نومبر 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مریم نواز بھٹو کی چوکھٹ پر۔۔۔ملک سراج احمد

اگر سیاست کرنی ہے تو میثاق جمہوریت کو ہر سیاسی جماعت کو من وعن تسلیم کرنا ہوگا اس کی روح کو ماننا ہوگا اس پر عمل کرنا ہوگا۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مریم نواز کی گڑھی خدا بخش حاضری اور شہید رانی کی قبر پر بطور عقیدت پھولوں کا نچھاور کرنا اور عوام کے جم غفیر سے خطاب اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مریم نواز شریف جمہوریت کی بحالی کی خاطر سنجیدہ ہیں۔پنجاب کی طرز سیاست سندھ سے یکسر مختلف ہے مگر ایک نقطہ مشترک ہے اور وہ جمہوریت ہے۔پاکستان کی سیاست میں جمہوریت کے علمبرداروں کی گڑھی خدا بخش کے قبرستان کی حاضری ضروری ہے۔بھٹو کے مزار کی چوکھٹ پار کرنا ضروری ہے۔اس مزار کے آنگن میں ننگے پاوں سرجھکا کر حاضری کے بنا جمہوری سفر مشکل ہی ناممکن ہے۔

گڑھی خدا بخش پر حاضری کا مطلب بنیادی طورپر اس جمہوری فلسفے پر یقین کرنا ہے جو شہید بھٹو نے دیا جس پر ساری زندگی شہید رانی نے عمل کیا اور جدوجہد کی۔جمہوریت کی بحالی کی حالیہ جدوجہد میں بس یہی ایک کمی تھی اور وہ مریم نواز شریف کی حاضری کے بعد پوری ہوگئی۔رہی بات منزل کی تو سفر شرط ہے آج نہیں تو کل منزل تو مل ہی جائے گی۔

حقیقی جمہوریت کی خاطر اور عوام کے حق حاکمیت کی خاطر جدوجہد بنیادی فرض ہے نتائج سے بے پرواہ ہو کر سفر جاری رہے گا تو منزل ملے گی۔ اور جمہوریت کی منزل کی طرف ہر رواں دواں ہرکارواں کا پڑاو گڑھی خدا بخش میں ضرور ہوتا ہے ۔یہاں پر شہدا کی قبریں دیکھ کرسفر کی بے یقینی کی کیفیت ختم ہوجاتی ہے۔عزم و ارادہ مصمم ہوجاتا ہے۔ حوصلے بلند ہوجاتے ہیں۔زاد راہ کے طورپر بھٹو کا فلسفہ مل جاتا ہے۔

گڑھی خدا بخش کے شہدا کو دیکھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ جمہوریت ہی طرز سیاست ہونی چاہیے ۔وہاں پر آئے ہوئے جیالوں کو دیکھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہی ہے ۔تیسری دنیا کے انسانوں کا المیہ ہی یہی ہے کہ ان کو دہائیاں لگ گئیں انسانی حقوق کے حصول کی خاطر اور وہ تاحال اس میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔

پرآسائش زندگی کی خاطر نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی خاطر اپنی بنیادی ضروریات کی خاطر اور چند لمحے آسودگی کے حصول کی خاطر یہ تیسری دنیا کے انسان جئیے جاتے ہیں اپنی زندگی گذارے جارہے ہیں۔پاکستان کی اشرافیہ اور بالادست طبقات نے گویا کچھ نا دینے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔

اور اس طرح کا رویہ اپنایا ہوا ہے جیسے اپنی جیب سے کسی کو کچھ دینا ہو۔حالانکہ جو کچھ یہ بدنصیب عوام مانگ رہے ہیں یہ ان کا بنیادی حق ہے ۔ان کی ملکیت ہے ۔یہ اس سرزمین پر موجود اور اس کی تہہ میں موجود ہر نعمت کے مالک و حق دار ہیں۔مگر اپنے حق سے محروم ہیں

