گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
ہیرا جب اندرون ِ شہر سے اپنے گھر سے نکلا تھا تو اس کے دل میں محبت کی نئی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔جیسے ہی وہ سول ہسپتال کے قریب پہنچا تو شیشم کے قدیمی درختوں کی قطاروں پرلالیاں، قمریاں اور کوئلیں اپنی مخصوص بولیوں میں ایک دوسرے کو پُکار رہی تھیں۔جب آگے بڑھا اور کھیت شروع ہوئے توجنگلی کبوتروں کی ڈار اردگرد کے کھیتوں میں کیڑے مکوڑے چُگنے کے لیے اُتر رہے تھے۔ ایسے میں کہیں کہیں نر،مادہ کی طرف پوری گرم جوشی کے ساتھ دیوانہ واربڑھتے تو غٹرغوں سے قرب وجوارکے رقبے کو بھی منظر کیش بنادیتے۔
شہتُوت کی شاخوں پر کچی کونپلیں نئی زندگی کی نوید سنارہی تھیں اور کھیتوں میں پھیلا ہرا سبزہ آنکھوں میں تازگی بھر رہاتھا۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ ماں اور دادی کی گود میں سر رکھ کر شہزادے اور شہزادیوں کی کہانیاں سننے والا ” ہیرا” اب خود "پارو ” جیسی شہزادی کی زلفوں کا اسیر ہو چکا تھا اور اسی کشش کی بنا پر اس کے قدم خود بخود تیز تیز خانہ بدوش بستی کی طرف بڑھ رہے تھے۔
زندگی میں بعض ادوار و مقامات ایسے آتے ہیں جہاں سے زندگی ایک بار پھر نیا جنم لیتی ہے۔ ہیرا کے لیئے اتاڑ ہی وہ مقام تھا جہاں سے اس کی زندگی نیا جنم لے رہی تھی۔
پارو کو دور سے "ہیرا ” آتا دکھائی دیا۔ جلدی سے اپنی جگہ چھوڑ کر کونے میں جا کے ٹھہر گئی اور کن انکھیوں سے ہیرا کو دیکھنے لگی۔ نزدیک آنے پر وہ ہیرا کے چہرے پر چھائی خوشی کو محسوس کرنے لگی۔ہیرا کے سرخ گال، چھریرا بدن، مضبوط بازو اور اٹھا ہوا ببرشیر جیسا سینہ ہیرا کے لیے قدرت کے انمول تحفے تھے۔
ہیرا کی داڑھی اور مونچھ کے بال بھورے سے کالے ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ہیرا نے پارو کو سلام کیا۔ پارو نے اسے آنکھ کا اشارہ کیا کہ وہ سامنے میرا بابا کام کر رہا ہے جاؤ اس کو مل لو۔
ہیرا چاچے شیرو کے قریب آیا جو ایک چق کے کانوں کو رنگین دھاگے سے بن رہا تھا۔ سلام کیا۔ شیرو نے گردن گھما کر جواب دیا اور سوالیہ انداز سے دیکھنے لگا۔۔ چاچا میرا نام ہیرا ہے میں اندرون شہر رہتا ہوں اور آپ کا شاگرد بن کر یہ فن سیکھنا چاہتا ہوں۔ شیرو مسکراتے ہوئے کہنے لگا! بیٹا ہیرا، کوئی بھی فن ہو اسے چھوٹی عمر سے ہی سیکھنا پڑتا ہے اور ویسے بھی تم شہری ہو اور اوپر سے سکول کے طالبعلم۔ یہ چقیں بنانا بڑا "اوکھا”کام ہے،
کانے اور کوندر چھیلتے ہوئے ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں، تمہارے ہاتھ لہو لہان ہو جائیں گے۔ تم ٹھہرے "ملوک” اور یہ کام بڑا سخت ہے۔ تمہارے بس کا نہیں۔۔ نہیں نہیں چاچا شیرو میں ضرور سیکھوں گا۔ اچھا "پتر ہیرا” ایسا کرنا کہ صبح سکول کے بعد شام کو آجایا کرو،
