نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

”بہاریں سوگ میں ہیں“ ۔۔۔ اشفاق لغاری

جہلم سے جدا ہونے والے گلزار کے غم کی شاعری ہے۔ یہ شاعری ”نچ کر یار منانے“ والوں کی شاعری ہے۔ یہ شاعری انسان کی عظمت بچانے اور بڑھانے کے لیے مزاحمت کرنے والے کرداروں کی شاعری ہے۔

اشفاق لغاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جن دنوں دوری کا درس عام ہے۔ ملاقات سے فاصلے پر رہنے میں بہتری ہے۔ ہر فرد وہ کتنا ہی محبوب کیوں نہ ہو، اس کے دور رہنے میں ہی بہتری ہے۔ چھ فٹ کے فاصلے کی ہدایات ہر سو سنائی دے رہی ہیں۔ ایسے دنوں میں امریکا میں مقیم شاعر و صحافی حسن مجتبیٰ کا شعری مجموعہ ”تم دھنک اوڑھ لینا“ ملن کی چاہت لے کر ہمارے ہاتھوں میں پہنچا ہے۔ یہ دن ہجر و وصال کے گیت لکھنے والے شاعر حضرات کے پیغام کا مکمل رد ثابت ہوئے ہیں۔ نیویارک سے لے کر نواں کوٹ سندھ تک ملن کی تمنا کے شہید کورونا وبا نے ایک جیسے کر دیے ہیں۔

سانسوں سے سانس اور ہاتھوں سے ہاتھ ملانے سے گریز کرنے کی بات دنیا کے ہر کونے سے سنائی دے رہی ہے۔ اگر ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے اور ایک سانس دوسری سانس سے ملی تو سانسوں کا قائم رہنا خطرے میں پڑ جائے گا۔ کورونا کی وجہ سے زندگی میں پہلے جیسی زندگی نہیں رہی۔ بازار اور بار ویران ہیں۔ صرف ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت والے وارڈ آباد ہیں۔ صدیوں کی تنہائی یکجا ہو کر آج کے انسان کا مقدر بن گئی ہے۔ جس نیویارک کی روشنیوں میں سارا جہاں رقص کرتا تھا، اس شہر کا اب بقول مجتبیٰ یہ عالم ہے۔

موت کی چادر پہن کر سو گیا
شہر میرا جو ہمیشہ جاگتا تھا
جاگتا تھا پیار اس میں
اور کہانی جاگتی تھی
جاگتی اس کی جوانی جاگتی تھی
”رقص میں سارا جہاں تھا“
اب بہاریں سوگ میں ہیں
اور خوشبو مر گئی کب سے یہاں
ایک اپریل کا مہینہ
اور اداسی راستے روکے کھڑی ہے
جائے گا تو اب کہاں
اے مسافر

میلوں، ملاپوں، تنہائیوں، اداسیوں، ویرانیوں اور کتنی ہی کربلاؤں کی کہانیوں کی یہ شاعری ڈاکٹر منظور اعجاز سے لے کر محمد حنیف کے دل کی تاروں کو چھونے کے بعد مجموعے کی صورت میں عام ہوئی ہے۔ مجتبیٰ کی نظمیں شاعری کا معجزہ ہیں۔ ان کی نظم اگر قلندری دھمال پر ہے تو پڑھتے اور سنتے وقت آپ خود کو قلندر شہباز کی درگاہ کے آنگن میں موجود پاؤ گے۔ کرداروں اور مختلف جگہوں پر مجتبیٰ نے جو نظمیں لکھی ہیں ان کو دنیا کے مقبول شاعرانہ پروفائل و تعزیت نامہ کہا جا سکتا ہے۔

فہمیدہ ریاض، سبین محمود، جپسی لکھاری عینی ( عینی علی خان) ، نیویارک و دیگر شہروں اور جگہوں پر لکھی نظمیں قاری کو ایک لمحے کے لیے اپنے آس پاس سے کاٹ کر اپنے خیال میں جکڑ لیتی ہیں۔ حوالہ کے طور پر یہاں کتنے ہی شعر لکھنے کو دل کر رہا ہے مگر ایسا کرنے سے ڈر ہے کے کہیں شعروں کی دھنک بکھر نہ جائے۔

