نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجن پورسے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

ضلع راجن پور اور یونیورسٹی

تحریر: ملک خلیل الرحمن واسنی حاجی پورشریف تحصیل جام پور ضلع راجن پور

ضلع راجن پور پنجاب کا آخری ضلع جس کی سرحدیں سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے دیگر اضلاع سے ملتی ہیں تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل

اور اسکے اطراف میں کئی تاریخیں اور ثقافتیں دفن ہیں چاہے وہ برصغیر پاک و ہند میں داخلے کی راہیں ہوں یا تہذیب و ثقافت ہو یامعاشی اعتبار سے استحکام کے ذرائع ہوں

مگر اس کے ساتھ ساتھ یہاں سردار،وڈیرے،جاگیر دار،تمن دار ،سرمایہ دار ہر دور میں انکا بول بالا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ

تعلیمی پسماندگی کا ہر دور میں عروج دیکھنے کو ملا ہے سوفیصد تعلیمی تناسب ایک خواب ہی رہا ہے

حالانکہ اسی پسماندہ دھرتی نے کئی ایسے انمول ہیرے اس پاک دھرتی کو دیئے جنہوں نےپاکستان کوایٹمی قوت بنانے میں اہم کرداراداکیا

جن میں ڈاکٹر عبد اللہ غوری کا نام بھی قابل ذکر ہے ہفت زباں صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید نوراللہ مرقدہ جن کی شاعری نے پور ے برصغیر پاک و ہند میں تصوف اور آزادی کے جذبے کو ابھارا مگر ان سب کےباوجود تعلیمی سہولیات کا فقدان ایک المیہ رہا ہے

اور ہردور میں نالی،سولنگ،کھمبا،بجلی،ٹرانسفر،پوسٹنگ تھانہ،کچہری کی سیاست کو فروغ دیا جاتارہاہے اور اب بھی دنیاچاندپر پہنچ چکی ہے مگر ہم ابھی بھی اسی دور جہالت کے اندھیروں میں سرگرداں ہیں چند برسوں سے کچھ نوجوانوں نے یونیورسٹی کے قیام کے لئے

کوششیں کاوشیں شروع کر رکھی ہیں حالانکہ 1992 میں برادراسلامی ملک مصر کے تعاون سے انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کا باقاعدہ افتتاح ضلع راجن پور میں ہوا مگر شعور آجانے کے ڈر سے اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ،

نہ خود کچھ کریں گے نہ کسی کو کرنے دیں گے بدقسمتی سے یہ پراجیکٹ اسلام آباد منتقل کر دیا گیا اور یہاں کے غریب و مجبور و بے بس لاچار طلباء و طالبات اپنی اعلی تعلیم کے

حصول کے لئے ملک کے دوسرے بڑے شہروں کے آج بھی دھکے کھانے پر مجبور ہیں.اور ضلع راجن پور میں یونیورسٹی کاقیام آج بھی شاید ایک خواب ہے .
لیکن درحقیقت ہم توغلام ابن غلام اور ذہنی وجسمانی طور پرغلامانہ سوچ ،

تربیت اور ذہنیت کے لوگ ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے میگا پراجیکٹس نالی،سولنگ کھمبا،بجلی ہیں اور سب سے بڑھ کر ہمارے ووٹ کاصلہ یا ووٹ کی اہمیت ہماری خوشی غمی یا تعزیت ہے جب ہماری کوئی خوشی ہو ہمارے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی جو کہ ہمارے ووٹ کی پرچی کی دی ہوئی

طاقت سے نایاب ہوجاتے ہیں ہمارے فنکشن میں صرف شرکت فرمالیں وہ برسوں تک اعزاز اور میت پر تعزیت کے لیئے آجائیں تووہ بھی برسوں تک احسان مند ہوجاتے ہیں ہم نے تو ان چیزوں کو اہمیت دی ہے ہم نے تعلیم کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی،