تمہیں یہ ہنر بھی سکھا دیا کروں گا اور تم آ کر چقوں کی لمبائی چوڑائی اور ماپ وغیرہ چقوں کے سرے پہ لگے کپڑے پر لکھ دیا کرو اس طرح ہمیں بیچنے میں بھی آسانی ہو گی۔ لیکن پتر ہیرا یاد رکھنا شیرو کے اس عارضی خیمے میں غربت، غیرت اور عزت کے علاوہ کوئی اور اثاثہ نہیں۔اس نے ہیرے کو ایک فیتہ دیتے ہوئے اور چق کو کھول کر، زمین پر بچھا کر سمجھانے لگا کہ ماپ کس طرح لیتے ہیں۔
جا پتر ہیرا وہ سامنے تیار چقیں پڑی ہیں انکے ماپ لے کر ان کی سائزیں لکھ لے۔ ہاتھ میں فیتا پکڑے ہیرا سامنے پڑی چقوں کی طرف پیمائش لینے چل پڑا۔ لپٹی ہوئی گول چق کو کھول کر پیمائش لینے لگا۔ ہیرا کو بہت مشکل ہو رہی تھی کبھی فیتا ہاتھ سے گر جاتا کبھی چق آگے پیچھے ہو جاتی۔
پارو نے جب ہیرا کو مشکل میں دیکھا تو اس کے پاس آ کر کہنے لگی چلو فیتا مجھے دو میں تمہاری مدد کرتی ہوں۔ پارو اتنی قریب آ گئی کہ اس کی سانس کی آواز بھی ہیرا کو سنائی دینے لگی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کوئی محبت سے آشنا ہو جائے تو الفاظ مدھم سانسوں میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔
ہیرا کے تن بدن میں ست رنگے جذبوں کی بارش نے جل تھل مچا دی اور اس کو اپنے بدن میں بجلی کی سی لہریں انگڑائیاں لیتی محسوس ہوئیں۔ پارو حسن اور دلکشی کا مجسم پیکر بن کر اس کے ساتھ ٹھہری تھی۔ اس کی باتیں ہیرا کو خوش بو کی طرح محسوس ہو رہی تھیں۔ پارو کے رسیلے ہونٹ ایسے محسوس کر رہا تھا جیسے قضا ٹھہر گئی ہو،
اجتنا اور الورا کی مورتیں رقص کرتے ہوئے ہیرا کو نظر آنے لگیں۔ پارو کی باتوں خوئے دلنوازی، ادائے دلبری، پریم کی دھارا اورتوجہ کی رم جھم تھی۔ پارو کی باتوں کے دوران ہیرا کے اپنے من کے ہزاروں عکس ٹوٹ اور بن رہے تھے۔
پارو کے ساتھ ہیرا کا گزرتا ایک ایک لمحہ تسکینِ قلب کا باعث بن رہا تھا۔ ہیرا نے عمر کے اس حصے میں ” محبت "جیسے تجربے سے گزرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ہیرا نے پارو کی مدد سے تمام چقوں پر پیمائشیں لکھ لیں اور کام مکمل کرنے کے بعد چاچا شیرو کے پاس آیا۔
چاچا کام مکمل کر لیا ہے اور تمام چقوں کو پیمائش اور ڈیزائن کے مطابق لپیٹ کر بھی رکھ لیا ہے۔ چل بیٹھ پتر ہیرا دیکھ میں کس طرح کانوں کو یکجا کر کے ایک ترتیب میں رکھتے ہوئے دھاگوں سے جوڑتا ہوں۔
چاچا شیرو کام کرتا رہا، ہیرا بڑے انہماک اور غور سے ایک ایک عمل دیکھتا رہا اور الٹے سیدھے ہاتھ مار کر ہاتھوں کو خراشیں ڈال بیٹھا۔ تھوڑی دیر چاچے شیرو نے آواز دی، پارو بیٹا! مجھے اور ہیرا کو چائے تو پلا دے۔
پارو جو ایک کونے میں مٹی کے "پتروٹے ” میں ادھ گوندھے آٹے کو زور زور سے مکیاں لگا رہی تھیں جیسے اپنی غربت اور گھرڈوبنے کا غصہ اتار رہی ہو۔ باپ کے حکم پر ہاتھ دھو کر چولہے کی طرف بڑھنے لگی۔
