نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کسان کنونشن،سیڈمافیا اور نجیب الدین اویسی! ۔۔۔سمیرا ملک

یہی پیاس مجھے نجیب الدین اویسی کے کالم سے بھی جھلکتی نظر آتی ہے سو جب میں کوئی تقریب رکھوں گی تو انہیں بولنے کا موقع ضرور دوں گی تاکہ ان کے اندر کے دکھ سامنے آسکیں

سمیرا مک 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اچھی بات ہے کہ اب تعلیمی ادارے مقامیت سے جڑتے جارہے ہیں،امید ہے ہمارے قومی نصاب میں بھی مقامی مشاہیر کو جگہ ملے گی،ہمارے لیڈر عمران خان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ بروقت اور برموقع فیصلہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے اب مہنگائی کو بھی بہت جلد کنٹرول کرلیا جائے گا،

اس وقت جب میری مرتب کردہ کتاب مقدر کا سکندر بھی چھپ کر آچکی ہے،میرے شہر اوار اردگرد کے لوگ مجھ سے جلنا شروع ہوچکے ہیں مگر میں کسی کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھ رہی ہوں اور بڑھتی جاؤں گی کیونکہ میرے لیڈر نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ کام،کام اور کام،اس وقت بہاولپور ڈویژن میں پی ٹی آئی جتنی متحرک ہے اس میں جہاں اور بہت سارے لوگوں کا ہاتھ ہے وہاں مجھ ناچیز نے بھی بڑھ چڑھ کر کام کیا ہے،

اگرچہ میرا یہ بھی مزاج رہا ہے کہ کسی کی مثبت تنقید کو برداشت کروں مگر جب مجھے کوئی بلاوجہ تنقیدکا نشانہ بنائے مجھ سے برداشت نہیں ہوتا سو اسے جواب دینا بھی لازمی ہوتا ہے،

گذشتہ دنوں ایک معاصر میں ن لیگ کے ایم این اے نجیب الدین اویسی کامضمون پڑھنے کو ملا تو مجھے خاصی تکلیف ہوئی کہ انہوں نے بلاوجہ وجہ مجھے رگیدنے کی کوشش کی،اس سے پہلے کہ میں نجیب الدین اویسی کے بارے میں کچھ لکھوں،

اس تقریب کے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں جس میں نجیب الدین اویسی کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا،گذشتہ دنوں دی اسلامیہ یونیورسٹی نے کسان کنونشن کا انعقاد کیا،اس میں وفاقی وزیر فوڈ سکیورٹی کے علاوہ کئی ماہرین زراعت نے شرکت کی،یہ ایک یاد گار تقریب تھی جس میں موصوف بھی مدعو تھے،

اگرچہ ماضی میں ن لیگ کے دور اقتدار میں دوسری جماعت والوں کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی،انہیں نہ صرف سرکاری تقاریب سے دور رکھاجاتا تھا بلکہ ان پر طرح طرح کے حملے بھی کروائے جاتے تھے مگر جب سے ہماری حکومت آئی ہے ہم نے کسی کو ابھی تک سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا،

ہاں کرپٹ اور بددیانت لیڈروں کے خلاف ایکشن جاری ہے جسے جب یہ سیاسی انتقام کا نام دینے کی کوشش کرتے ہیں تو خود ان کے ایم این اے،ایم پی ایز کہہ دیتے ہیں کہ اب ایمانداروں کے خلاف تو کوئی ایکشن نہیں ہورہا یہ حکومت جو کررہی ہے صرف کرپٹوں کے خلاف کررہی ہے سو اسی وجہ سے ابھی تک کوئی بڑا سیاسی بحران پیدا نہیں ہوا جسے میں اپنے لیڈر عمران خان کی بہتر حکمت عملی سمجھتی ہوں،

یونیورسٹی کے کسان کنونشن کے بعد حکومت سیڈ مافیا کوکسان دوست بنانے کے لئے نئی قانون سازی کا اعلان کرچکی ہے،وزیراعلیٰ اور گورنر اس بارے جلد پیش رفت کریں گے میں اسے بھی میں کنونشن کی کامیابی سمجھتی ہوں۔

ہاں تو بات ہورہی تھی نجیب الدین اویسی کی بے جاتنقید کی کہ انہوں نے لکھا ہے کہ مجھے بھی کنونشن میں بلایا گیا تھا مگر مجھے اہمیت نہیں دی گئی تو انہیں کون سمجھائے کہ اس وقت آپ اپوزیشن میں ہیں،اس کے باوجود آپ کو ایک بڑی سرکاری تقریب میں بلا کر نہ صرف اہمیت دی گئی بلکہ مکمل پروٹوکول کے ساتھ پنڈال میں لایا گیا

پھریہ آپ کی سوچ پر منحصر ہے کہ آپ اسے منافقانہ مسکراہٹ کا نام دیں یا کچھ اور،ورنہ ہم نے تو ابھی تک اپوزیشن کے کسی کام کو منافقانہ چال نہیں کہا،دوسرا انہوں نے میرا نام لئے بغیر یہ بھی لکھا کہ ان کی اہمیت پی ٹی آئی کے کارکنوں سے کم رہی تو انہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میں ادنیٰ کارکن کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کی ممبربھی ہوں،اس کے باوجود نہ آپ کی تقریر تھی نہ میری اس لئے مجھ پر تنقید بنتی نہیں،