یہی وجہ ہے کہ کم و بیش 30 لاکھ سے زائد آبادی کے لئے صرف ضلع اور تحصیل کی سطح پر چند کالج وہ بھی مکمل سٹاف سہولیات اور شعبہ جات سےمحروم،ٹائون کمیٹیز کی سطح پردو ، تین ہائیر سکینڈری سکول ،نصف درجن سےزائد ہائی سکول ،

چند درجن مڈل سکول ،چند سو پرائمری سکول اور اسی تناسب سے اساتذہ کرام اور یہ کل مل ملا کے چند ہزارسکول جوکہ روز بروز بڑھتی آبادی کے لئے انتہائی کم اور ناکافی بھی دور جدید اور عصر حاضرکی ٹیکنالوجی اور

جدید سہولیات سےمحروم بھی ہیں اور خاص طورپرطالبات کے لیئے آج بھی بنیادی اور اعلی تعلیم کاحصول کسی معرکہ سے کم نہیں،تعلیمی ریٹنگ پنجاب اورپاکستان کے دیگر اضلاع سے موازنہ کریں تو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوگا

مگر اس کے مقابلے میں ہر دور میں فنڈز کابےدریغ استعمال چاہے وہ سکولوں کی عمارت،تزئین و آرائش ،فرنیچر،پینے کے پاک صاف میٹھا پانی کی فراہمی ہو، سائنس لیبارٹریز ہوں یا کمپیوٹر لیبز،لائبریریاں ہو یاکھیلوں کے سامان یا کھیلوں کے مواقع نان سیلری

بجٹ ہوں فائلوں یاکرپشن کی نذر ہوگئے یا فنڈز واپس کردیئے گئے،یا مزید تعمیروترقی کے مواقع ……………….

ہر چیز سے گویا ہم لوگوں کو جان بوجھ کر محروم رکھا گیا اور رکھا جارہا ہے.اور انتہائی معذرت کیساتھ کہ ہم میں سےکتنےہونگےجنہوں نے اس چیز کا متعلقہ حکام سے فراہمی کا کبھی بھول سے مطالبہ کیاہو……….؟
توکیسےممکن ہےکہ اسطرح کی سہولیات ہمیں میسر ہوں اب بھی تحریک انصاف کی حکومت جس نے جنوبی پنجاب بالخصوص ضلع راجنپور میں کلین سوئیپ کیا جبکہ یہ وہی لوگ تھے، ہیں اور شاید ہونگے ؟ بھی جو ہر برسر اقتدار حکومت کا ہردورمیں

حصہ رہے ہیں قومی اسمبلی کی تینیوں سیٹوں این اے 193،194،195 اور پنجاب اسمبلی کی پانچوں نشستوں پی پی 293،294،295،296،297 میں اپنا صوبہ اپنااختیار کےمنشور کے بلند بانگ دعوووں اور نعروں کے سبب بھر پور کامیابی حاصل کی اور

تحریک انصاف کے دور حکومت کو تین سال مکمل ہونے کو ہیں مگر مجال ہے سوائے صحت انصاف کارڈ ،احساس کفالت پروگرام کے کسی میگا پراجیکٹ کا آغاز تو دورکی بات؟ صرف اعلان ہی ہوا ہو.؟ جبکہ پنجاب کے دیگر

اضلاع میں کروڑوں اربوں روپے کے بجٹ………….مگر اسکے باوجود حالانکہ پنجاب اسمبلی میں کئی مرتبہ تحریک التواء توجہ دلائو نوٹس،بارہا وزیر اعلی پنجاب اور وزیر اعظم پاکستان سے ملاقاتوں اور یونیورسٹی کے قیام کی باتیں تو کی گئیں مگر ……..؟
جبکہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار بھی اسی وسیب کے ہیں،

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری بھی اسی ضلع سے ہیں ڈپٹی سپیکرپنجاب اسمبلی ،سابق فنانس منسٹر،موجودہ لائیوسٹاک منسٹر،منسٹر ایریگیشن، اورنامعلوم کتنے بڑےبڑے عہدےکتنے بڑے بڑے نام اس ضلع سےہیں