پیلے رنگ کے پھولوں والا شکن زدہ لباس اس کے نسوانی جسم پر خوب جچ رہا تھا۔چلنے لگی تو اس کے پراندے میں لگے موتی سلمے ستارے اورجھالروں کی کھن کھن کی مسحور کُن آواز ہیرا کے دل کو موہ رہی تھی۔
اس ابھرتی عمر کی چال ڈھال اور ناز و انداز کسی کو بھی لبھا نے کے لیئے کافی ہوتے ہیں۔ پارو نے صبح جو بکری کا دودھ نکالا تھا اس کو ایک پرانی کیتلی میں ڈال کر سرکنڈوں کی چھیل کو مٹی کے چولہے میں ڈال کر جلانے لگی۔ آگ کو تیز کرنے کی خاطر بار بار پارو زور زور سے پھونک مارتی اور ساتھ ساتھ کھانستی بھی۔ دھوئیں اور کھانسنے کی وجہ سے پارو کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
جب پارو کی یہ حالت اس کے باپ شیرو نے دیکھی تو کہنے لگا ہیرا پتر جا زرہ آگ جلانے میں پارو کی مدد کر۔ ہیرا اٹھ کر چولہے کی طرف بڑھا۔ پارو آتے ہوئے ہیرا کو دیکھ کر معنی خیز اور محبت آمیز نظروں سے مسکرا نے لگی۔ ہیرا کی کھلی قمیض کے گلے سے جھانکتے ہوئے سینے کے ہلکے ہلکے بال، ابھری اور تنی ہوئی بازؤوں کی مچھلیاں، پتلی چیتے جیسی کمر، پیٹ ریڑھ کی ہڈی کی طرف کھنچا ہوا، مردانہ ٹھوس چال، موٹی موٹی نیم خوابیدہ سی پر فسوں آنکھیں، جن کے سامنے تمام جادو ہیچ تھے۔ یہ آنکھیں اور مکمل وجودکسی بھی نوخیز الہڑ دوشیزہ کو تحت الثریٰ سے کھینچ کر باہر نکال لینے کے لیئے کافی تھے۔
جوانی کی بھر پور طاقت سے لگائی گئیں پھونکوں سے آگ اپنے جوبن پر پہنچی تو اس آگ کے عکس میں پارو کا چہرہ انار کی طرح دمکنے لگا۔ اچانک پارو کی نگاہ ہیرا کی ہتھیلی پر پڑی جو کانوں اور کوندر کو چھیلنے کی وجہ سے جو سرخ ہو گئی تھی اور جگہ جگہ سے چھیلی ہوئی تھی۔
پارو نے ہیرا کاہاتھ پکڑ کر ہتھیلی دیکھی تو پارو کی آنکھوں سے نکلنے والے دو قطرے آبِ شفاء کی مانند ہیرا کی ہتھیلی پر گرپڑے، ہیرا نہ فورا ہتھیلی بھینچتے ہوئے سر اٹھا کر پارو کو دیکھا، جس نے اپنا چہرہ فورا دوسری طرف موڑ لیا۔
چاچے شیرو کی آواز آئی "پارو دھی”چائے بنی کہ نہیں۔ بن گئی بابا ابھی لائی۔ پارو اور ہیرا چائے کی پیالیاں اٹھائے چاچے شیرو کے پاس آئے۔ ابھی چائے پی رہے تھے کہ باہر سے کسی نے "شیرو بھرا” کی آواز لگائی۔ چاچا شیرو اٹھتے ہوئے بولنے لگا ہیرا پتر شاید کوئی چقوں کا گاہک آیا ہوا ہے میں اس کو مل کے آتا ہوں اور وہ باہر چلا گیا۔
سامنے بیٹھی ہوئی پارو ہیرے کو کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ ہیرا اپنی جگہ چھوڑ کر پارو کے پاس آیا اور کہنے لگا "پارو” زرہ اپنی مہندی لگی ہتھیلی کھول کے دکھاؤ۔ ہیرا کی آنکھوں سے نکلتی برقی لہریں پارو کے روں روں میں جڑوں تک اترتی جا رہیں تھیں اور پارو کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کہ ان لہروں کا ایک شکنجہ سا اس کو چاروں طرف سے جکڑ رہا ہے۔
