نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آئی ایم کریمہ بلوچ۔۔۔عزیز سنگھور

ٹورانٹو میں مقیم بلوچ صحافی، حنا ماہ گل رند سے میری اکثر بات ہوتی ہے۔ انہوں نے کریمہ کے حوالے سے مجھے بتایا کہ کریمہ بلوچ خودکشی کر نہیں کرسکتی۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میں کریمہ بلوچ ہوں میری باری کب آئیگی” جیسی پوسٹوں کی سوشل میڈیا پر بھرمار ہوگئی۔ ہر بلوچ بیٹی، کریمہ بلوچ کے قتل پر سوگوار ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ان پوسٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ سماج میں شہادت کو ایک رتبہ حاصل ہے۔

بلوچ حلقوں کے مطابق کریمہ بلوچ کی موت ایک افسوسناک عمل کے ساتھ ساتھ ایک جرات و بہادری کی علامت بھی ہے۔ اس بہادری اور جرات کو ہر کوئی قبول کرنے کے لئے تیار ہے۔ کیونکہ شہادتیں تحریک میں ایک نئی جان و طاقت ڈالتی ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کی سابق چیئر پرسن کریمہ بلوچ کی لاش 21 دسمبر کو کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں ایک جزیرے کے پاس پانی میں ملی۔ جس نے پاکستان سمیت دنیا کو جنھجوڑ دیا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سرابرہ سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی موت میں یہاں کی ایجنسیوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ بلوچ قوم پرست رہنما نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ کریمہ بلوچ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے والے ہی قتل کے ذمہ دار ہیں۔

سیاسی حلقے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کریمہ بلوچ کی شہادت کو دوسرا بڑا سانحہ قرار دیتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو شہید رانی کا لقب دیاگیا جبکہ کریمہ بلوچ کو شہید بانوک (شہزادی) کا لقب دیا جارہا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچ تحریک میں بزرگ رہنما نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔
اس وقت سوشل میڈیا پر دو لڑکیوں کی آنکھوں کا چرچا ہے۔ ایک بھوری آنکھوں والی کریمہ بلوچ دوسری سبز آنکھوں والی شربت گُلہ ہے۔ جب افغان جنگ پر مغربی میڈیا کا فوکس تھا اور مہاجر افغان لڑکی کی سبز آنکھوں نے اسے افغان مونالیزا کا خطاب اور ٹائم میگزین کا کور بنوا دیا تھا۔

دونوں کی آنکھیں خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں دکھ بھری کہانیاں تھیں۔ شربت گُلہ کی آنکھوں میں جنگ سے تباہی اور دربدر کی ٹھوکریں تھیں۔ جبکہ کریمہ بلوچ کی آنکھوں میں مسخ شدہ لاشیں، لاپتہ افراد، ٹارچر سیلیں، ناانصافی اور جبر کا آئینہ تھا۔

میری ملاقات کریمہ بلوچ سے کراچی پریس کلب کے باہر تادم مرگ بھوک ہڑتال میں ہوئی تھی۔ وہ مجھ سے لالا عزیز (عزیز بھائی جان) کے نام سے مخاطب ہوتی تھی۔ وہ کم عمری میں نظریاتی طورپرپختہ تھی اور ان میں اسٹوڈنٹ لیڈر شپ کی تمام خوبیاں تھیں۔

بی ایس او کے گمشدہ چیئرمین زاہد بلوچ کی بازیابی کے لیے پریس کلب کے باہرتادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ کے انتظامات کی ذمہ داری کریمہ بلوچ کررہی تھی۔ کریمہ کے مطابق زاہد بلوچ کو مبینہ طور پر کوئٹہ سے فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔ زاہد کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے باہر ہی بی ایس او کے مرکزی رہنما لطیف جوہر نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کی تھی۔

لیکن 46 روز کے بعد بلوچ قیادت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل پر انھوں نے بھوک ہڑتال ختم کردی تھی۔واضع رہے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نےاس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی اپیل پر بھی بھوک ہڑتال ختم کرنے سے انکار کردیا تھا۔بھوک ہڑتال ختم کرنے کے بعد لطیف جوہر اور کریمہ بلوچ روپوش ہوگئے اور کینیڈا میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔

