نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولانا پر ’’پکّا‘‘ ہاتھ ڈالنے کے منصوبے ۔۔۔ نصرت جاوید

موسم بہار کے آغاز میں یہ مارچ ہو بھی گیا تو اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائے گا۔ ایوانِ بالا میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد حکومت مزید مستحکم نظر آئے گی۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

PDM کے لاہور والے جلسے کی ’’ناکامی‘‘ کے بعد عمران حکومت پر اعتماد ہے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے بجائے سینٹ کی مارچ 2021 میں خالی ہونے والی 52 نشستوں پر ہوئے انتخاب میں اپنی عددی قوت سے زیادہ حصہ لینے پر توجہ دیں گی۔ اس ضمن میں ان کی ’’مصروفیت‘‘ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کو مؤخر کرنے کا باعث ہوگی۔

موسم بہار کے آغاز میں یہ مارچ ہو بھی گیا تو اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائے گا۔ ایوانِ بالا میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد حکومت مزید مستحکم نظر آئے گی۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے فیصلے کو محض بڑھک بازی شمار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رویے کو ذہن میں رکھا جارہا ہے۔ غیر جانب دار حلقے بھی وہ ٹھوس وجوہات بآسانی تصور میں لاسکتے ہیں جو اس جماعت کو سندھ میں اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کو مجبور کئے ہوئے ہیں۔ سینٹ کی خالی ہونے والی نشستوں کے لئے ہوا انتخاب اسے نقصان کے بجائے فائدہ دیتا نظر آرہا ہے۔

عمران حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی تخت یا تختہ والا معرکہ فقط اسی صورت اختیار کرنے کو مجبور ہوگی اگر سینٹ میں اکثریتی جماعت بن جانے کے بعد تحریک انصاف اٹھارویں ترمیم کی ’’خامیاں‘‘ دور کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے اختیارات کو محدود تر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہوجائے۔ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے میں ہچکچاہٹ دکھاتے ہوئے پیپلز پارٹی 1985 کے تلخ تجربات کو ہمہ وقت ذہن میں رکھتی ہے۔

اس برس ضیاء حکومت’’غیر جماعتی انتخابات‘‘ کے ذریعے پارلیمان بحال کرنے کو مجبور ہوئی۔ ایم آر ڈی میں شامل جماعتوں نے مذکورہ انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ نجی محفلوں میں مرحوم غلام مصطفیٰ جتوئی اس فیصلے کی بابت ہمیشہ تاسف کا اظہار کرتے رہے۔ 1985 کے انتخابات نے ان سیاسی عناصر کو تقویت پہنچائی جنہیں بلدیاتی نظام کے ذریعے روایتی سیاستدانوں کے مقابلے میں توانا تر بنایا گیا تھا۔

پیپلز پارٹی سندھ میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے جو حلقے اپنے استعفوں سے خالی کرے گی انہیں پُر کرنے کے لئے ضمنی انتخابات ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے لئے ان انتخابات سے لاتعلق رہنا ناممکن ہوگا۔ وہ اپنے روایتی حریفوں کے لئے میدان چھوڑنا نہیں چاہے گی۔

ان ہی نشستوں کو واپس لینے کے لئے انتخابی مہم میں مصروف ہوجائے گی جنہیں استعفے دے کر خالی کیا جائے گا۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ اراکین کی اکثریت بھی ایسی ہی سوچ کی حامل ہے۔

1985 سے وہ پنجاب میں طاقت ور ترین Electables شمار ہو رہے ہیں۔ مقامی ’’شریکوں‘‘ کو وہ بھی اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر سیاسی اعتبار سے طاقت ور نہیں بنانا چاہیں گے۔ وسطی پنجاب میں تاہم نواز شریف سے وابستہ ایک ووٹ بینک بھی ہے۔

اپنے قائد کو ’’دغا‘‘ دیتا مسلم لیگی اس کی قوت سے محروم ہوجائے گا۔فقط ’’ذاتی حیثیت‘‘ میں منتخب ہونے کے قابل نہیں رہے گا۔ چودھری نثار علی خان 1985سے مسلسل قومی اسمبلی کے لئے  منتخب ہوتے رہے۔ جولائی 2018 میں ’’آزاد‘‘ ہوئے تو فقط صوبائی اسمبلی کی نشست ہی جیت پائے۔

ابھی تک انہوں نے پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف بھی نہیں اٹھایا ہے۔ سیاسی اعتبار سے تنہا ہوئے نظر آرہے ہیں۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے دیگر چودھری اور ڈیرے دار ایسی تنہائی کے متحمل ہو نہیں سکتے۔ عمران حکومت کو گماں ہے کہ ایسے اراکین کی مشکلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے نواز شریف انہیں ایک حد سے زیادہ ’’آزمانا‘‘ نہیں چاہیں گے۔ غالباؔؔ ان ہی کی تسلی کے لئے نواز شریف نے لاہور والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ’’نام لینے‘‘ سے گریز کیا۔

اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے حوالے سے پھیلا کنفیوژن عمران حکومت کے اطمینان کا بنیادی سبب ہے۔ اس کے وزیروں اور مشیروں کو اصل فکر تاہم مولانا فضل الرحمن کی بابت لاحق ہے۔ وہ بہت سنجیدگی سے یہ طے کرچکے ہیں کہ PDM میں فقط مولانا ہی عمران حکومت کو ہر صورت گھر بھیجنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ انہیں ’’سنبھال‘‘ لیا جائے تو حکومت کو استحکام نصیب ہو جائے گا۔