پارو نے جیسے ہی ہتھیلی کھولی تو ہیرے نے جلدی سے جیب سے ایک عام سا چاندی کی مانند چمکتا ” چھلا ” اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں اور پارو شرم کے مارے مٹھی بند کر کے خیمے کے اندر دوڑی۔
دن سے ہفتے اور ہفتوں سے پورا سال گزر گیا۔ پارو اور ہیرا محبت کی پینگیں بڑھاتے گئے۔ ہیرا نے چقیں بنانے کے کام کے ساتھ ساتھ میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر کے باقاعدہ پٹواری کی تربیت حاصل کر کے اور امتحان دے کر ایک دیہات میں پٹواری کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ شیرو کے خاندان کا ایک گھرانہ اپنے بیٹے کے لیئے پارو کے کا ہاتھ مانگنے آیا۔
جبکہ زیادہ تر رشتہ دار ہیرے کا کھلے عام انکے گھر میں آنے پر بھی اعتراض تھا۔ پارو کی ایماء اور مشورے کے بعد شیرو نے اپنے رشتہ داروں کو پارو کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔ رشتہ نہ ملنے کی رنجش دل میں رکھتے ہوئے وہ لڑکا ہیرے کو راہ سے ہٹانے اور پارو کو اغوا کرنے کے منصوبے پر کام کرنے لگا۔
ادھر ہیرے نے اپنی ماں کو اپنے پیار کی پوری داستان سنا ڈالی اور پارو سے بھی ملوانے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ رشتہ لے جانے پر راضی کر لیا۔ہیرے کے باپ کو خانہ بدوشوں سے رشتہ کرنے پر اعتراض تھا مگر ہیرے کی خوشی کی خاطر خاموش رہا۔
ایک دن ہیرا حسب ِ عادت پارو سے ملنے اس کے گھر جا رہا تھا کہ پارو کے خاندان والوں کے دو چھوکروں نے اس کو اکیلا پاتے ہوئے کلہاڑیوں سے حملہ کر دیا۔ جس سے اس کے بازو پر شدید زخم آگئے۔ کیونکہ ہیرا ایک جی دار لڑکا تھا، دونوں لڑکوں کی کلہاڑیاں چھین کر ان دونوں کو خوب کلہاڑیوں کے دستے کی چنگیاں ماریں اور وہ بھاگ گئے۔
ہیرا ہسپتال گیا اور وہیں رپورٹ لکھوائی اور پھر اس کی سرجری ہوئی۔ حملہ آور دو چھوکرے تو گرفتار ہو گئے۔ مگر شیرو کے خاندان والے وہی لوگ پارو کو اغوا کرنے کا اور انکے گھر پر حملہ کرنے کا پلان بنانے لگے۔
ہیرا کا باپ شہری ہونے کی وجہ سے جہاندیدہ انسان تھا وہ شیرو، اسکی زوجہ اورپارو کو اپنے گھر لے گیا۔ ہیرا تیزی سے صحت یاب ہونے لگا اور ایک ہفتے بعد ہسپتال سے گھر شفٹ ہو گیا۔
گھر میں پارو کی تیمارداری سے جلدی صحتمند ہو گیا اور وہیں ان کی شادی ہو گئی۔ اتفاق سے جب دریا خشک ہو گیا تو ہیرا، پارو کے اسی گاؤں کا پٹواری بنا جو ڈھا سے دریابرد ہوا تھا۔
اس نے سب سے پہلے شیرو کی زمین نشاندھی کر کے بحال کی۔اس کے بعد شیرو کے رشتہ دار شیرو کی منت سماجت کر کے ہیرے سے اپنی زمینیں بحال کراتے رہے اور ان کی رشتہ دار عورتیں پارو کی چاپلوسی کرتیں کیونکہ اب وہ ایک پٹواری کی ملکہ تھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر