نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوشل میڈیا کا نقصان۔۔۔گلزار احمد

دنیا بھر میں سوشل میڈیا تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک ہر مثبت چیز کو الٹا پلٹا کر ایسا بنا دیا جاتا ہے کہ وہ منفی نتائج دینے لگتی ہے ۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

دنیا بھر میں سوشل میڈیا تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک ہر مثبت چیز کو الٹا پلٹا کر ایسا بنا دیا جاتا ہے کہ وہ منفی نتائج دینے لگتی ہے ۔
یہی حال فیس بک۔واٹس ایپ ۔انٹرنیٹ اور دوسرے سوشل میڈیا کا ہے ۔پہلے خبریں آئیں کہ پاکستانی لوگ سوشل میڈیا استعمال کر کے فحاشی وڈیوز دیکھنے والوں میں کافی آگے ہیں ۔پھر بچوں کی پورن کی خبریں اب اس میڈیا کے ذریعے جھٹ منگنی اور پٹ نکاح کے قصے گردش میں ہیں ۔
سوشل میڈیا پر لڑکی اگر اندھی بھی ہو تو اپنے آپ کو کترینہ کیف کی شکل میں دکھاتی ہے اور لڑکا نیم پڑھا لکھا لنگڑا اور کنگلا بھی ہو گا تو اپنے آپ کو کروڑ پتی بنا کر پیش کرے گا ۔اس طرح دھوکہ کر کے لڑکیاں اور لڑکے کورٹ میرج کر رہے ہیں اور جب دوسرے دن حقیقت سامنے آتی ہے تو جھگڑے طلاق اور مقدمے شروع ہو جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں یہ لطیفہ دیکھا کہ لاہور میں لڑکے نے اپنی دوست لڑکی سے sms کر کے پوچھا کہ تم کہاں ہو؟ لڑکی نے جواب دیا میں اپنے پاپا کی ہونڈا گاڑی چلا کر جم خانہ کلب جا رہی ہوں وہاں سے انارکلی جاونگی تم مجھے ساتھ اردو بازار فلاں بک شاپ پر چار بجے مل لینا۔
لڑکی نے لڑکے سے پوچھا کہ تم اس وقت کہاں ہو؟ لڑکے نے جواب دیا میں اس وقت بس میں آپ کے پیچھے چوتھی رو میں بیٹھا ہوں اور جیل روڈ پر پاگل خانہ سٹاپ سے بس گزر رہی ہے میں نے تمھیں دیکھ لیا تو کنڈکٹر کو تمھارا گلبرگ مارکیٹ سٹاپ تک کا کرایہ دے دیا ہے تم کنڈکٹر کو کرایہ نہ دینا اور مارکیٹ میں اتر جانا پھر ملتے ہیں۔
یہ ہے آجکل سوشل میڈیا اور یہ ہے جھوٹ کا بازار جو برابر چل رہا ہے۔آج کل ہمارے معاشرے میں طلاق ،خانگی جھگڑوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے اور سینکڑوں مقدمات دائر بھی دائر کیے جاتے ہیں ۔
طلاق حاصل کرنے والی خواتین کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان ہیں ،فیس بک ،واٹس ایپ دوستیوں والی شادیاں سب سے زیادہ ناکام رہیں ،کچہریوں میں آکر کورٹ میرج کرنے والی شادیاں پچاس سے ستر فیصد ناکام ہونے کی اطلاعات ہیں ۔
اس سال متعدد خواتین ولڑکیوں نے گھروں سے بھاگ کر دار الامان میں پناہ لی جب کہ فیملی عدالتوں میں طلاق ،بچوں کی حوالگی ،سامان جہیز کی واپسی اور حق مہر کے بھی سینکڑوں کیس زیر سماعت ہیں ۔ ایک اور مصیبت ہمارے شھر کی گلی گلی میں کھلے بیوٹی پارلرز نے ڈال رکھی ہے۔
ہر لڑکی کو شادی کے موقع پر بیوٹی پالر والی ھزاروں روپے لے کر اس کو اپنی پسندیدہ ایکٹریس کی شکل میں ڈھال دیتی ہے۔پھر طرح طرح کے کیمرے اور پوز بنا کر سیلفیاں اور وڈیوز بنتے ہیں اور دلھن کی خوبصورت تصاویر سامنے آتی ہیں جو بالی وڈ اور لالی وڈ ایکٹرسوں جیسی ہوتی ہیں ادھر دلھا میاں بھی آجکل ہیر کٹنگ سیلون میں سفید کریمیں لگا کر چار گھنٹوں میں تیار ہوتا ہے۔
اب ہوتا یہ ہے کہ ایک دن بعد جب میک اپ کا لیپا اتر جاتا ہے تو دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو پِھٹے منہ جن بھوت لگنے لگتے ہیں اور کئی تو اسی دن طلاق لینے دینے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور عدالت جا پہنچتے ہیں۔
پہلے زمانے میں لڑکیاں شادی سے پہلے میک اپ بالکل نہیں کرتی تھیں اور شادی کے موقع پر دلھن کو مہندی۔ابٹن اور خوشبودار بوٹیوں کے تیل اور عرق کے اجزا وغیرہ سے سجایا جاتا تھا اور شادی کے بعد دلھن مزید خوبصورت اور پیاری ہو جاتی تھی اور بیوٹی پارلر والی کی سجائی گئی دلھن نہیں ہوتی تھی جو چہرے پر تین چار لیپ چڑھا کر شکل بگاڑ دیتی ہے
مصنوعی بال لگا کر ڈیانا سٹائیل بناتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہی لڑکی دو دن بعد سسرال اور خاوند کو ماصی مصیبتے لگتی ہے۔ دلھا میاں بھی کوئی خاص میک اپ نہیں کرتا تھا بس شادی والے دن ذرہ نیے کپڑے ۔موتیا کے پھولوں کا سہرا باندھ لیتا۔
اب دلھا پر بھی میک اپ کریموں کا لیپ چڑھایا جاتا ہے اور دوسرے دن منہ بھی ٹھیک طریقے سے نہیں دھوتا اوپر گندی سگریٹ یا نسوار سے پیلے دانت نکال کر ایک افریکی نیگرو کی شکل میں لڑکی کے سامنے آتا ہے تو اس کو کوڑا زہر لگتا ہے۔ ویسے یار ہم لوگ کب بندے دے پتر بن کر جینا سیکھیں گے ؟

یہ بھی پڑھیے:

About The Author