نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمہوریت کو ’’عوام کی حکومت‘‘ بیان کرتے ایک فقرے میں انگریزی کے “By, Of And For”کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔عمران حکومت کے اندازِ حکمرانی پر غور کرتے ہوئے گزشتہ چند دنوں سے میرا جی اسے ’’پراپیگنڈہ سے بنائی اور چلائی ‘‘حکومت پکارنے کو بے تاب ہورہا ہے۔تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر اس کے ترجمانوں کی فوجِ ظفر موج کا طویل اجلاس ہوتا ہے۔بسااوقات اس میں وزیر اعظم صاحب بنفسِ نفیس موجود ہوتے ہیں۔مذکورہ اجلاس میں کئی گھنٹوں تک روایتی اور سوشل میڈیا پرچھائی گفتگو کا ذ کر ہوتا ہے۔بہت لگن سے ایسی Themesکی تلاش ہوتی ہے جو روایتی اور سوشل میڈیا کے ہرصارف کو تحریک انصاف کا گرویدہ بنادے۔ اس کی مخالف جماعتوں کو ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ پر مشتمل ہونے کے علاوہ ’’غدار‘‘ بھی ثابت کرے۔ مجھے ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ میڈیا پر چھاجانے کے شوق میں خرچ ہوئے طویل گھنٹوں کے بعد اس حکومت کے وزراء اور مشیر خلقِ خدا کے حقیقی مسائل پر توجہ دینے کا وقت کیسے نکال سکتے ہیں۔
پیر کے روز بھی ایسا ہی ایک اجلاس ہوا ہے۔ذمہ دار ذرائع سے مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ وہاں اصرار کرتے رہے کہ حکومتی ترجمانوں کو اپوزیشن جماعتوں سے مسلسل یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے میں دیر کیوں لگارہے ہیں۔شاہ محمود قریشی صاحب کو غالباََ پورا یقین ہے کہ PDMاسمبلیوں سے استعفیٰ دینے والی دھمکی کو بروئے کار لانے میں ناکام رہے گی۔حکومتی ترجمان اگر انہیں اس حوالے سے رگڑا لگاتے رہیں تو ان کی کھوکھلی بڑھک بازی عوام کے سامنے بے نقاب ہوجائے گی۔
شاہ محمود قریشی صاحب کی مہارت وبصیرت جان کر مجھے واقعتا حیرت ہوئی۔ موصوف ایک خاندانی سیاست دان ہیں۔ان سے زیادہ کسے علم ہے کہ سیاستدان بنیادی طورپر ڈھیٹ ہڈی کے بنے ہوتے ہیں۔ عوام کے روبرو جو بڑھکیں لگاتے ہیں انہیں یاد دلاتے ہوئے انہیں شرمندہ نہیں کیا جاسکتا۔ ’’شرمساری‘‘ سیاست دانوں کا کلیدی وصف ہوتی تو مخدوم صاحب نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ سے سفر کرتے ہوئے پیپلز پارٹی اور وہاں سے تحریک انصاف تک نہ پہنچ پاتے۔ حالات بدلے تو میں ان کی جانب سے عمران خان صاحب کے خلاف ہوئی دھواں دھار تقاریر سن کر بھی حیران نہیں ہوں گا۔
میری اطلاع کے مطابق پیر کے روز ہوئے اجلاس میں میڈیا کے گوئبلز جیسے ماہر شمار ہوتے اور کسی زمانے میں میرے بہت ہی پیارے دوست جناب فواد چودھری بہت پریشانی سے یہ سوچ پھیلاتے سنائی دئیے کہ چند ’’پاکستان دشمن ’’عالمی ادارے ’’لبرل‘‘ شمار ہوتے چند صحافیوں کے بنائے یوٹیوب چینلوں کو بھاری سرمایہ فراہم کررہے ہیں۔پاکستان کی مسلح افواج ان کی ’’منفی تنقید‘‘ کا حتمی ہدف ہیں۔ ایسی ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلوں کی بندش کا بندوبست ہونا چاہیے۔