ہاں میرا بہاولپور میں پارٹی کے لئے جو متحرک کردار ہے اس کا آپ نے خود اظہار کرکے میری جو حوصلہ افزائی کی ہے اس پر میں آپ کی مشکور ہوں اور یونیورسٹی انتظامیہ سے اپیل کرتی ہوں کہ پہلے تو اپوزیشن کے لوگوں کو بلایا نہ کریں اگر بلانا ضروری ہوتا ہے تو پھران کی تقاریر بھی رکھا کریں تاکہ وہ اپنے اندر کا کتھارسس کرسکیں،

ویسے عرصہ دراز سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی اقتدار میں رہی ہے لیکن افسوس ان کی لیڈر شپ نے اپنے چھوٹے بڑے کارکنوں کو اتنا نظر انداز کیا ھے کہ آج بھی لاہور اور لاڑکانہ کے علاوہ تمام شہروں کے کارکن وچھوٹے بڑے لیڈرتقریر کرنے کو ترستے رہتے ہیں

یہی پیاس مجھے نجیب الدین اویسی کے کالم سے بھی جھلکتی نظر آتی ہے سو جب میں کوئی تقریب رکھوں گی تو انہیں بولنے کا موقع ضرور دوں گی تاکہ ان کے اندر کے دکھ سامنے آسکیں،

انہوں نے ایک ملتانی صحافی کی اوٹ لیکر یہ بھی لکھا ہے کہ تقریب کے مقررین لمبی تقاریر کررہے تھے،ہم بھی اس تقریب میں موجود تھے تو ہمیں تو کوئی بھی تقریر لمبی نہیں لگی،

وفاقی وزیر فخر امام نے جس مدلل انداز میں گفتگو کی اس پر ایک مضمون بنتا ہے جو بہت جلد لکھوں گی،ویسے فخر امام کے زرعی تجربے سے ہم اس طرح فائدے نہیں اٹھا سکے جس طرح اٹھانے چاہئیں تھے،اب تو صوبائی وزیر زراعت حسین جہانیاں گردیزی بھی ان کے حلقے کے ہیں،

دونوں ملکر چلیں تو ملک خاص طور پر پنجاب میں زرعی انقلاب کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے،انہیں بیرون ممالک کے دورے کرکے جدید ٹیکنالوجی کو بھی لانا چاہیئے تاکہ یہاں کے کسان بھی جدت اپنا کر ملک کو ترقی کی جانب لیکر جاسکیں،ہونا تو یہ چاہیئے کہ دنیا بھر کے کسانوں کو ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا چاہیئے،

اب تو سفری ضروریات بھی ختم ہوچکیں کیونکہ سب کچھ یوٹیوب اور گوگل پر موجود ہے اب ضرورت صرف ان چیزوں کو زراعت سے وابستہ لوگوں تک پہنچانے کی ہے۔

محترم نجیب الدین اویسی کا سارا کالم پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ اگرچہ انہوں نے سارے کالم میں خود کو صوفی درویش اور میزبان کو بے قصور ثابت کرنے کے چکرمیں یونیورسٹی کی کسانوں اور زراعت کے لئے کی گئی اس اچھی کاوش کو ثبوتاژکرنے کی ناکام کوشش کی ہے،

ان کی درویشی کا یہ عالم ہے کہ وہ لکھتے لکھتے اپنے محسنوں کو بھی نہ صرف رگید دیتے ہیں بلکہ انہیں بھول بھی جاتے ہیں کہ ایک ملتانی صحافی بتارہے تھے کہ موصوف ایک لوکل پیج کے لئے لکھتے تھے،

انہیں وہ ہی نہ صرف مین پیج پر لائے بلکہ ان کا لوگو ستلج کنارے بھی انہوں نے تجویز کیا تھا جب کچھ عرصے بعد نجیب الدین اویسی کے کالموں کی کتاب ستلج کنارے چھپ کرآئی تو جہاں اس میں دنیا جہان کے لئے اظہار تشکر کے کلمات موجود تھے وہاں اس صحافی کے لئے ایک لفظ بھی موجود نہیں تھا جو انہیں نیشنل لیول پر لے کر آئےتھے،

یہ ہوتی ہے ظرف ظرف کی بات، یہاں بھی موصوف کو اپوزیشن میں ہونے کے باوجود یونیورسٹی کی کسان دوست اچھی تقریب میں بلا کر عزت دی گئی تو موصوف نے اس تقریب کو سرہانے کے بجائے اس میں سے بھی اپنی من مرضی کے اعتراضات نکال کر اس اچھے کام کو بے توقیر کرنے کی کوشش کی،

اب لوگ باشعور ہوچکے،کسان تو بہت زیادہ سیانے ہوچکے کہ ان کے لئے نیک نیتی سے کام کون کررہا ہے اور انہیں کون کون لوٹتا رہا،امید ہے یونیورسٹی انتظامیہ کسی کی بلاوجہ تنقید سے گھبرانے کے بجائے اپنا اچھا کام جاری رکھے گی،باقی اقبال بندیشہ کتنے بڑے ماہر زراعت ہیں اس کا جواب وہ خود دیں گے

یہ بھی پڑھیے:

میرے ابا اماں زیادہ لبرل ہیں آپ سے!۔۔۔شمائلہ حسین

پاکستان میں زندہ رہنے کے 14 نکات۔۔۔شمائلہ حسین

27دسمبر۔غیرمتوازن پاکستان اور سوہانا کے خواب۔۔۔رازش لیاقت پوری

About The Author