سچل سائیں، پیر اعجاز، بابا فرید، جانن چن اور فقیر امام دین ڈکھن کے ڈکشن کے شاعر حسن مجتبیٰ، سندھی، پنجابی اور اردو میں شعر کہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ ان کی شاعری میں اپنی ذات کم، اپنا ارد گرد زیادہ پایا جاتا ہے۔ مذکورہ شاعری میں ماضی حال کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے۔ یہ شاعری سمندری لہروں کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے یاد آتے کرداروں، جگہوں اور واقعات کی شاعری ہے۔ یہ دل کے اندر سے زیادہ دل کے آس پاس کی شاعری ہے۔

یہ ٹنڈو بہاول، شاہ بندر، پکا قلعہ حیدرآباد، لیاقت باغ پنڈی، گڑھی خدابخش۔ لاڑکانہ کے شہیدوں کی شاعری ہے۔ یہ ملالہ یوسفزئی، شاہی قلعہ لاہور کے قیدیوں اور کل اور آج کے لاپتا کیے گئے پیاروں اور جانثاروں کی شاعری ہے۔ یہ اپنا ہی گھر فتح کرنے والے چوکیداروں سے نفرت کی شاعری ہے۔ یہ شاعری انسانی حقوق کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کی شاعری ہے۔ یہ شاعری زبان بندی اور قلم کے قید کے خلاف شاعری ہے۔ یہ شاعری اپنی ماں دینا۔

جہلم سے جدا ہونے والے گلزار کے غم کی شاعری ہے۔ یہ شاعری ”نچ کر یار منانے“ والوں کی شاعری ہے۔ یہ شاعری انسان کی عظمت بچانے اور بڑھانے کے لیے مزاحمت کرنے والے کرداروں کی شاعری ہے۔ یہ زخمی تتلیوں، جلتے کچے گلابوں اور ٹوٹی پازیب کی شاعری ہے۔ یہ شاعری عاشقی کی راہوں میں پڑے کانچ کے ٹکڑوں کے اوپر سفر کرنے والے پریمیوں کی شاعری ہے۔ یہ شاعری ماضی کا قصہ بننے والے نظریات اور نعروں کی یاد کی شاعری ہے۔

یہ شاعری سوہنی اور ہیر کی شاعری ہے۔ یہ شاعری مادھو لال حسین، باری امام اور گاجی شاہ کے میلے کی شاعری ہے۔ یہ شاعری ان یاروں کی شاعری ہے جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب رہے مگر موت نے ان کو ہم سب سے دور کر دیا۔

”تم دھنک اوڑھ لینا“ کتاب میں مجتبیٰ کے پنجابی میں کیے گئے تراجم بھی شامل ہیں۔ جن میں ایک نظم سندھی کے خوبصورت شاعر کوی علی کی ہے۔ جو آج کے پاکستان کی بڑی آواز مریم نواز کے نام منسوب کی گئی ہے۔

چنگا او میری ماں پیاری ماں
میں پئی جاندی آں ہن
دیس دے ویر میرے پئے سد دے پئے
ایہہ زنجیر مینوں پئے سد دے پئے
چنگا او میری ماں

وچار پبلشرز کی جانب سے چھاپی گئی یہ کتاب ہم سب تک پہنچانے میں ڈاکٹر منظور اعجاز کا کردار ہے۔ ڈاکٹر منظور اعجاز امریکہ میں ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے زبانوں کے تحفظ اور ترقی کے لیے کام کرنے والے تقریباً اداروں سے زیادہ پنجابی زبان کے لیے کام کر رہے ہیں۔ مجتبیٰ کی دھنک ہم تک پہنچانے پر ڈاکٹر منظور کا دل سے شکریہ۔

یہ بھی پڑھیے:

نایاب سیاسی نسل کے سیاستدان کی جدائی! ۔۔۔ اشفاق لغاری

ظالم صوبائی اکائیاں اور مظلوم وفاق! ۔۔۔ اشفاق لغاری

قوم کے بچے ہود بھائی اور حنیف نہیں، فیاض الحسن چوہان پڑھائیں گے! ۔۔۔ اشفاق لغاری

About The Author