یہ ’’خبر‘‘ سن کر بہت حیران ہوا۔فواد چودھری صاحب ہمارے چند ’’لبرل‘‘ صحافیوں کے ذاتی دوست بھی ہیں۔ رویت ہلال یا دیگر موضوعات کے حوالے سے چودھری صاحب جب بھی ’’مُلّا‘‘ کو للکارتے ہیں تو یہ صحافی دوست ان کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ایسے ’’دوستوں‘‘ کے روایتی اور سوشل میڈیا سے ’’غائب‘‘ ہوجانے کے بعد چودھری صاحب کی سرسید احمد خان جیسی ’’روشن خیال‘‘ سوچ کاڈھونڈورا کون پیٹے گا۔
عمران حکومت کے ترجمان یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں اٹھارہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف بہتان تراشی کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے وہ ریاست کے اس دائمی ادارے کو بلاضرورت Media Controversy کی زد میں لارہے ہیں۔اپنے امیج کے تحفظ کے لئے ہماری عسکری قیادت کو فنِ ابلاغ کی مہارت سے مالا مال ایک ادارہ میسر ہے۔انہیں اس ضمن میں عمران حکومت کے ترجمانوں کی معاونت درکار نہیں۔بہرحال جوچاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔
اقتدار میں دو سے زیادہ برس گزارنے کے باوجود عمران حکومت ابھی تک سمجھ نہیں پائی ہے کہ کسی بھی حکومت کی بابت عوام کے دلوں میں Feel Good Mood محض پراپیگنڈہ کے ذریعے پیدا نہیں کیا جاسکتا۔لاہور اور راولپنڈی جیسے شہروں میں اگر سردی کے اس موسم میں ہیٹر کو چلانے کے لئے گیس ہی میسر نہیں ہوگی تو شہباز گِل صاحب کی خوش گفتاری عوام کو مطمئن نہیں کر پائے گی۔بجلی کے فی یونٹ نرخ میں بتدریج اضافہ تنخواہ دار کو بلکہ مزید پریشان کردیتا ہے۔
عمران حکومت کی طرح امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ بھی ٹویٹر اور Skyٹیلی وژن کے ذریعے اپنی بابت ’’خوشگوار‘‘ ماحول بناتی رہی۔ ٹرمپ کی بدتمیزی اور بیہودہ گفتگو محض اس لئے قابلِ برداشت محسوس ہوتی رہی کیونکہ اس کی صدارت کے ابتدائی دو سالوں میں روزگار کے نئے امکانات اجاگر ہوئے۔طلب اور رسد کی منطق کی بدولت ملازمتوں کی فی گھنٹہ اُ جرت میں بھی اضافہ ہوا۔کرونا کی وباء نے مگر بازار کی رونق کو بالآخر معدوم بناڈالا۔
اس کی وجہ سے طویل عرصے کے بعد ٹرمپ ایسا صدر ثابت ہوا جو اقتدار میں دوسری ٹرم یا باری نہ حاصل کرپایا۔ اس کے باوجود ٹرمپ کے ابتدائی برسوں میں معاشی میدان میں جو رونق لگی تھی وہ اسے گزشتہ نومبر میں 2016سے کہیں زیادہ پاپولر ووٹ دلوانے کا باعث ہوئی۔
عمران حکومت مگر بازار کی رونق پر توجہ ہی نہیں دے پائی ہے۔اس کے دورِ اقتدار کی ہر سردی ہمارے ہاں ’’گیس کے بحران‘‘ کو نمایاں کرتی ہے۔پاکستان جیسے ’’زرعی ملک‘‘ کو اس برس گندم درآمد کرنا پڑی ہے۔چینی کے نرخ آسمان کو چھوتے نظر آرہے ہیں۔کرونا کی پہلی لہر نے پولٹری کے دھندے کا بھٹہ بٹھادیا تھا۔عمران حکومت نے اسے کسی بھی نوعیت کا Stimulusفراہم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ چند اجار ہ داروں کی مختلف حوالوں سے پشت پناہی یقینا ہوئی۔
