دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسرائیل: مشیر کی سنیں یا ضمیر کی؟۔۔۔عفت حسن رضوی

اسرائیلی اور امریکی پرچم جلائے گئے، پتلے جلانے کی رسم بھی ادا ہوئی۔ یوں افطار سے قبل مقبوضہ فلسطین آزاد ہوا یا نہیں البتہ ہم اپنے گھروں کو آگئے۔ واپسی کے بعد آزادی کے کون سے بُت ڈھائے گئے وہ کہانی الگ ہے۔لغت گالیوں کی بھی تو ہونی چاہیے!

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلی دہائیوں کے بچے ایسے ہی ننھیال ددھیال اور محلے والوں کے یہاں بڑے ہو جاتے تھے۔ اماں ابا کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی کہ ان کا لعل دن بھر کہاں رہا، بیٹی کس محلے والی کے ساتھ کھیل رہی ہے۔

یہ غالباً دو ہزار دو  کی بات ہے۔ کراچی میں ہم چند لڑکیاں محلے کی ایک باجی کے پاس قرآن پاک پڑھنے جاتے تھے۔ باجی نے کہا محلے سے ایک بس تبت سینٹر جا رہی ہے جہاں فلسطین کی آزادی کی ریلی ہے جو چاہے ساتھ چلے۔

وہ رمضان کا آخری جمعہ تھا اور وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اسے یوم القدس کہتے ہیں۔ ہم مزار قائد تا تبت سینٹر ریلی کے ساتھ چلے، ’مرگ بر اسرائیل‘ اور ’مرگ بر امریکہ‘ کے نعرے لگے۔ شاید کیا بلکہ یقیناً نوجوانوں کی اکثریت کو علم نہیں ہوگا کہ کراچی کی سڑکوں پہ ’القدس لنا والارض لنا‘ کا جو نعرہ لگا کر ہمارے گلے بیٹھے جا رہے ہیں یہ القدس ہے کہاں۔

اسرائیلی اور امریکی پرچم جلائے گئے، پتلے جلانے کی رسم بھی ادا ہوئی۔ یوں افطار سے قبل مقبوضہ فلسطین آزاد ہوا یا نہیں البتہ ہم اپنے گھروں کو آگئے۔ واپسی کے بعد آزادی کے کون سے بُت ڈھائے گئے وہ کہانی الگ ہے۔

1947 میں جب پاکستان والے برس ہی اسرائیل بھی وجود میں آیا تو اکابرین اور ریاست پاکستان نے فیصلہ کیا کہ اسرائیل کو نہیں مانیں گے سو نہیں مانا۔ بائیس پچیس کروڑ پاکستانیوں میں کتنے ایسے ہوں گے جنہوں نے اسرائیل کے معاملات میں دلچسپی لی ہو؟ چند سو سے زیادہ نہیں۔ جس گلی جانا نہیں اس کا راستہ ناپ کر کیا کرنا۔

پاکستانیوں نے بھی من و عن قبول کر لیا کہ اس نام کی کوئی ریاست سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہم نے تسلیم کر لیا کہ ہم مسلمانوں کا ایک مشترکہ دشمن اسرائیل ہے، ایسا دشمن کے وجود سے ہم انکاری ہیں۔ جسے ہم مانتے نہیں اسے سمجھ کر کیا کرنا۔

یہودیوں کی نسل کشی، اسرائیل کی تاریخ، اس کا محل وقوع، فلسطینی زمین پر اسرائیلی قبضہ، اس قبضے میں خود مسلمانوں کی اپنی کمزوریاں، مسلم رہنماؤں کی ناعاقبت اندیشیاں، فلسطین کے ہمسائے مسلم ریاستوں کی سرد مہری وغیرہ۔ ان گہرائیوں میں جا کر کرنا ہی کیا ہے جب یہ طے ہو چکا کہ فلسطین کی آزادی تک بات چیت بند ہے۔

مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کے تو عملی طور پر دن لدھ گئے اس کا ذکر ہی کیا۔ فلسطین سے اٹھنے والی بی ڈی ایس تحریک کا ہماری عوام کو شاید علم بھی نہ ہو، یہ اسرائیل کے بائیکاٹ، اور اس پر پابندی لگانے کی مطالبے کی عالمی تحریک ہے جسے امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں خاصی پذیرائی ملی۔ پاکستان کا اس تحریک میں براہ راست کوئی کردار نہیں۔

اسرائیل فلسطین امن معاہدے ماضی میں بھی ہوتے رہے، ٹرمپ حکومت نے بھی کیے۔ ان معاہدوں میں پاکستان فریق ہے نہ ہی جغرافیائی طور پر ہماری ٹانگ اڑانے کی کوئی تُک بنتی ہے۔ خیر سے فلسطینی بھی مسئلہ کشمیر پر ہمارا حال دیکھ کر بہت کچھ سمجھ گئے ہیں۔

خلیجی ممالک کی اپنی سیاست ہے۔ ایران کی بیت المقدس پر اپنی پالیسی ہے ان سب میں بھی پاکستان کا کوئی براہ راست اثر و رسوخ نہیں، نہ کہیں سے کوئی دعوت ملتی ہے کہ پاکستان اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کرے۔

ہم اسرائیل کے نام سے ایسے انجان بنے رہتے ہیں کہ اب اس کا ذکر بھی نکلے تو ایک عجیب تھرلر آپ ہی آپ پیدا ہو جاتا ہے۔ تل ابیب کسی دیومالائی داستان کا ممنوع مقام محسوس ہوتا ہے جہاں رہنے والےسارے یہودی اس ظلم و جبر کی سلطنت کے سپاہی ہوں۔

اب یہ عالم ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے یہ سسپنس ڈراما قسط وار چل رہا ہے کہ سابق جنرل پرویز مشرف اسرائیل سے دوستی چاہتے تھے، نہیں نہیں بالکل نہیں۔ سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری سے اسرائیلی وزیر خارجہ ملے یا نہیں، کہہ دو کہ یہ جھوٹ ہے۔ پھر یہ اڑی کہ اسرائیلی طیارہ پاکستان اترا، کچھ دیر ٹھہرا اور پھر تل ابیب واپس چلا گیا، اس خبر کو بھی جھوٹ کہا گیا۔

اور اب اس کی تازہ قسط یہ خبر کہ ایک مسلم ملک کے حکمران کا مشیر لندن سے تل ابیب پہنچا، کئی ملاقاتیں ہوئیں اور اہم پیغام پہنچایا۔ کئی اسرائیلی اخبارات میں رپورٹ کرنے والے صحافی جو اس خبر کا پرچار کر رہے ہیں کہہ رہے ہیں خلیجی ممالک کے دباؤ پر پاکستان کے موقف میں نرمی آئی ہے وغیرہ وغیرہ۔

باوجود اس کے کہ کئی بار وزیراعظم عمران خان اسرائیل ماننے سے انکاری ہوئے، عجب اتفاق ہے کہ ان کے حلف لیتے ہی اسرائیل کا موضوع کئی بار، بلکہ کچھ عرصے بعد بار بار چھڑ جاتا ہے۔ وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ مظلوم فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ دیں یہ ضمیر تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن سوال پھر وہی آجاتا ہے کہ وزیر اعظم ضمیر کی سنیں گے یا مشیر کی؟

فلسطین ہمارے نعروں، ہماری عاؤں اور تقریروں میں ہے لیکن ملک کے وسیع تر مفاد میں اسرائیل کہاں ہے اور فلسطین کہاں، اس پر ریاستی اور عوامی رائے کیا ہے۔ ہم فی الحال کنفیوژ ہیں۔ تہتر برسوں کے اس انکار سے اب تک ہم اسرائیل کا کچھ بگاڑ سکے نہ فلسطین کی کوئی مدد ہوسکی، چلیں ان سچی جھوٹی خبروں کا ایک فائدہ تو ہوا کہ اسرائیل کی ان دیکھی ریاست، اس کی سیاست اور عالمی منظر نامے میں اپنی حیثیت کو پرکھنے کا موقع مل گیا۔

یہ بھی پڑھیے:

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

About The Author