مگرقاتل خونی کمشور تا ڈی جی خان خونی روڈ آج بھی دورویہ ہونےکا منتظر ہے جہاں ہر سال ہزاروں لوگ آئے روزحادثات کے سبب زندگی بھر کے لیئےمعذور،قیمتی جانیں لقمہ اجل اور مالی نقصان اسکے علاوہ اسطرف توجہ نہیں دیجارہی تو یونیورسٹی کا قیام کب ممکن ہے؟
اس لیئے یونیورسٹی قیام تحریک کے سرگرم اراکین و کارکنان اور

نوجوانوں سے دست بستہ عرض ہے کہ یہ کہہ کر مقصد آپکے عزم وحوصلے کو پست کرنا مقصود نہیں بلکہ اس کو تقویت دینا ہے بجائے احتجاج یاتوانائیاں ضائع کرنے کے اپنے اس عظیم مقصد کو کامیاب اور نتائج کے بہتر حصول کے لیئے

ویلج اور نیبرہڈ کونسلز کی سطح پر موجود اپنے سکولوں پر توجہ دیں وہاں کا کوئی بچہ یا بچی تعلیم سے محروم نہ ہو اسکے لیئے یکساں تعلیمی مواقع اور سہولیات بلا تفریق مہیاء ہوں اور گھر کی دہلیز پر بنیادی اور ابتدائی تعلیم کا حصول ممکن ہو

،اور سرکاری سطح پرمیٹرک تک اس کو یقینی بنایاجائے اگر یہ سہولیات میسر نہیں تو متعلقہ علاقہ کے لوگ ملکر اسکو یقینی بنائیں یہ کام تو ڈپٹی کمشنر لیول کا افسر اور چیف ایگزیکٹو اتھارٹی سطح کا افسر بھی کرسکتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی بڑے فنڈز ضرورت ہیں بشرط یہ کہ وہاں کے مکیں اور اہل علاقہ چاہیں

تو،اسی طرح ٹائون کمیٹیزمیں ہائیر سکینڈری سکولز،کالجز،گورنمنٹ ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹس،میونسپل کمیٹی اورتحصیل سطح پر پوسٹ گریجوئیٹ کالجزاور ضلع کی سطح پر یونیورسٹی کاقیام خودبخود قابل عمل ہوگا.

کیونکہ ملک کے دیگر بڑےشہروں میں کئی کئی یونیورسٹیاں اورانکے کیمپس موجود ہیں تو یہاں بھی پھرممکن ہے کیونکہ یونیورسٹی کے قیام سے جہاں تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ ہوگا وہی ہزاروں خاندانوں کے لیئے روزگارکےبہتر مواقع بھی میسر ہونگے دوسرےشہروں کے لوگ بھی یہاں کا رخ کریں گے کاروباری اور

سرمایہ کاری کے مواقع بھی میسر ہونگے،ترقی و خوشحالی ہمارے پسماندہ ترین ضلع کا بھی مقدر ہوگی. میگا پراجیکٹس خودبخود آئینگے ان شا ء اللہ اور اس تحریک کے ہر اول دستہ نوجوانوں سے اپیل ہوگی کہ

اب اس مہم وتحریک کو رکنےنہ دیا جائے کیونکہ اب چہرے بدلنے سے نہیں سوچ بدلنے سے کچھ حاصل ہوگا

جو کہ اب بدل چکی ہے.اور جس قوم کےنوجوان کچھ کرنے کا ٹھان لیں تو جلد ممکن ہے اپنے مقصد کو پالیں منزل کو پالیں. بےشک روکاوٹیں بھی آئیں گی،

دشواریوں کابھی سامنا ہوگا کچھ دوست بھی ساتھ چھوڑ جائیں گے مگر…………..

ملک خلیل الرحمن واسنی حاجی پورشریف تحصیل جام پور ضلع راجن پور، پنجاب ، پاکستان
فون نمبر 03316014788،Email: Wasnikhalil@gmail.com

About The Author