سرکار نے لیکن جو ’’معاونت‘‘عطا کی اس کا فائدہ اٹھانے والے اجارہ دار پولٹری کے شعبے میں فقط 30فی صد کے حصے دار ہیں۔ 70فی صد چھوٹے اور درمیانی درجے کے کاروباری ہیں۔ وہ اپنے دھندے میں مزید مندے کے متحمل ہونہیں سکتے۔ پولٹری کے بجائے دوسرے دھندوں میں سرمایہ کاری کی راہیں تلاش کررہے ہیں۔
تمام تر مشکلات کے باوجود اس برس پاکستان میں چاول کی ریکارڈ ساز پیداوار ہوئی۔ہمارے آڑھتیوں کی اکثریت نے چاول اُگانے والوں کو نقد رقوم ادا کرتے ہوئے اس جنس کو عالمی منڈی میں فروخت کرنے کے لئے ذخیرہ کرنا شروع کردیا۔پاکستانی چاول کی قیمت مگر عالمی منڈی میں گراں محسوس ہوتی ہے۔
ہم ماضی کی طرح اس برس اسے بھاری مقدار میں برآمد نہ کرپائے۔گوداموں میں ذخیرہ ہوا چاول اب مقامی مارکیٹ ہی میں گراں نرخوں پر فروخت ہورہا ہے۔جبکہ طلب اور رسد کی منطق کے تحت اسے بازار میں سستے داموں میسر ہونا چاہیے تھا۔ہمارے پالیسی سازوں کے اجلاس میں لیکن یہ موضوع زیر بحث ہی نہیں آتا۔
کئی برسوں سے یہ سنتے ہوئے ہمارے کان پک گئے ہیں کہ افغانستان ہمارا ’’برادر ملک‘‘ ہے۔ ہماری مصنوعات اور اجناس کی قدرتی منڈی ہی نہیں بلکہ انہیں وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچانے کا راستہ بھی فراہم کرتا ہے۔پیر کے روز پاکستان اور افغانستان کے مابین بھارت کے ضمن میں اعلیٰ سطحی اجلاس بھی ہوا ہے۔ افغانستان ہم سے بھارت کے ساتھ تجارت کا راستہ مانگ رہا ہے۔ ہم لیت ولعل سے کام لینے کو مجبور ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کو دبائو میں لانے کے لئے افغانستان ہماری اس ملک اور وہاں سے وسط ایشیائی ممالک تک تجارت کی راہ میں روڑے اٹکارہا ہے۔
ہمارا کینو مثال کے طورپر افغانستان،وسط ایشیاء اور روس میں بہت مقبول ہے۔رواں سیزن کا آغاز ہوتے ہی افغانستان حکومت نے کینو سے لدے ہر ٹرک پروہاں موجود جنس کی مجموعی قیمت پر ایک فی صد ٹیکس لینا شروع کردیا ہے۔’’اچانک‘‘ نمودار ہوئے اس ٹیکس کی بدولت ہمارے کینو برآمد کرنے والے اپنی پیداوار کے مناسب منافع کی توقع سے محروم ہوگئے ہیں۔ کینو کی قیمت مقامی منڈی میں اس کی وجہ سے گرگئی ہے۔کینو کے بعد ہمیں افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک میں آلو بھی فروخت کرنا ہے۔ فرض کیا اس پر بھی افغانستان نے کینو کی طرح ’’اچانک‘‘ کوئی نیا ٹیکس عائد کردیا تو ہمارے ہاں ’’آلو کا بحران‘‘ دوبارہ نمودار ہوجائے گا۔
کاش پراپیگنڈہ پر کامل قابو پانے کی کاوشوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے عمران حکومت کے پالیسی سازمذکورہ بالا امور پر توجہ دیں جو لاکھوں خاندانوں کی خوشی یا اداسی کا حقیقی باعث ہوتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