نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

16 دسمبر۔ سقوط ڈھاکہ۔۔۔ظہور دھریجہ

اس کے بعد یہ نعرہ اور ہتھیار ہر بنگالی کے ہاتھ آ گیا ۔ اسلام آباد کے حکمرانوں کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ 1960ء کے عشرے میں جب اسلام آباد دارالحکومت بنا تو اسلام آباد کے متاثرین کو رقبے سرائیکی وسیب میں ملے ۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو 49 برس بیت گئے مگر آج تک سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب پر غور نہیں کیا گیا اور نہ ہی آج تک مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ داروں کا تعین ہو سکا ۔
آج جو حکمران ہیں کل اپوزیشن میں تھے اور آج جو اپوزیشن میں ہیں وہ کل حکمران تھے مگر کسی نے بھی آج تک مسلم امہ کے اتنے بڑے سانحے پر سنجیدگی نہیں دکھائی ، تحریک انصاف کو تیسرا سال شروع ہے ، تحریک انصاف محروم و پسماندہ علاقوں کے ساتھ ساتھ محروم طبقات کو ریلیف دینے کے وعدے پر بر سر اقتدار آئی تھی مگر ریلیف کی بجائے تکلیف ملی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اپنے جلسہ لاہور کے دوران جو قراردادیں منظور کیں ان میں اپنے اپنے مقصد کی قراردادیں تو شامل کی گئیں مگر تحریک انصاف کو سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ یاد نہیں دلایا گیا ۔
اگر اپوزیشن اور حکمران جماعت کا یہی طرز عمل رہا تو محرومی کے زخم بڑھتے جائیں گے ۔ پاکستان مختلف قوموں اور مختلف ثقافتوں کا خوبصورت گلدستہ ہے ۔ اسے ہم مختلف رنگوں اور مختلف زبانوں کا حسین امتزاج بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان رنگوں کی خوشبو سے استفادہ کیا جائے اور پاکستانی زبانوں کو ان کا مقام دیا جائے ۔ یہ حقیقت ہے کہ 16 دسمبر ،سقوط ڈھاکہ کے بعد سانحہ پشاور کی وجہ سے اس دن کا صدمہ دوہرا ہو گیا ۔ یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ تاریخ انسانی اسے کبھی نہیں بھول پائے گی ۔
دہشت گردوں نے جس درندگی اور بربریت کا مظاہرہ کیا اور پھول جیسے بچوں کو شہید کیا تو دوسرے دن جنازے کے موقع پر پوری دنیا بول اُٹھی کہ جنازوں پر پھول سب نے دیکھے تھے ، پھولوں کے جنازے پہلی مرتب دیکھے ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ہماری پاک افواج اور دیگر اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بہتر نتائج سامنے آئے اور دہشت گردی کے واقعات میں بہت حد تک کمی آئی ۔ اگلے قدم کے طور پر دہشت گردی کے اسباب غربت ‘ جہالت ‘ بے روزگاری اور نا انصافی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔
ملک میں تحریک انصاف بر سر اقتدار ہے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ بھی نا انصافی کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ۔ کیا موجودہ حکمران مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب پر غور اور نا انصافی کے خاتمے کیلئے اقدامات کریں گے ؟
یہ ٹھیک ہے کہ علیحدگی کے ہزاروں اسباب کی لب کشائی کے باوجود ابھی ہزاروں عوامل ایسے ہیں جن پر مصلحتوں کی گرد جمی ہوئی ہے اس خوف سے اس پر بات نہیں کی جا رہی کہ لوگ باخبر نہ ہوجائیں کیونکہ جو سلوک مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے ساتھ کیا جارہا تھا اس سے ملتا جلتا اور بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ برا سلوک بقیہ پاکستان کی مظلوم قوموں خصوصاً وسیب کے ساتھ آج بھی ہورہاہے مگر آج کے بڑی حقیقتوں کو پوشیدہ رکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