مولانا فضل الرحمن کو قابو میں لانے پر توجہ دیتے ہوئے یہ سوچ بھی ذہن میں رکھی جا رہی ہے کہ ہمارے ’’مقتدر‘‘ حلقے بھی ان کی ’’انتہا پسندی‘‘ سے نالاں ہیں۔ مولانا کا مکو ٹھپنے والی گیم کو لہٰذا ان کی سرپرستی اور تعاون بھی فراہم ہوجائیں گے۔ نیب والے بضد ہیں کہ ان کے پاس مولانا کو گرفتار کرنے اور بعدازاں احتساب عدالتوں سے سزا دلوانے کے لئے ٹھوس مواد موجود ہے۔

مولانا اگرچہ مستقل نیب کو اپنی گرفتاری کے لئے للکار رہے ہیں۔ ان کے حامیوں نے واضح انداز میں یہ عندیہ بھی دیا کہ مولانا کی گرفتاری کے بعد ملک کے کئی شہروں میں چند ایسی’’عمارتوں‘‘ کے باہر دھرنے دئیے جائیں گے جنہیں سیاسی تصادم کے تلخ ترین لمحات میں بھی ’’غیر جانب دار‘‘ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ مولانا کو ’’بے اثر‘‘ بنانے کے لئے ان کی جماعت ہی سے’’بغاوت‘ ‘کی پشت پناہی ہو رہی ہے۔

حافظ حسین احمد گزشتہ کئی برسوں سے مولانا فضل الرحمن کی گڈبکس میں نہیں رہے۔ ان کی ’’بغاوت‘‘ اسی باعث زیادہ توجہ حاصل نہ کر پائی۔ بلوچستان کے مولانا شیرانی مگر ایک گھاک اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔

ان کی جانب سے ہوئے وار کو مولانا فضل الرحمن نظرانداز نہیں کرسکتے۔ مولانا کو فقط جمعیت العلمائے اسلام میں ہوئی ’’بغاوت‘‘ کے ذریعے کمزور بنانے کی کوشش ہی نہیں ہورہی۔ مولانا شیرانی کی ’’بغاوت‘‘ سے کہیں زیادہ اہم وہ سوالات ہیں جو دیوبندی مسلک کے مدرسوں کی تنظیم کی بابت اٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کو باور کروانے کی کوشش ہورہی ہے کہ وہ ’’دینی‘‘ تعلیم کی خاطر قائم ہوئے مدرسوں کو ’’سیاسی‘‘ مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ چندقابل اعتبار ذرائع سے مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ دینی مدرسے چلانے والوں کے ایک اجلاس میں جب ایسے سوالات اٹھے تو مولانا نے چند ’’نام‘‘ لیتے ہوئے اعتراض اٹھانے والوں کو حیران کردیا۔

چند ریاستی اداروں سے وابستہ یہ نام مولانا کی نگاہ میں مدرسوں کو ’’سیاسی‘‘ مقاصد کے لئے ہی استعمال کر رہے تھے۔ خود پر اعتراض کرنے والوں کو مولانا نے چیلنج دیا کہ مدرسوں کو فقط ’’دین کے فروغ‘‘ تک محدود رکھنے کے لئے ان ناموں سے لاتعلقی کو یقینی بنائیں۔

PDM کے لاہور والے جلسے کی ’’ناکامی‘‘ کے بعد بہت ہی پُراعتماد ہوئی عمران حکومت تاہم مولانا فضل الرحمن کو Multi Pronged حملوں کے ذریعے قابو میں لانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ یوں کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی گئی ہے کہ سیاسی اعتبار سے مولانا سب سے زیادہ Vulnerable ان ایام میں تھے جب اپنے والد مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد انہوں نے جمعیت العلمائے اسلام کی قیادت سنبھالی۔

مرحوم مفتی محمود اپنی زندگی ہی میں ضیاء حکومت کے خلاف بنائے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں شامل ہوچکے تھے۔ جمعیت العلمائے اسلام میں شامل مولانا سمیع الحق جیسے قدآور علماء نے ضیاء الحق کی ’’اسلام پسند‘‘ حکومت کے خلاف ایم آر ڈی کے نام سے بنائے اتحاد کے خلاف تحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا۔

مولانا فضل الرحمن مگر ایم آر ڈی سے وابستہ رہے۔ اس کی بدولت جمعیت العلمائے اسلام دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ 1988 کے بعد مگر مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں قائم جمعیت سیاسی اعتبار سے حیران کن حد تک طاقت ور ثابت ہونا شروع ہوگئی۔

2020 کے مولانا فضل الرحمن 1980 کی دہائی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ مؤثر ہیں۔ تنظیم سازی کے لئے ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی شہر میں اپنی جماعت کے سرکرہ رہ نمائوں سے رابطوں کو یقینی بناتے ہیں۔

2019 میں ان کی جانب سے ہوا لانگ مارچ اپنے مقاصدحاصل کرنے میں یقینا ناکام رہا۔ مولانا مگر اس سے دلبرداشتہ نہیں ہوئے ا ور بالآخر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو اپنی قیادت میں PDM قائم کرنے کو مجبور کردیا۔ مولانا کو ’’قابو‘‘ میں لانے کے لئے بہت مہارت کے ساتھ کوئی گیم سوچنا ہوگی۔ پنجابی محاورے والا ’’پکا‘‘ ہاتھ نہ ڈالا گیا تو ان کے خلاف چلی چالیں اُلٹا اثر دکھانا شروع ہوجائیں گی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

 

About The Author