نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈینیل پرل کیس اور ہمارا مستقبل۔۔۔ اعزاز سید

وقت نے مگر ہمیں غلط ثابت کیا۔ امریکہ بہادر اپنے شہریوں کی بالعموم اور اپنے صحافیوں کی بالخصوص قدر کرتا ہے اِسی لئے ڈینیل پرل کیس میں انصاف کی توقع غیرفطری نہ تھی۔

اعزاز سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی زمانے میں ہم سوچا کرتے تھے کہ پاکستان میں شہید ہونے والے کسی مقامی صحافی کے خاندان کو انصاف ملے نہ ملے ۔ امریکی صحافی ڈینیل پرل کے خاندان کوانصاف ضرورملے گا کیونکہ اس کیس کی پیروی کوئی اور نہیں امریکی حکومت کررہی ہے۔ وقت نے مگر ہمیں غلط ثابت کیا۔

امریکہ بہادر اپنے شہریوں کی باالعموم اور اپنے صحافیوں کی باالخصوص قدر کرتاہے اسی لیے ڈینیل پرل کیس میں انصاف کی توقح غیر فطری نہ تھی۔ ہمارا یہ گمان اس ٹھوس حقیقت پر بھی مبنی تھا کہ ان دنوں پاکستان دھشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں امریکہ کا اتحادی تھا اور ملک خداداد پر ڈالروں کی بارش بھی ہورہی تھی جبکہ اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے ساتھ امریکہ پیار کی پینگیں بھی چڑھا رہا تھا۔ چکر دینے والوں نے افغانستان کی سرزمین ہی نہیں پاکستان کے کریمینل جسٹس سسٹم میں بھی امریکہ بہادر کو ایسا دھوبی پٹکا مارا کہ سب حیران ہیں۔

میری ڈینیل پرل کیس میں دلچسپی کی دو بنیادی وجوہات رہی ہیں۔ اول یہ کہ مذکورہ امریکی صحافی سے اسلام آباد میں اسکے مختصر قیام کےدوران میری دو مختصر مگریادگارملاقاتیں ہوئی تھیں۔ آپ جس کسی سے مل لیں اس سے متعلق کوئی واقعہ یا حادثہ فطری طورپر آپکو بھی متاثر کرتا ہے۔

وہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ان دنوں پوری پاکستانی ریاستی مشینری ڈینیل پرل کے اغوا اور قتل میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں بظاہر سرگرم نظر آرہی تھی۔ اس کیس کی تحقیقات کا پاکستان کے قتل ہونے والے صحافیوں کی تحقیقات سے موازنہ بڑا دلچسپ موضوع تھا اور شائد آجبھی ہے۔

سال ۲۰۰۱ میں ڈینیل پرل امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کا رپورٹر تھا جسکے زمے پورے جنوبی ایشیا باالخصوص پاکستان و افغانستان میں جنم لینے والی خبروں کو رپورٹ کرنا تھا۔ پرل کا دفتر بھارت میں تھا جہاں سے وہ پورے خطے میں گھوما کرتا تھا۔ امریکہ میں نائن الیون کے واقعات ہوئے تو اگلے ہی روز پرل کراچی میں آن دھمکا۔

انہی دنوں فرانس میں رچرڈ ریڈ نامی ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا گیا جو اپنے جوتے میں بم چھپا کر امریکہ جانے والی ایک پروازکو مبینہ طور پرتباہ کرنا چاہتا تھا۔ اس شخص سے تحقیقات ہوئیں۔ تو پتہ چلا کہ وہ ایک پاکستانی مذہبی شخصیت سید مبارک گیلانی کا ماننے والا ہے۔

پرل کواس بات کی اطلاع ملی تو وہ مبارک گیلانی کی تلاش میں نکل پڑا اور اسے ڈھونڈتا ہوا ۱۱ جنوری ۲۰۰۲کو راولپنڈی کے اکبر انٹرنیشنل ہوٹل میں بشیر نامی ایک شخص سے ملا۔ یہ بشیر نامی شخص دراصل احمد عمر سعید شیخ تھا۔ جس نے اسے مبارک گیلانی سے ملاقات کرانے کا وعدہ کیا ۔

برطانیہ سے تعلیم یافتہ احمد عمرسعید شیخ کا ایک جہادی پس منظرتھا۔ وہ نوے کی دہائی میں بھارت میں کچھ غیر ملکیوں کے اغوا کی کوشش میں گرفتارہوکرجیل بھیجا گیا تھا اور بعد میں دسمبر ۱۹۹۹ میں ایک بھارتی طیارے کے افغانستان میں اغوا کے بعد اسکی رہائی عمل میں آئی تھی۔ پرل کو البتہ "بشیر” کا پس منظرمعلوم نہ تھا۔

