) افتخار پر ذاتی حملوں پر خاموشی اختیار کی وہ بھی افسوسناک منظر تھا۔
رہی سہی کسر خواجہ آصف نے پوری کر دی ہے کہ وہ جس دھڑلے سے ہاؤس میں کھڑے ہوتے وہ سب وقار اور مورال گراؤنڈز ختم ہوگئیں۔ہوسکتا ہے خواجہ آصف رہا ہو کر دوبارہ ہاؤس میں تقریریں کریں لیکن شایداب وہ گھن گرج نہ ہو۔ ممکن ہے وہ گھن گرج آج بھی ہو لیکن ان کے لفظوں میں اب تاثیر نہیں ہوگی۔
ان برسوں میں کتنا کچھ بدل گیا۔ اب شاید خواجہ آصف سے اس طرح کوئی معذرت بھی نہ کرے جیسے امجد صاحب نے کی تھی اور شاید خواجہ آصف بھی مجھے کبھی نہ کہہ پائیں کہ” یار میرا سوال تے چیئرمین نیب توں پچھ لینا ذرا‘‘۔
یہ بھی پڑھیے:
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