محب وطن لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے عوام کی نشاندہی نہ کر کے وسیب کے عوامی نمائندوں نے بھی بے انصافی کی اور آج کے محب وطن لکھاری ایسی حقیقتوں سے نہ صرف نظر کر کے اہم قومی فرض سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ ایوب خان کے دور میں دار الحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا ،کروڑوں کی لاگت سے کارپٹ سڑکیں بننے لگیں تو بنگالی رہنما مولانا عبدالحمید بھاشانی نے احتجاج کیا، دوسری مرتبہ جب مولانا عبد الحمید بھاشانی کراچی سے اسلام آباد پہنچے تے انہوں نے دوزانوہو کراپنا ماتھا اسلام آباد کی سڑک پر رکھا‘
اسلام آباد کے عاقبت نا اندیش حکمرانوں نے سمجھا کہ مولانا بھاشائی عقیدت سے نئے دارالحکومت کی زمین کو بوسہ دے رہے ہیں مگر مولانا بھاشائی نے اس موقعہ پر ایک تاریخی فقرہ ’’اس سڑک سے مجھے اپنی پٹ سن کی خوشبو آ رہی ہے ‘‘بولا‘ پھر وہی فقرہ مشرقی پاکستان کے محروم انسانوں کا سب سے بڑا نعرہ اور ہتھیار بن گیا ‘
اس کے بعد یہ نعرہ اور ہتھیار ہر بنگالی کے ہاتھ آ گیا ۔ اسلام آباد کے حکمرانوں کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ 1960ء کے عشرے میں جب اسلام آباد دارالحکومت بنا تو اسلام آباد کے متاثرین کو رقبے سرائیکی وسیب میں ملے ۔
اب بھی ملتان اور خانیوال میں اسلام آباد کے متاثرین کے نام سے چکوک موجود ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ سرائیکیوں کو اتنی قربانیوں کا کیا صلہ ملا؟ جمہوری لحاظ سے بنگالی بھائی 52فیصد حصے کے حقدار تھے ‘ مگر ان کو دار الحکومت‘ حکومت اور ملازمتوں وغیرہ میں مناسب حصہ نہ دیا گیا ‘ ان کی قدم قدم پر توہین کی گئی ‘ ان کی زبان وثقافت پر کیچڑ اچھالی گئی ‘ مغربی پاکستان کے ا خباروں میں انہیں بھوکے بنگالی اور خواجہ نظام الدین کو خواجہ ہاضم الدین لکھا گیا ‘ بنگالیوں کو ’’چار فٹے ، کالے کٹے‘‘ لکھا گیا ، بنگالیوں نے حقوق مانگے تو انہیں غدار کہا گیا ‘
مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کے مظلوم بنگالیوں کی حمایت میں ایک فقرہ تک ادا نہ ہوا۔ یہ دلیل دی گئی کہ کیونکہ صوبہ بنگال آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے لہٰذا صوبوں کی آبادی کو متوازن کرنے کے لیے ’’پیریٹی ‘‘کے اصول پر ون یونٹ ضروری ہے ‘اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اُس وقت صوبوں کی آبادی کو متوازن کرنا ضروری تھا تو اب ساٹھ فیصد آبادی کا ایک صوبہ اور چالیس فیصد آبادی کے تین صوبے کیسے درست ہیں ؟
اب پیریٹی کا اصول کہاں گیا ؟ جس طرح قیام پاکستان کی بنیاد 1906ء میں اس وقت رکھ دی گئی جب بنگال میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اسی طرح مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد بھی 1947ء میں رکھ دی گئی ۔ مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں نے احتجاج کیا کہ جس زبان کو ہم نہ لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں ہم پر مسلط کر کے ہمیں جاہل اور غلام رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ‘
بنگالی نوجوانوں نے مسلسل احتجاج کرنا شروع کر دیا اور مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ۔ہنگامے ہوئے اور کئی طلبا مارے گئے۔ انہی طلبہ کی یاد میں 21فروری کو پوری دنیا میں ماں بولی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیشہ حق تلفیوں کے باعث جغرافیے تبدیل ہوئے جس کی ایک مثال 16دسمبر 1971ء سقوط ڈھاکہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ

About The Author