اسی حق سے متعلق بھٹو نے بتایا کہ عوام کو یہ حق لینا چاہیے ۔عوام کو شعور دیا کہ اپنے حق کی خاطر جدوجہد کرو آواز بلند کرو۔جو نا دے اس سے حق چھین لو۔یہ جرات بھٹو نے دی کہ ایک ہاری زمیندار کے برابر بیٹھنا شروع ہوا۔ایک صنعت کار اپنے ورکر کے ساتھ مصافحہ کرنے لگا۔ معاشرے کے پسے ہوے اور محروم طبقات کو زندگی کی امید دینا بہتر مستقبل کی آس دینا ، مایوس آنکھوں کو خواب دینا ، سہمے ہوے لوگوں کو زبان دینا کوئی معمولی بات نہیں۔

بالادست طبقات کے نزدیک یہ اسٹیٹس کو کے خلاف بغاوت کے مترادف ہے اور بھٹو اس بغاوت کا مرتکب ہوا۔بھٹو کو خبر تھی کہ بغاوت ناقابل معافی ہے اوراس کی سزا ضرور ملے گی مگر وہ انجام سے بے پروا تھا۔ بھٹو تاریخ کے اس سفر میں اپنا متعین کردہ کردار ادا کرچکا تھا۔بھٹو وہ سوچ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا جس سوچ کے تحت محروم طبقات نے سوال کرنا تھے۔

سوال کرنا برتری کی علامت ہے ۔جواب دینا لازم ہوتا ہے خاص طورپر اس وقت جب سوال کرنے والی عوام ہو اور جواب دینے والے مسند نشین حکمران ہوں۔گو کہ ارباب اختیار کو گراں گذرتا ہے جواب دینا اس لیئے آج تک عوام کی طرف سے کیئے گئے کسی سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے سوال کررہی ہےمگر جواب ندارد۔

سوال کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکمران جواب نہیں دیتے ۔آج نہیں تو کل جواب تو دینا ہوگا کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔کیونکہ بھٹو کا فلسفہ ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔اور طاقت کے سرچشمے سے انکار دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اور آج کے ارباب اختیار اسی دھوکے میں ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ شاید معاملات سنبھل جائیں گے مگر ان کو اندازہ نہیں ہورہا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست میچور ہوتی جارہی ہے۔سیاست دان اپنی انا کے بت گرا کر اور اپنی زات سے بالاتر ہوکر ملک وقوم سے متعلق سوچ رہے ہیں ۔میثاق جمہوریت وہ دستاویز ہے جس نے سیاسی جماعتوں کے لیے سیاسی قبلے کی شکل اختیار کرلی ہے ۔

اگر سیاست کرنی ہے تو میثاق جمہوریت کو ہر سیاسی جماعت کو من وعن تسلیم کرنا ہوگا اس کی روح کو ماننا ہوگا اس پر عمل کرنا ہوگا۔

مریم نواز شریف نے اگر کوئی آسان راستہ نا چنا اور کسی کے کہنے پر شارٹ کٹ نا لیا تو بلاشبہ ان کا سیاسی سفر بہت دیر تک جاری رہے گا۔ان کی گڑھی خدا بخش حاضری سے ان کے سیاسی نظریات کو مزید تقویت ملی ہوگی۔ان کے سیاسی شعور کا دائرہ مزید بڑا ہوا ہوگا

۔شہید رانی کے مزار پر پھول نچھاور کرتے ہوے مریم نواز شریف کو ضرور فخر ہوا ہوگا کہ وہ ایک عورت کے مزارپر حاضر ہوئی ہیں۔ایک ایسی عورت جس نے ہر ستم سہا مگر اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹی اپنی راہ کو نہیں چھوڑا اوراپنی عوام سے اپنا رومانس کبھی کم نہیں ہونے دیا۔

حرف آخریہ کہ اگر مریم نوازشریف نے اس فلسفے پر یقین کرلیا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے تو ن لیگ کی سیاست میں واضح تبدیلی دیکھنے کو ملے گی اور یہ تبدیلی خوشگوار ہوگی۔ اور اس کے اثرات ملکی سیاست پر ضرور پڑیں گے۔رہی بات بھٹوز کی تو یہ اس خاندان کا سیاسی قبلہ ہی گڑھی خدا بخش ہے ۔اور گڑھی خدا بخش کے ماننے والوں کے لیے جمہوریت کے لیے قربانی دینا نئی بات نہیں اس بات کی گواہی گڑھی خدابخش میں شہدا کے مزارات دے رہے ہیں

براے رابطہ 03334429707

وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

About The Author