عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دنوں بعد وزیراعظم کے کُتے دیکھے۔ بالکل تر و تازہ، ہشاش بشاش، چہکتے ہوئے اور پُرسکون۔ دونوں مالک کی قربت پا کر مطمئن اور خوشحال۔۔۔
وزیراعظم کے ہاتھ میں بڑے گول برتن کی جانب دیکھتے ہوئے، اٹھکیلیاں کرتے ہوئے، مستی میں گُم۔۔۔ بس اسی ایک تمنا میں کہ اُن کا مالک اُن کے سامنے رہے، اُنھیں وقت دے، اُنھیں کھانا کھلائے اُن کی پُشت تھپتپائے۔
نہ زمانے کی پرواہ نہ وقت کا احساس۔۔ تھکاوٹ دور کرنے کو محبت اور ان کی محبت میں تمام غم غائب۔ بہرحال یہ تاریخی تصویر ’نیرو کی بانسری‘ کی طرح امر ہو چکی ہے۔
تصویر ’جاری‘ کرنے کا مقصد یہ تاثر دینا بھی تھا کہ وزیر اعظم کو حزب اختلاف کے جلسوں کی رتی برابر پرواہ نہیں اور ہو سکتا ہے کہ نہ بھی ہو کیونکہ بقول اپوزیشن ان کے مخاطب تو وہ ہیں بھی نہیں۔ تو پھر پی ڈی ایم کے لاہور کے ’ریفرنڈم‘ سے قبل یہ پیغام کیوں دیا گیا کہ ’لُک آئی ایم چِلنگ۔‘
اگلے ہی دن اخبارات کے صفحات اشتہاروں سے کالے کر دیے گئے تاکہ نواز شریف اور پی ڈی ایم کے بیانیے کو سامنے کے صفحات پر جگہ ہی نہ مل سکے۔
سرکاری اشتہار پر مبنی تصویر یہ پیغام بھی دے رہی تھی کہ مریم نواز شریف کے لاہور کو جگانے کی ساری کارروائی، مولانا کی ساری طاقت، بلاول کا سارا جذبہ بس ایک تصویر، چند اشتہاروں اور ایک، دو ٹی وی نشریوں کی ہی مرہون منت ہے اور بظاہر ایسا ہی ہوا۔
تیرہ دسمبر کی صبح کے ساتھ ہی مینار پاکستان کے عقب میں گریٹر اقبال پارک پر کیمرے فکس کر دیے گئے، اور پھر گنتی شروع ہو گئی۔ دوپہر دو بجے تقریباً خالی جلسہ گاہ کا ڈھول اس حد تک پیٹ دیا گیا کہ اپوزیشن اور باقی کا میڈیا قسمیں کھاتا رہ گیا کہ تعداد پانچ ہزار سے زیادہ تھی۔
یوں دن بھر پانچ ہزار، چھ ہزار کا شور سُن سُن کر اپوزیشن بھی کہہ اُٹھی کہ تعداد کم از کم چھ ہزار تو نہ تھی۔ حکومت کی اس فخریہ کارکردگی کو اگلے دن ترجمانوں کے اجلاس میں خوب سراہا گیا اور آئندہ بھی اسی طرح اپوزیشن کو میڈیا کے ہاتھوں زیر کرنے کا لائحہ عمل ترتیب دے دیا گیا۔
کہتے ہیں کہ ’لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکا واپس اپنے ہی منھ پر مار لینا چاہیے۔‘ سو جو لائحہ عمل اپوزیشن جماعتوں کو جلسے میں بتانا چاہیے تھا وہ اگلے دن اُنھیں ایک پریس کانفرنس میں بیان کرنا پڑا۔
یہ وعدہ بھی کہ 31 دسمبر تک مولانا کے ہاتھ استعفے، 31 جنوری تک حکومت کو رخصتی کی ڈیڈ لائن اور یکم فروری کو لانگ مارچ کی نئی کال۔۔۔ یوں حکومت کی میڈیا کے لیے حکومت عملی نے ’آر یا پار‘ کا دعویٰ کرنے والی اپوزیشن کو ’گَل ویلے دی، پھل موسم دا‘ کا محاورہ ضرور یاد کرا دیا۔
ہو سکتا ہے کہ دسمبر کی اس سردی اور یخ بستہ راتوں میں اپوزیشن بیٹھ کر یہ سوچ لے کہ غلطی کہاں ہوئی ہے اور ’آئندہ غلطی کا امکان تو نہیں؟‘ یہ بھی لگے ہاتھوں سوچ لیا جائے کہ تحریک کو نئی ڈائریکشن کیسے ملنی چاہیے اور یہ بھی کہ صحیح وقت اور صحیح فیصلوں کے لیے کب کس جگہ کا انتخاب ہونا چاہیے؟
لاہور کا جلسہ بڑا تھا یا نہیں، لوگ آئے یا نہیں مگر اس جلسے کا بیانیہ بے حد اہم تھا جو آنے والے دنوں میں مزید اہمیت اختیار کر جائے گا۔ لانگ مارچ سے حکومت جائے یا نہ جائے مگر وسطی پنجاب میں اینٹی اسٹیبلیشمنٹ بیانیہ خطرے کی گھنٹی ضرور بجا رہا ہے۔
ایسے میں کیا حکومت کو ایسے ہی ’چِل‘ کرنا چاہیے۔ کیا وزیراعظم کو ٹائیگر اور شیرو کے ساتھ یونھی فرحت بخش لمحات میں مگن رہنا چاہیے، سردیوں کی شاموں میں دہکتے الاؤ، گرم مکان میں مونگ پھلیاں چبانا چاہیں اور لاہور کے ’ناکام‘ جلسے پر مطمئن رہنا چاہیے؟
مہنگائی، بیروزگاری عوام میں مسلسل اشتعال پیدا کر رہی ہے اور اضطراب بھی۔۔۔ مقتدر حلقے کب تک لاتعلق رہیں گے؟
پریشانی اصل ارباب اختیار کو ہی ہے کیونکہ وہ ان سینیئر سیاستدانوں کو جانتے ہیں اور پُرانا پہچانتے ہیں۔ پنجاب میں بیانیے کی مسلسل پذیرائی جہاں مقتدر حلقوں کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے وہاں ’اُن‘ کو اپوزیشن سے بات کرنے پر مجبور بھی کر سکتی ہے۔ آخر کب تک چوک چوراہوں پر اسٹیبلیشمنٹ مخالف تقاریر اور بیانات چلتے رہیں گے۔
بہر حال لانگ مارچ شروع ہوا اور اسلام آباد کی کال آئی تو دیکھتے ہیں کہ سرد شاموں میں اسلام آباد کی سیاسی گرما گرمی کیا رنگ لاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