کریمہ بلوچ کے قتل کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلسہ جاری ہے۔ بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخواہ، جنوبی پنجاب سمیت دنیا کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا جارہا ہے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا ہم کریمہ بلوچ کے حوالے سے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ ان کی موت حادثاتی تھی یا انہوں نے خودکشی کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بلوچ سیاسی پناہ گزین اپنے حقوق کے لیے جلاوطن ہیں وہ باہر اس لیے نہیں گئے ہیں کہ وہاں جاکر خودکشی کریں۔رہنماؤں کا کہنا تھا بانک کریمہ کا قتل ایک بین الاقوامی سازش ہے جس کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات ہونی چاہئے۔

رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ جب تک بانک کریمہ کے قتل کی عالمی سطح پر شفاف تحقیقات نہیں ہوتی ہمارے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ٹورانٹو میں مقیم بلوچ صحافی، حنا ماہ گل رند سے میری اکثر بات ہوتی ہے۔

انہوں نے کریمہ کے حوالے سے مجھے بتایا کہ کریمہ بلوچ خودکشی کر نہیں کرسکتی۔ کیونکہ وہ اعصابی حوالے سے ایک مضبوط لڑکی تھی۔ سیاسی سوج بوجھ رکھنے والی ایک نظریاتی لیڈر تھی۔ ٹورانٹو میں کریمہ بلوچ ان کے گھر بھی جایا کرتی تھی۔ حنا ماہ گل رند بلوچ مارکسسٹ لیڈر لالا لعل بخش رند کی بھتیجی ہے۔ وہ آج کل ٹورانٹو کی ایک یونیورسٹی میں ماسٹرز کررہی ہے۔

کریمہ بلوچ کے علاوہ دو اور بلوچوں کی موت بیرونی ملک میں ہوئی ان کا اب تک معمہ حل نہ ہوسکا جن میں ساجد حسین بلوچ اور عارف بارکزئی شامل ہیں۔
سویڈن میں بلوچ صحافی، ساجد حسین بلوچ لاپتہ ہونے کے لاش ملی تھی۔ کریمہ بلوچ کی طرح ساجد حسین بلوچ کی لاش بھی پانی سے نکالی گئی تھی۔ ساجد بلوچ کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے نظر آباد تھا۔ساجد حسین کراچی میں انگریزی اخبار دی نیوز سے منسلک تھے۔

جبکہ وہ سویڈن میں شفٹ ہونے کے بعد وہ آن لائن اخبار بلوچستان ٹائمز کے ایڈیٹر اِن چیف بن گئے۔ ساجد بلوچ سے میری پہلی ملاقات، تاریخ دان اور مصنف اختر بلوچ کے دفتر میں ہوئی تھی جب ان کا تعلق صحافت سے نہیں تھا بلکہ وہ کراچی میں طالعبلم تھے۔ اور فارغ اوقات میں اختر بلوچ کے دفتر میں کام کرتے تھے۔

ساجد حسین سویڈن کی اپسالہ یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہے تھے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہی ہے کہ وہ جس دن اپنے ہاسٹل کے کمرے میں منتقل ہوئے، اسی دن لاپتہ ہو گئے اور بعد میں ان کہ لاش ملی۔

اسی طرح بی ایس او کے سرگرم رکن عارف بارکزئی کی پراسرار موت ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ایک اسٹوڈنٹ ہاسٹل میں ہوئی تھی۔ وہ 10 جنوری، 2008 کو اپنے ہاسٹل کی 11ویں منزل سے گر کر موت کا شکار ہوئے۔ عارف بارکزئی کا تعلق کراچی کی قدیم علاقے لیاری سے تھا۔ اور اس کا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے تھا۔

بلوچ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کریمہ بلوچ کے قتل میں گینگز اور سیاسی گروہ کے کارندھوں کے استعمال ہونے کے پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کریمہ بلوچ کے قتل میں امرتسرگروہ کے ملوث ہونے کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بلوچ سیاسی حلقوں کا مزید کہنا ہے کہ اس گروہ کو ماضی میں بھی سرپرستی حاصل تھی اور آج بھی سرپرستی حاصل ہے۔

آج کل کینیڈا میں اس گروہ کی دوسری بڑی آبادی ہے۔ اور کینیڈا کی سیکنڈ لینگویج بھی ہے۔ اس معمہ کو حل کرنے کے لئے اس پہلوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب۔۔۔عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ ،روزنامہ آزادی، کوئٹہ

About The Author