دونوں کی اگلی ملاقات کراچی میں ۲۳ جنوری ۲۰۰۲ کو ہوئی پھر اسکے بعد ڈینیل پرل کو کسی نے نہ دیکھا۔ جنوری کے آخری ہفتے میں پرل کی رہائی کے عوض افغان قیدیوں کی رہائی اورامریکہ سے پاکستان کو ایف ۔ سولہ طیاروں کی فراہمی جیسے مطالبات ای میل کے زریعے امریکی حکام کوموصّول ہوئے۔ بعدازاں ۲۱ فروری کو ایک ویڈیو منظرعام پر آئی جس میں پرل کو نقاب پوش شخص کے ہاتھوں بہیمانہ انداز میں قتل ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔

پولیس کے مطابق امریکی حکام کو ملنے والی مطالبات کی ای میلز کی تحقیقات کے دوران کراچی کے جس گھرسے ای میل کے لیے  انٹرنیٹ استعمال کیا گیا ۔ اس گھر کے دولڑکوں کو حراست میں لیا گیا ۔ جن سے پوچھ گچھ کے دوران احمد عمرسعید شیخ کا نام سامنے آیا۔

عمرسعید شیخ لاہورکا رہنے والا تھا اس لیے اس کے گھروالوں کوحکومت نے روایتی انداز میں ہراساں کیا گیا تو اس نے اپنے رضاکارانہ طورپر ۶ فروری ۲۰۰۲ کو اس وقت پنجاب کے ہوم سیکرٹری اور موجودہ وفاقی وزیربریگیڈئیر رئٹائرڈ اعجازشاہ کے دفتر میں خود کو حکومت کے حوالے کیا۔

 ڈینیل پرل قتل کیس کی تحقیقات میں بظاہر جان بوجھ کر کافی سقم چھوڑے گئے مگر اسکے باوجود اس وقت تو مقامی عدالت نے ملزمان کے خلاف فیصلہ دے دیا ۔ مگر کیس سندھ ہائیکورٹ میں چلا تو عمر شیخ کے وکیل محمود شیخ نے کیس میں پیش پولیس کے اپنے چالان کی روشنی میں پولیس تحقیقات کی دھجیاں اڑا دیں۔

سندھ پولیس نے احمد عمرسعید شیخ کے خلاف کراچی سے گرفتار جن دوملزمان کے اعترافی بیان پرکیس کی عمارت کھڑی کی تھی محمود شیخ نے انہی بیانات کی روشنی میں ثابت کیا کہ وہ اعترافی بیانات دباو اورتشدد کے زریعے لیے گئے تھے۔ پولیس توعدالت میں پرل کا قتل تک ثابت نہ کرسکی کیونکہ عدالت میں پوسٹمارٹم رپورٹ ، ڈیتھ سرٹیفیکیٹ اور آلہ قتل کچھ پیش نہ کیا گیا۔ یوں سارے کیس کی عمارت دھڑام سے گرگئی۔

اب سندھ ہائیکورٹ نے عمرسعید شیخ کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے اور اسی کیس سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی اپیل زیر سماعت ہے۔ پرل کے قتل کو اٹھارہ سال بیت گئے مگر پاکستانی سرزمین پر تمام ترامریکی اثرورسوخ کے باوجود ڈینیل پرل کو انصاف ملا نہ اس کے قاتل پکڑے گئے۔

پرل کے قتل کے بارے میں امریکہ کی قید میں نائن الیون واقعات کے ماسٹر مائنڈخالد شیخ محمد نے بھی اعترافی بیان دے رکھا ہے کہ یہ قتل انہوں نے اپنے ہاتھ سے کیا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس قتل کے پیچھے چھپے کئی سچ آج اٹھارہ سال بعد بھی منظر عام پر نہیں لائے جاسکتے۔ تاہم ایک بات تو ضرورثابت ہوئی ہے کہ ہمارے ہاں سچ کی کھوج لگاتے کسی بھی صحافی کی جان محفوظ نہیں۔ صحافی پاکستانی ہو یا امریکی "ناپسندیدہ”موضوعات پر تحقیقات کرئے گا تو جان سے جائے گا۔

خاندان کو انصاف بھیک میں بھی نہیں ملے گا کیونکہ بدقسمتی سے ہمارا ملک سچ کھوجنے والوں کے لیے ایک خوفناک سرزمین ہے۔ جس ملک ممیں سچ اور سچ کھوجنے والوں کی عزت نہ ہو اسکے مستبقل کا اندازہ آپ خود لگا لیجیے۔

یہ بھی پڑھیے:

کیا اپوزیشن کامیاب ہوگی؟۔۔۔ اعزاز سید

خادم رضوی کی وفات کے بعد جماعت کا مستقبل ؟۔۔۔اعزازسید

وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کون ہیں؟—اعزازسید

پی ڈی ایم کی تشکیل سے قبل ایک اہم سرکاری اجلاس میں کیا ہوا؟۔۔۔اعزازسید

About The Author